Mualim-ul-Irfan - Al-Muminoon : 42
ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قُرُوْنًا اٰخَرِیْنَؕ
ثُمَّ : پھر اَنْشَاْنَا : ہم نے پیدا کیں مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد قُرُوْنًا : امتیں اٰخَرِيْنَ : دوسری۔ اور
پھر پیدا کیں ہم نے ان کے بعد اور قومیں
ربط آیات : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ کے درس توحید کا ذکر کیا ، اور یہ بھی کہ قوم نے آپ کے ساتھ بدسلوکی کی جس کے نتیجے میں ساری قوم طوفان میں غرق ہوگئی۔ اس کے بعد اللہ نے ایک دوسرے رسول کا ذکر کیا ، اس نے بھی لوگوں کو وہی درس دیا جو پہلے انبیاء دیتے آئے تھے یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ لوگو ! اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، مگر اس قوم نے بھی رسول اور توحید کا انکار کیا اور اپنے کفر وشرک پر ہی اڑی رہی۔ اس قسم کے منکرین اور مکذبین اکثر آسودہ حال لوگ تھے جنہیں انپے وقت میں زندگی کی تمام سہولتیں حاصل تھیں۔ ایسے لوگوں نے ہمیشہ اللہ کے نبیوں کی توہین کی اور کہا کہ تم تو ہمارے جیسے انسان ہو ، ہم تمہاری پیروی کیوں کریں ؟ اس پر اللہ کے نبیوں نے خدا کی بارگاہ میں درخواست پیش کی اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی ۔ اللہ نے ظالم لوگوں پر اتنا سخت عذاب نازل فرمایا کہ انہیں صفحہ ہستی سے ناپید کردیا۔ قوموں کا عروج وزوال : اب آج کے درس میں بھی بعض قوموں کے غرور وتکبر اور ان کی تباہی کا حال بیان کیا گیا ہے۔ پھر موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی والدہ ؓ کا مختصر تذکرہ ہے ۔ ارشاد ہوتا ہوے ثم انشانا من بعدھم قرونا اخرین ، پھر ان کے بعد ہم نے بعض دیگر قوموں کو اٹھایا یعنی دنیا میں عروج دیا۔ پھر ان قوموں نے بھی اللہ کے نبیوں کی تکذیب کی اور توحید الٰہی سے انکار کیا ، تو وہ بھی عذاب الٰہی میں مبتلا ہو کر نیست ونابود ہوگئیں ، اللہ نے فرمایا کہ ہر نافرمان قوم کی سزا کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ ماتسبق من امۃ اجلھا وما یستاخرون ، کوئی قوم یا امت اپنے مقررہ وقت سے نہ تو سبقت کرتی ہے اور نہ پیچھے ہوتی ہے بلکہ عین وقت مقررہ پر تباہ وبرباد ہوجاتی ہے۔ فرمایا ثم ارسلنا رسلنا تترا ، پھر ہم نے بھیجے اپنے رسول لگاتار ، پے درپے ۔ کلما جاء امۃ رسولھا کذبوہ ، جب بھی کسی قوم کے پاس اس کا رسول آیا ، انہوں نے اسے جھٹلادیا۔ تاریخ انسانی بتاتی ہے کہ ہر نبی کا اتباع بہت تھوڑے لوگوں نے کیا اور ان کی غالب اکثریت نے رسولوں کی مخالفت ہی کی۔ فرمایا فاتبعنا بعضھم بعضا پھر ہم نے ان کے بعض کو بعض کے پیچھے لگایا ، یعنی پہلے لوگوں کو ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ہلاک کرکے ان کی جگہ دوسروں کو کھڑا کیا۔ پھر انہوں نے بھی نافرمانی کی تو ان کو بھی اس طور پر نیست ونابود کیا وجعلنھم احادیث کہ انہیں قصہ کہانی یا افسانہ بنا کر رکھ دیا۔ ان کافرد واحد بھی دنیا میں زندہ نہ رہا اور قوم کا نام ونشان محض قصے کہانیوں میں محدود ہوکررہ گیا۔ لوگ تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ کسی زمانے میں فلاں قوم فلاں جگہ پر آباد تھی۔ آمدہ نسلوں نے ان کی بستیوں کے کھنڈرات میں سے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ان کے آثار نکالے اور انہیں عجائب گھروں کی زینت بنادیا۔ فرمایا فبعدا لقوم لا یمومنون پس ہلاکت اور تباہی ہے ، خدا کی رحمت سے دوری ہے ایسی قوم کے لئے جس کے افراد ایمان نہیں لاتے۔ موسیٰ اور ہارون کی بعثت : اللہ نے فرمایا کہ جب سابقہ ادوار گزر گئے ، نافرمانوں کو سزا مل چکی تو پھر آخر میں ثم ارسلنا موسیٰ واخاہ ھرون ، پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون (علیہما السلام) کو بھیجا بایتنا وسلطن مبین اپنی نشانیوں اور کھلی سند کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور یدبیضا جیسے واضح معجزات عطا فرمائے جن کا قوم کوئی جواب نہ دے سکی بلکہ آپ کا مقابلہ کرنے والے چوٹی کے جادو گر مغلوب ہوگئے اور وہ آپ پر ایمان لے آئے۔ الی فرعون وملائہ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) دونوں بھائی تھے اللہ نے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور ان کی درخواست پر ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبوت عطا کی۔ اللہ نے ان دونوں کو فرعون اور اس کے حواریوں کی طرف بھیجا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت ابتدائی طور پر فرعون کی قبطی قوم کی طرف تھی اور آپ کو بنی اسرائیل کی آزادی اور ان کی اصلاح کے کام پر بھی مامور کیا گیا اس طرح آپ قبطی اور بنی اسرائیل دونوں کی طرف رسول تھے۔ اللہ نے فرمایا اذھب …………طغی (آیت 17) فرعون کی طرف جائو کہ وہ سرکش ہوچکا ہے اور اس نے انا ربکم الاعلی (النزعت 24) کا نعرہ لگایا ہے۔ اس نے خدائی کا دعویٰ کردیا ہے ۔ جاکر اس کو خدا کا پیغام سنائو اور توحید کی دعوت دو ۔ اللہ کے حکم کے مطابق جب اللہ کے دونوں نبی فرعون اور اس کی قوم کے پاس پہنچے ، انہیں توحید خالص کی دعوت دی۔ فاستکبروا تو انہوں نے تکبر کیا۔ اللہ کے نبیوں کو حقیر جانا اور ان کی دعوت کا مذاق اڑایا۔ اللہ نے فرمایا وکانوا قوما عالین یہ بڑے مغرور لوگ تھے ، اپنے آپ کو دوسروں سے بلندو برتر سمھتے تھے۔ فقالوا انومن لبشرین مثلنا کہنے لگے کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لائیں۔ ہماری طرح یہ بھی کھاتے پیتے چلتے پھرتے اور دیگر لوازمات رکھتے ہیں۔ ان کو ہم پر کون سی برتری حاصل ہے بلکہ وقومھما لنا عبدون ان کی تو ساری قوم ہماری غلام ہے ہم ان بنی اسرائیل سے حسب منشا خدمت لیتے ہیں۔ بھلا ہم اپنے غلاموں کا کیسے اتباع کرسکتے ہیں ؟ فکذبوھما ، پس قوم نے اللہ کے دونوں نبیوں کی تکذیب کی ، ان کی بات ماننے سے انکار کردیا فکانوا من المھلکین ، اور ہوگئے وہ ہلاک ہونے والوں میں۔ تمام بڑے بڑے سرداروں ، ان کے باڈی گارڈوں اور دوسرے لوگ کو سمندر میں غرق کردیا گیا اور اللہ نے ان کو ذلت ناک سزا سے دوچارہ کیا۔ نبیوں کی بشریت لوگوں کے لئے ہمیشہ قابل اعتراض رہی ہے۔ کہتے تھے کہ یہ ہمارے جیسے انسان ہو کر ہمیں کیا سبق پڑھا سکتے ہیں ، انہیں ہم پر کون سی برتری حاصل ہے ؟ یہ بھی ہماری طرح پیدا ہوتے ، فوت ہوتے زندگی میں کاروبار کرتے ، چلتے پھرتے اور سودا سلف خریدتے ہیں ، ہم کس بنا پر انہیں نبی تسلیم کرلیں ؟ لوگوں کی بیوقوفی کی وجہ سے یہ چیز ایمان کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ بنی رہی ہے ، مگر ان لوگوں کو سمجھ ہوتی تو وہ بعثت انبیاء کو غنیمت سمجھ کر قبول کرتے ، ان کی بات کو سنتے ، سمجھتے اور پھر اس پر عمل پیرا ہوجاتے کیونکہ ان کی سلامتی کا یہی ایک واحد راستہ تھا۔ اللہ نے تو نبی بھیج کر ان پر خاص مہربانی فرمائی تاکہ وہ راہ حق کو پاکر ہمیشہ کی کامیابی حاصل کرلیں ، مگر اللہ کے اس فضل کو لوگوں نے از خود عیب بنالیا ، اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ مخالفت کرکے جہنم رسید ہوگئے۔ تورات کا نزول : پھر فرمایا وقلد اتینا موسیٰ الکتب ، اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات عطا فرمائی۔ یہ بنی اسرائیل کے لئے خصوصی اور دوسرے لوگوں کے لئے عمومی سامان ہدایت تھا تاکہ لوگ اس پر عمل پیرا ہو کر منزل مقصود تک پہنچ جائیں اور انہیں فلاح حاصل ہوجائے۔ یہ اس دور کی عظیم الشان کتاب بھی جس کے لئے خود بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے قانون کی کوئی کتاب نازل کرنے کی درخواست کرو جس پر ہم آزادانہ ماحول میں عمل درآمد کرسکیں۔ اور اس کتاب کا مقصد یہ تھا لعلھم یھتدون تاکہ لوگ اس کے ذریعے ہدایت حاصل کرسکیں۔ اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ بنی اسرائیل نے اس کتاب پر کسی حد تک عمل درآمد بھی کیا مگر بعد میں انہوں نے اس میں تحریف کرکے اس کی اصل شکل و صورت کو مسخ کردیا۔ اس کی تفصیلات قرآن پاک میں مختلف مقامات پر موجود ہیں۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا تذکرہ : سلسلہ بنی اسرائیل کے آخری رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تھے لہذا اب آخر میں اللہ نے ان کا ذکر کیا ہے وجعلنا ابن مریم و امہ ایۃ ہم نے ابن مریم یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی والدہ یعنی حضرت مریم ؓ کو قدرت کی ایک اشانی بنا دیا۔ قرآن پاک میں مسیح (علیہ السلام) کو ابن مریم ؓ کے نام سے ہی موسوم کیا گیا اور مومن لوگ بھی آپ کو اسی نام سے یاد کرتے تھے یعیسی ابن مریم یعنی اے مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) مگر بعد میں عیسائیوں نے مشرکانہ عقیدہ اختیار کرلیا اور مسیح (علیہ السلام) کو کبھی خدا کہا ، کبھی خدا کا بیٹا اور کبھی تینوں میں تیسرا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس عقیدہ کی بار بار نفی کی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ آپ ایک پاکباز خاتون کے فرزند تھے۔ یہ دونوں قدرت کی نشانیاں بایں وجہ تھے کہ آپ کی پیدائش غیر معمولی طریقے سے مرد کی قربت کے بغیر ہوئی۔ اور حمل کا معمول کے مطابق نو ماہ عرصہ بھی نہیں گزرا ، جونہی فرشتے نے حضرت مریم ؓ کے گریبان یا آستین میں پھونک ماری ، آپ کو حمل ٹھہر گیا اور پھر چند گھنٹوں کے اندر اندر درد زہ شروع ہو کر عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوگئی۔ سورة المائدہ میں ہے وامہ ……………الطعام (آیت 75) آپ کی والدہ صدیقہ تھیں جو نبوت کے بعد سب سے بڑا درجہ ہے۔ کسی شخص کی نسبت اس کی ماں کی طرف کرنے کا مطلب واضح ہے کہ وہ ایک عورت کے بیٹے تھے نہ کہ خدا تعالیٰ کے۔ پھر آپ کی بشریت کا یہ بھی ثبوت ہے کہ دونوں ماں بیٹا کھانا کھاتے تھے۔ اگر خدا یا خدا کے بیٹے ہوتے تو لوازمات بشریہ سے پاک ہوتے۔ جب کھانا کھاتے تھے تو آپ کو بول وبراز کی حاجت بھی ہوتی تھی۔ یہ سب انسانی لوازمات ہیں جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا بڑی زیادتی کی بات ہے۔ بہرحال اللہ نے مختلف طریقوں سے یہ بات سمجھادی ہے کہ مسیح (علیہ السلام) انسان تھے اور ان میں الوہیت والی کوئی بات نہ تھی۔ اس میں عیسائیوں کے باطل عقیدے کا رد بھی ہوگیا۔ مقام ربوہ یارملہ : پھر انہی ماں بیٹا کے متعلق فرمایا واوینھما الی ربوۃ ہم نے دونوں کو ایک اونچی جگہ پر ٹھکانا دیا۔ اور یہ ایسی جگہ تھی ذات قرار جو برابر تھی وبعین اور ستھرے پانی والی تھی۔ اس سے مراد مقام بیت اللحم ہے جہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی تھی۔ یہ اونچی مگر ہموار جگہ ہے۔ اور اس کے نیچے پانی کا چشمہ بھی تھا ۔ جب حضرت مریم ؓ بچے کی ناگہانی پیدائش پر پریشاں ہوگئیں تو اللہ نے فرشتے کے ذریعے تسلی دی اور کہا الا تحزنی………………عینا (مریم 24 تا 26) اس کھجور کے درخت کے نیچے چلی جائو۔ اس کے تنے کو ہلائو تو تازہ کھجوریں گریں گی ، نیچے پانی کا چشمہ ہے۔ ان کو کھائو پیو۔ اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ بہرحال بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ربوہ سے مراد آپ کی جائے پیدائش ہے۔ بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ ولادت مسیح کے زمانے میں ہیرو دوس نامی حاکم وقت کو نجومیوں نے بتایا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو بڑا ہو کر تیری سلطنت چھین لگے گا۔ لہٰذا اس نے ایسے بچے کی تلاش کے لئے نگرانی شروع کردی۔ چناچہ بچے کی جان کے خوف سے حضرت مریم ؓ مسیح (علیہ السلام) کو ہمراہ لے کر شام سے مصر چلی گئیں۔ وہاں انہوں نے ایک اونچی بسی میں قیام کیا جس کے نیچے شفاف پانی کا چشمہ بھی جاری تھا۔ وہاں کے کسی زمیندار نے انکو دس بارہ سال تک بیٹی بنا کررکھا۔ اس دوران ظالم بادشاہ مر گیا اور مسیح علیہ اسلام بھی بچپن سے نکل کر جوانی میں پائوں رکھنے لگے ، تو آپ کی والدہ آپ کو لے کر واپس شام آگئیں۔ اس بستی کا نام بعض مفسرین نے رملہ بتایا ہے۔ امام ابن کثیر (رح) نے ایک حدیث بھی نقل کی ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اسے فرمایا کہ تیری موت ربوہ کے مقام پر واقع ہوگی۔ صحابہ فرماتے ہیں کہ اس شخص کو رملہ کے مقام پر موت آئی جو کہ مصر کے علاقے میں ایک اونچی جگہ ہے اور جس کی آب وہوا خوشگوار ہے اسلام کے ابتدائی دور میں یہ جگہ مسلمانوں کی چھائونی ہوا کرتی تھی ، اس کے قریب ایک نہر بھی بہتی ہے۔ اس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ رملہ وہی مقام ہے جس کو قرآن پاک اور حدیث میں ربوہ کا نام دیا گیا ہے۔ بہرحال وہ بیت اللحم تھا یارملہ کی بستی تھی جس کے متعلق اللہ نے یہاں فرمایا ہے کہ ہم نے دونوں کو ٹھکانا دیا جب کہ دشمن ان کو ہلاک کرنا چاہتا تھا۔ قادیانیوں کا دجل : تقسیر برصغیر کے بعدقادیانی ٹولہ جب قادبان سے پاکستان منتقل ہوا تو انہوں نے ضلح سرگودھا میں ایک جگہ کا انتخاب کرکے اپنا ہیڈ کو ارٹر وہاں منتقل کیا۔ ایک نئی بستی آباد کی اور اس کا نام ربوہ رکھا۔ اس نام سے وہ لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ دیکھو ! ہم سچے ہیں ، ہماری بستی کا نام تو قرآن پاک میں موجود ہے۔ دراصل مرزائیوں کا سارا فلسفہ ممات مسیح پر چلتا ہے ۔ سب سے پہلے وہ مسیح (علیہ السلام) کی وفات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کیلئے وہ قرآن پاک بعض آیات کی صریحاً غلط تاویل کرتے ہیں۔ حدیث کے مطابق جب مسیح (علیہ السلام) کے قرب قیامت میں نزول کی بات کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ مسیح تو فوت ہوچکے ہیں ، اب جن کی آمد کی پیشین گوئی کی گئی ہے وہ مسیح (علیہ السلام) نہیں بلکہ تمثیل مسیح ہیں اور وہ مرزا غلام احمد کی شکل میں دوبارہ دنیا میں آچکے ہیں۔ چونکہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے ، اس لئے کبھی یہ مرزا قادیانی کو مثیل مسیح کبھی مہدی اور کبھی مکمل نبی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ حضور ﷺ کے بعد نبوت کے سارے دعویدار کذاب ہیں۔ حضور ﷺ (ترمذی 323 (فیاض) کی پیشین گوئی بھی ہے کہ قیامت تک تیس بڑے بڑے دجال پیدا ہوں گے ۔ مگر یاد رکھو انا خاتم النبین لانبی بعدی میں سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والا ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ چناچہ اب تک جن دعویدارن نبوت کا تاریخ میں ذکر ملتا ہے ، ان میں مسیلمہ کذاب ، اسود عنسی ، بابک خرمی ، اسحاق اخرس خراسانی وغیرہ کے ناموں کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کا نام بھی شامل ہے۔ بہرحال یہ قادیانی گروہ ربوہ کے نام سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کا سدباب حکومتی سطح پر ہونا چاہیے اور اس قسم کا دھوکا دینے والا نام بدل دینا چاہیے۔
Top