Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 44
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌ١ۚ یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَ١ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ
اِنَّا : بیشک ہم اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کی التَّوْرٰىةَ : تورات فِيْهَا : اس میں هُدًى : ہدایت وَّنُوْرٌ : اور نور يَحْكُمُ : حکم دیتے تھے بِهَا : اس کے ذریعہ النَّبِيُّوْنَ : نبی (جمع) الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا : جو فرماں بردار تھے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو هَادُوْا : یہودی ہوئے (یہود کو) وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ : اللہ والے (درویش) وَالْاَحْبَارُ : اور علما بِمَا : اس لیے کہ اسْتُحْفِظُوْا : وہ نگہبان کیے گئے مِنْ : سے (کی) كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب وَكَانُوْا : اور تھے عَلَيْهِ : اس پر شُهَدَآءَ : نگران (گواہ) فَلَا تَخْشَوُا : پس نہ ڈرو النَّاسَ : لوگ وَاخْشَوْنِ : اور ڈرو مجھ سے وَ : اور لَا تَشْتَرُوْا : نہ خریدو (نہ حاصل کرو) بِاٰيٰتِيْ : میری آیتوں کے بدلے ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی وَمَنْ : اور جو لَّمْ يَحْكُمْ : فیصلہ نہ کرے بِمَآ : اس کے مطابق جو اَنْزَلَ اللّٰهُ : اللہ نے نازل کیا فَاُولٰٓئِكَ : سو یہی لوگ هُمُ : وہ الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
بیشک ہم نے اتاری ہے تورات جس میں ہدایت اور روشنی ہے فیصلہ کرتے تھے اس کے ساتھ اللہ کے نبی جو فرمانبردار تھے ‘ (وہ ان لوگوں کے لیے فیصلہ کرتے تھے ‘ جو یہودی ہوئے ‘ اور اسی کے مطابق فیصلہ کرتے تھے درویش لوگ اور عالم لوگ اس وجہ سے کہ ان کو نگران بنایا گیا تھا اللہ کی کتاب پر اور وہ اس پر گواہ تھے۔ پس نہ ڈرو تم لوگوں سے اور ڈرو مجھ سے اور نہ خریدو میری آیتوں کے بدلے قیمت تھوڑی۔ اور جو فیصلہ نہ کرے اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے پس یہی لوگ ہیں کافر
ربط آیات گذشتہ درس میں اہل کتاب کی ندمت کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ لوگ آپ کے ساتھ کیسے متفق ہو سکتے ہیں حالانکہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے اگر یہ تورات میں مذکور حکم الٰہی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو ظاہر ہے۔ کہ یہ بددیانت ہیں۔ اور آپ کے پاس اپنا مقدمہ اس لیے لائے ہیں کہ یہ اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ معاملہ زنا کا تھا جس کی سزا موت ہزاروں تغیرات کے بعد بھی تورات میں موجود ہے۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ اگر آپ کا فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق ہوگا تو مان لیں گے ‘ ورنہ نہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیں چناچہ حضور ﷺ نے انہی کے علماء سے تورات میں مذکور سزائے موت کو ثابت کیا اور پھر اس حکم کے مطابق زانی مرد زن کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ پھر حضور نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ اللہ نے میری وجہ سے تورات کے اس حکم کو زندہ کردیا جسے یہودی لوگ چھپا رہے تھے۔ اب آج کی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ کتاب تورات کی حیثیت کو واضح کیا ہے۔ اس کے مناقب بیان بیان کیے ہیں اور لوگوں کو اس کے مطابق فیصلہ کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اس کے بعد انجیل اور آخر میں قرآن پاک کے متعلق بیان آئیگا۔ نزول تورات یہاں تورات کے متعلق ارشاد ہے۔ انآ انزلنا التوراتہ ہم نے تورات کو نازل فرمایا۔ تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی اور اس کا ذکر سورة اعراف میں یوں ہے۔ وکتبنا لہ فی الالواح من کل شیٔ موعظۃ و تفصیلا لکل شیٔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تختیوں پر لکھی لکھائی کتاب عطا کی جس میں ہر قسم کی نصیحت اور قوانین موجود ہیں۔ اللہ کی نازل کردہ یہ کتاب زمانے کے دست برد سے محفوظ نہ رہ سکی اور نزول قرآن کے زمانہ تک اس میں بہت سا تغیر و تبدل ہوچکا تھا ‘ تاہم اس میں بعض اصل باتیں بھی موجود تھیں۔ مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ موجودہ تورات کی مثال بعض کتب احادیث کی طرح ہے کہ جس میں صحیح روایات بھی ہیں اور غلط بھی۔ ہر دور میں تورات تحریف کا شکار ہوتی رہی ہے۔ گذشتہ درس میں گزر چکا ہے ” یحرفون الکلم من بعد مواضعہ “ یہودی خود تورات کے احکام کو اپنے موقع محل سے بدل دیتے تھے یہ بڑے بددیانت لوگ تھے تاہم فی الجملہ تورات میں آج بھی بعض صحیح باتیں موجود ہیں۔ جو انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیم کے مطابق ہیں۔ البتہ صحیح اور غلط کا امتیاز صاحب علم لوگ ہی کرسکتے ہیں ‘ یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے چناچہ شاہ عبد العزیز (رح) فرماتے ہیں کہ تورات کا مطالعہ ہمارے خاندان کے نصاب تعلیم کا حصہ ہے۔ چونکہ یہود و نصاری سے اکثر و اسط رہتا ہے لہذا ہم نے تورات کو بھی اپنی تعلیم کا حصہ بنا رکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہمارے سلسلہ ولی اللہ کے اکثر بزرگ تورات کا مطالعہ کرکے لوگوں کی۔۔ راہنمائی کرتے رہے ہیں۔ یہ صاحب علم ہی بتاسکتا ہے۔ کہ موجود تورات کی کون سی آیت قرآن و سنت کے مطابق ہے اور کونسی اس کے خلاف ہے۔ اس وقت تورات میں بعض ایسی فحش باتیں ہیں جو اللہ کے نبیوں سے منسوب کی گئی ہیں مگر اللہ کا کوئی نبی بھی ایسی بات نہیں کرسکتا ‘ بلکہ ان کا دہرانا بھی سوء ادب ہے۔ ایسی چیزیں کتاب الٰہی کی تحریف کا زندہ ثبوت ہیں۔ مشرکین نے بھی یہودیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملت ابراہیمی میں بگاڑ پیدا کردیا تھا۔ انہوں نے دین ابراہیمی کو ایسا خراب کیا کہ بیت اللہ شریف کا طواف بالکل برہنگی کی حالت میں ہونے لگا۔ مرد اور عورتیں سب ننگا طواب کرتے تھے اور پھر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اسے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرتے تھے ‘ یا خدا کی طرف نسبت کرتے تھے کہ اللہ نے ایسا ہی حکم دیا ہے اللہ تعالیٰ نے اسکی تردید سورة اعراف میں فرمائی ہے۔ ” قل ان اللہ لایامر بالفحشآء ط اتقولون علی اللہ مالا تعلمون “ اے پیغمبر ! ﷺ آپ ا ن سے کہ دیں کہ بیشک اللہ تعالیٰ کبھی بےحیائی کی بات کا حکم نہیں دیتا۔ اس کے احکام تو صحیح اور حکیمانہ ہوتے ہیں۔ اللہ یا اس کا رسول ایسی بات نہیں کرسکتے۔ وجہ نزول تورات اللہ تعالیٰ نے تورات کو نازل فرمایا مگر بعد میں خود اس کے نزول تورات ماننے والوں نے تبدیلیاں پیدا کردیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل جب فرعون کی غلامی سے آزاد ہوگئے تو انہوں نے خود قانون الہی کا مطالبہ کیا کہنے لگے کہ ہم صدیوں سے فرعون کی غلامی میں جکڑے ہوئے تھے اور ہم اس کا قانون ماننے پر مجبور تھے۔ اب جبکہ ہم آزاد ہوچکے ہیں۔ ہمارا اپنا کوئی قانون ہونا چاہیے جس کی روشنی میں ہم اپنی زندگی بسر کرسکیں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی اس خواہش کا اظہار اللہ تعالیٰ سے کیا تو اللہ نے فرمایا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) آپ کوہ طور پر ایک ماہ کا اعتکاف کریں جس کے بعد ہم آپ کو کتاب دیں گے ‘ چناچہ آپ کوہ طور پر تشریف لے گئے ۔ اعتکاف کی مدت ایک ماہ سے بڑھ کر چالیس دن ہوگئی ‘ تاہم اس کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ نے تختیوں پر لکھی لکھائی تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمائی مگر جب قانون کی یہ کتاب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم پر پیش کی توہ اپچ پیچ کرنے لگے کہنے لگے اے موسیٰ (علیہ السلام) اس کتاب کے احکام بڑے سخت ہیں۔ لہذا سمعنا وعصینا “ ہم نے احکام سن تو لیے مگر ان پر عمل کرنے سے قاصر ہیں لہذا ہم ان کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ نے حکم دیا ” خذوا مآ اتینکم بقوۃ “ جو کچھ ہم نے دیا ہے۔ اس کو مضبوطی سے پکڑو ” واذکروا مافیہ “ اور اس کو خوب یادکرو اور اس پر عمل کرو ‘ مگر اس قوم نے حیلے بہانوں سے تورات کے احکام ماننے سے نہ صرف انکارر کردیا بلکہ اس میں طرح طرح کی تحریف کرنے لگے ‘ جو آج تک جاری ہے۔ اور اس کتاب کا بیشتر حصہ تغیر وتبدل کا شکار ہوچکا ہے۔ آسمانی کتب کے لفظی معنی تورات کا لفظی معنی قانون (LAW) ہے۔ یہ عبرانی سریانی زبان کا لفظ ہے۔ اسی طرح انجیل کے معنی بشارت کے ہیں کیونکہ اس میں نبی آخرالزمان (علیہ السلام) کے متعلق بشارت دی گئی ہے۔ تیسری آسمانی کتاب زبور ہے جس کا معنی صحیفہ ہے ” واتینا داود زبورا “ اس کتاب میں اللہ کی حمد وثنا اور اخلاقی باتیں زیادہ ہیں اور قوانین و احکام کم تعداد میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی چوتھی اور آخری کتاب قرآن پاک ہے۔ جس کا لفظی معنی پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ اصل میں قرا کا معنی جمع کرنا ہے۔ پڑھنے میں چونکہ حروف جمع کیے جاتے ہیں ‘ اس لیے اسے قرآن یعنی پڑھی جانے والی کتاب کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک کے متعلق انسائیکلو پیڈیا آف برٹیا نیکا والے لکھتے ہیں ENCYCLOPAEDIA OF BRITANNNICA; IT IS THE MOST WIDELY READ BOOK IN THE WORLD.ٍَیعنی قرآن پاک دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ ہدایت اور نور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب تورات کو نازل کیا فیھا ھدی ونور اس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ سورة نسآء میں موجود ہے ” وانزلنا الیکم نورامبینا “ ہم نے تمہاری طرف کھلا نور نازل فرمایا اس نور سے مراد چراغ یا بلب کی روشنی نہیں ہے بلکہ اس سے قلبی بصیرت مراد ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا ھذا بصآ ئر للناس “ قرآن پاک کی آیات لوگوں کے لیے بصیرت ہیں۔ جو کوئی ان کو پڑھے گا ‘ ایمان لائے گا ‘ اس کا دل روشن ہوجائے گا اور وہ حق و باطل میں امتیاز کرنے کا اہل ہو سکے گا۔ اس روشنی کی وجہ سے وہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز میں تمیز کرسکے گا۔ بہر حال نور سے مراد قلبی روشنی ہے اور ہدایت سے وہ قوانین اور ضابطے مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ ہم نے تمہاری طرف تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور ہے۔ قرآن پاک میں بینات کا ذکر بھی آتا ہے مآ انزلنا من البینت ولھدی “ جو کچھ ہم نے بینات اور ہدایت میں سے اتارا ہے مفسر قرآن مولانا عبید اللہ سندھی (رح) ہمارے زمانے میں قرآن پاک کا گہرا ادراک رکھنے والے بزرگ ہوئے ہیں۔ آپ بہت بڑے عالم اور تجربہ کار تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ بینات سے مراد وہ کھلی کھلی اور عام فہم باتیں ہیں جنہیں ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اس میں توحید ‘ ذکر ‘ شکر ‘ صبر اور نماز وغیرہ آتے ہیں۔ اور ہدایت سے مراد وہ باریک باتیں ہیں جو استاد کی تعلیم و تشریح کے ساتھ ہی سمجھ میں آسکتی ہیں ۔ الغرض فرمایا کہ تورات میں ہدایت اور روشنی ہے۔ تورات بطور حکم یحکم بھا النبیون الذین اسلموا اللہ کے نبی اس تورات کی روشنی میں فیصلے کرتے تھے اور وہ سارے انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرمانبردار تھے۔ بنی اسرائیل میں اللہ نے ہزاروں انبیاء مبعوث فرمائے جن کو حکم دیا جاتا رہا کہ اس تورات کے احکام کی نشر و اشاعت کرو۔ اسلموا کے لفظ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے سارے نبی اسلام والے لوگ تھے نہ کہ یہودیت یا نصرانیت والے۔ تمام انبیاء کا دین تو اصلاً ایک ہی رہا ہے اور وہ سارے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہی کی دعوت دیتے رہے البتہ ان میں زما ن ومکان کی وجہ سے بعض فروعات میں اختلاف پایاجاتا تھا۔ مگر بنیادی طور پر دین ایک ہی تھا۔ تو فرمایا اللہ کے نبی اسی تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے للذین ھادوا ان لوگوں کے لیے جو یہودی ہوئے۔ چونکہ تورات بنی اسرائیل کے لیے ہی نازل ہوئی تھی اس لیے اللہ کے نبی یہ قانون اس قوم پر نافذ کرتے رہے اور پھر یہ ہے کہ انبیاء کے علاوہ والربنیون رب والے یعنی درویش لوگ بھی اسی تورات کے مطابق فیصلے کرتے رہے۔ ربی کا تذکرہ پہلے بھی ہوچکا ہے۔ اللہ کی مخلوق میں ہزاروں لاکھوں درویش گزرے ہیں جو اسی کتاب کے مطابق فیصلے کرتے رہے۔ والا حبار اور عالم لوگ یعنی تورات کو جاننے اور سمجھنے والے لوگ بھی تورات کے احکام پر عمل کرتے اور کراتے رہے۔ احبار حبر یا حَبر کی جمع ہے اور اس سے وہ علماء مراد ہیں جو تورات کے حاملین تھے ۔ وہ بھی لوگوں کے فیصلے تورات کے مطابق کرتے تھے بما استحفظوا من کتاب اللہ وکانوا علیہ شھدآء اس لیے کہ ان لوگوں کو تورات کا محافظ اور نگران بنایا گیا تھا۔ اور وہ اس پر گواہ تھے یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کو تورات کی طرف دعوت دیں اور اس کے احکام پر عمل کرائیں۔ قرآن پاک اور تاریخ سے یہ بات ثابت ہے۔ کہ اہل کتاب کے علماء و مشائخ میں یقیناً تورات کے عامل موجود تھے۔ جنہوں نے تورات کو سینوں سے لگا رکھا تھا ‘ مگر بعد میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے جن کے متعلق قرآن پاک نے بتایا ” ان کثیر ا من الاحبار والرھبان لیاکلون اموال الناس بالباطل ویصدون عن سبیل اللہ “ بہت سے عالم اور درویش ایسے ہیں جو لوگوں کا ماں ناحق طریقے سے کھاتے ہیں اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ ان لوگوں نے تورات پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور اس کی بجائے غیر اللہ کی نیازیں کھانا شروع کردیں۔ اور تعویز ‘ گنڈوں اور جادو کے ذریعے لوگوں کا مال ہڑپ کرنا شروع کردیا۔ اشاعت دین میں رکاوٹ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کی مختلف صورتیں ہیں کبھی اصل احکام میں تحریف کرکے اور ان کو غلط معانی پہنا کر صحیح بات پر عمل کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اور کبھی احکام الٰہی کا صریحاً انکار کر کے اس پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ احکام الٰہی کے مکلف لوگ اپنی بےعملی کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو دین سے بدظن کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب قرآن اگر چہ تحریف سے پاک ہے اور دین اسلام محفوظ ہے۔ مگر مسلمان اپنی بےعملی کی وجہ سے دوسروں کے لیے کوئی اچھا نمونہ پیش نہیں کرتے جس کی وجہ سے غیر مسلم اسلام کے قریب آنے پر آمادہ نہیں ہوتے ‘ دنیا کے پڑھے لکھے لوگ ‘ ماہرین قانون ‘ دانشور ‘ انجینئر ڈاکٹر وغیرہ جب مسلمانوں کے عمل کی طرف دیکھتے ہیں تو اسلام سے بدظن ہوجاتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو اسلام کا عملی نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں ‘ مگر جب انہیں اسلامی اصولوں کا عملی نمونہ میسر نہیں آتا تو وہ اسلام کی طرف راغب نہیں ہوتے ‘ اس طرح گویا ہم خود لوگوں کو اسلام سے دور کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اور یہی چیز دین کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ یہاں ایک بات اور توجہ طلب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے علما و مشائخ کو تورات کا محافظ اور نگران بنایا مگر وہ کتاب الٰہی کی حفاظت کی ذمہ داری پوری نہ کرسکے جس کی وجہ سے تورات میں اس قدر تحریف ہوچکی ہے کہ ایک عمومی آدمی کے لیے اصل اور نقل میں امتیاز ممکن نہیں رہا۔ برخلاف اس کے قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ خود خدا تعالیٰ نے لیا ” انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون “ بیشک اس ذکر ( قرآن پاک) کو ہم نے ہی نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ چناچہ گذشتہ چودہ صدیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں سر ہو بھی تبدیلی نہیں آئی۔ البتہ مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ اس کتاب پر عمل پیرا نہیں رہ سکے بلکہ اس سے مسلسل اعراض برت رہے ہیں اہل اسلام کے پاس اللہ کا ایک قانون موجود ہے جو دنیا میں دیگر کسی قوم کے پاس نہیں۔ اس کے باوجود بےعملی کی وجہ سے یہ دنیا جہنم اور قید خانہ بنی ہوئی ہے جرائم کی بھر مار ہے۔ کفر وشرک کی کوئی انتہا نہیں رہی اگر اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان اس کتاب پر عمل کرکے دنیا کی کایا پلٹ سکتے ہیں ‘ تو آج مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار بحال کیوں نہیں کرسکتے۔ کتاب اللہ سے اعراض آج مسلمان پوری دنیا میں سیاسی اقتدار سے محروم ہیں بعض اسلامی مملکتوں کے پاس سرمایہ کی کمی نہیں ‘ تمام وسائل بھی موجود ہیں مگر وہ خدا کی کتاب پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں کہیں شخصی حکومت ہو یا جمہوریت ‘ سرمایہ دارانہ نظام ہو یا اشتراکی ‘ سب نے قرآن پاک کی تعلیمات کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ اسلامی نظام حکومت اپنانے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ‘ یہودیوں کی بیماری مسلمانوں میں بھی پیدا ہوگئی ہے۔ یعنی جو حکم اپنی مرضی کے مطابق ہے اسے قبول کرلو اور جو اپنی خواہش کے خلاف ہے اسے چھوڑ دو ۔ آج مسلمانوں نے قرآن و سنت کو اپنی مرضی کے تابع کرلیا ہے ‘ ان حالات میں دنیا حقیقی ترقی کی منازل کیسے طے کرسکتی ہے ‘ یہ اہل کتاب والا نفاق ہے جس میں مسلمان بھی مبتلا ہوچکے ہیں۔ جس تک اس خطہ ارضی پر انگریز حکومت کرتارہا اس وقت تک ایک بہانہ موجود تھا مگر اب قرآن و سنت کا نظام اپنانے میں کونسا امر مانع ہے۔ ابھی تک دو سو سال پرانا انگریز کا بنایا ہوا عدالتی نظام رائج ہے ‘ ہم ابھی تک اسے نہیں بدل سکے۔ اصل بات یہ ہے کہ کتاب اللہ کی بالادستی کا جذبہ ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے ‘ ہم ابھی تک خود ساختہ قوانین کے غلام بنے بیٹھے ہیں ۔ اس معاملہ میں نہ کوئی انفرادی کوشش ہورہی ہے اور نہ اجتماعی ‘ نہ کوئی حکومت اس طرف توجہ دیتی ہے نہ کوئی سیاسی پارٹی۔ ہر ایک کو اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے ‘ اعلائے کلمۃ الحق کا جذبہ مفقود ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ کتاب اللہ سے اعراض کا نتیجہ ہے۔ غیر اللہ کا خوف فرمایا کتاب اللہ پر عمل کرنے کے خلاف کسی کو خاطر میں نہ لائو فلا تخشوا الناس اس معاملے میں لوگوں سے مت ڈرو کہ اگر کتاب اللہ پر عمل شروع کردیا تو وہ کیا کہیں گے۔ کسی فرد یا جماعت کی پروانہ کرو ‘ کسی بڑی سے بڑی حکومت کو خاطر میں نہ لائو کہ اسلامی نظام اپنانے سے وہ کیا کہیں گے۔ فرمایا باطل پرست لوگوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلو واخشونی اور صرف مجھ ہی سے ڈرو۔ کہ کہیں میرے احکام کی خلاف ورزی نہ ہوجائے اگر تم دنیا کی سپر طاقتوں اور نام نہاد مہذب قوموں کی طرف دیکھتے رہے تو نہ تم اسلامی معاشرہ قائم کرسکو گے اور نہ دنیا کو امان و چین نصیب ہوگا۔ ایسی صورت میں تم اغیار کے غلام بن کر رہ جائو گے۔ نہ تمہارا ذہن اپنا ہوگا اور نہ سیاست۔ حضور ﷺ کے صحابہ کرام ؓ تو چھوٹی سے چھوٹی سنت پر عمل کرنے میں حجاب محسوس نہیں کرتے تھے ‘ مگر آج ہمارے اخلاق کا دیوالیہ ہی نکل چکا ہے ‘ ہم خدا تعالیٰ کی بجائے غیر اللہ سے خوفزدہ ہیں۔ حضرت حذیفہ ؓ کا واقعہ حدیث میں آتا ہے کہ کھانا کھاتے وقت ایک لقمہ ہاتھ سے گرپڑا۔ آپ نے اسے فوراً اٹھایا اور صاف کرکے کھالیا۔ کسی نے کہا کہ یہاں کے لوگ تو اسے معیوب سمجھتے ہیں ‘ حضرت حذیفہ ؓ نے عجیب جواب دیا۔ کہنے لگے اترک سنۃ حبیبی محمد لقول ھئولاء الحمنقآء کیا میں ان بیوقوفوں کے کہنے پر اپنے پیارے پیغمبر محمد ﷺ کی سنت کو ترک کردوں۔ آج یہ جذبہ ختم ہوچکا ہے ‘ ہم نے ہر کام کے لیے اغیار کی طرف دیکھنا شروع کردیا ہے جس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ کتاب اللہ پر عدم اعتقاد فرمایا مجھ سے ڈرو ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا اور نہ خریدو میری آیتوں کے بدلے دنیا کا حقیر سامان یعنی تھوڑی قیمت۔ مقدمات کے غلط فیصلے ‘ رشوت لے کر غلط فتوی دینا۔ حکم کو تبدیل کرکے لوگوں کی مرضی کے مطابق ڈھا لنا یہ سب کچھ چنڈ ٹکوں کے لیے کیا جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا۔ دنیا کے حقیر مال کے بدلے میری آیتوں کو نہ بیچ ڈالو ‘ یہ بالآخر ختم ہونے والی ہے اور پھر تمہیں اپنے کیے پر سخت ندامت ہوگی۔ یادرکھو اللہ کے احکام کی خلاف ورزی نہ کرو کیونکہ ومن لم یحکم بما انزل اللہ جس نے اللہ کے نازل کرد ہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کیا فاولئک ھم الکفرون پس یہی لوگ کافر ہیں۔ امام محمد (رح) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ جس نے خدا کے نازل کردہ احکام پر دل سے یقین نہ کیا تو وہ صریح کافر ہے۔ اور اعتقاد ہے مگر اس پر عمل نہیں تو اس کا حکم اگلی آیتوں میں آرہا ہے ایسے لوگوں کو ظالم اور فاسق کہا گیا ہے۔ یہود کا حال یہ تھا کہ کتاب للہ پر ان کا اعتقاد ہی اٹھ چکا تھا ‘ وہ اللہ کے احکام کو اپنی خواہش کے مطابق چلانے لگے تھے۔ قرآن پاک کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔ جو اللہ کی کتاب اور اس کے احکام پر مکمل اعتقاد نہ رکھے ‘ انہیں غیر ضروری تصور کرے وہ قطعی کافر ہے۔ برطانیہ ‘ فرانس ‘ امریکہ اور روس کے نظام کو برتر سمجھنے والا صریح کافر ہے۔
Top