Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 45
وَ كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ١ۙ وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ١ۙ وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌ١ؕ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ١ؕ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
وَكَتَبْنَا : اور ہم نے لکھا (فرض کیا) عَلَيْهِمْ : ان پر فِيْهَآ : اس میں اَنَّ : کہ النَّفْسَ : جان بِالنَّفْسِ : جان کے بدلے وَالْعَيْنَ : اور آنکھ بِالْعَيْنِ : آنکھ کے بدلے وَالْاَنْفَ : اور ناک بِالْاَنْفِ : ناک کے بدلے وَالْاُذُنَ : اور کان بِالْاُذُنِ : کان کے بدلے وَالسِّنَّ : اور دانت بِالسِّنِّ : دانت کے بدلے وَالْجُرُوْحَ : اور زخموں (جمع) قِصَاصٌ : بدلہ فَمَنْ : پھر جو۔ جس تَصَدَّقَ : معاف کردیا بِهٖ : اس کو فَهُوَ : تو وہ كَفَّارَةٌ : کفارہ لَّهٗ : اس کے لیے وَمَنْ : اور جو لَّمْ يَحْكُمْ : فیصلہ نہیں کرتا بِمَآ : اس کے مطابق جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اور ہم نے لکھ دیا تھا ان (بنی اسرائیل) پر۔ اس (تورات میں کہ بیشک جان کے بدلے جان ( کو قتل کیا جائے گا ‘ اور آنکھ کے بدلے آنکھ ‘ اور ناک کے بدلے ناک ‘ اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت ‘ اور زخموں کا قصاص ہے۔ اپس جس شخص نے معاف کردیا ‘ پس وہ اس کے لیے کفارہ ہوگا ‘ اور جس نے حکم نہ کیا اس چیز کے ساتھ جس کو اللہ نے نازل کیا ہے۔ پس یہی لوگ ظالم ہیں
ربط آیات اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ہم نے تورات کو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمایا ‘ اس میں ہدایت اور روشنی ہے اللہ کے نبی اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے ‘ مگر اس میں بنی اسرائیل نے گڑ بڑ پید ا کردی وہ تورات پر عمل نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ اس میں انہوں نے لفظی اور معنوی اور دو طرح سے تحریف کردی۔ الفاظ کو بھی تبدیل کردیا اور معانی بھی الٹ پلٹ کردیے مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو لوگ اللہ کی نازل کردہ تورات کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے ‘ وہ کافر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ احکام شریعت پر عدم اعتقاد اور اس کی تصدیق کفر کے مترادف ہے۔ اور اگر کوئی شخص کتاب اللہ کی تصدیق کرنے کے بعد اس پر عمل نہیں کرتا ‘ تو وہ کفر ان نعمت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی یہی خرابی بیان فرمائی ۔ اسی تسلسل میں اللہ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے بیٹوں کا ذکر کرنے کے فعد فرمایا من اجل ذلک “ اس وجہ سے یعنی لوگوں کو ظلم سے بچانے اور قتل ناحق کو روکنے کے لیے اللہ نے بنی اسرائیل کو یہ تعلیم دی تھی کہ جو کوئی کسی کو ناحق قتل کرے گا یا کسی ایسے شخص کو قتل کرے گا جو زمین میں فساد کا مرتکب نہیں ہوا ‘ تو ایسا کرنا پوری نسل انسانی کو قتل کرنے کے برابر ہے۔ اور جو کوئی کسی ایک جان کی حفاظت کرتا ہے ‘ وہ گویا پوری نسل انسانی کی حفاظت کرتا ہے۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی طرف سے نقض عہد کا ذکر کیا تھا۔ یہود اور نصاریٰ دونوں گروہ اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد و پیمان کو توڑ نے کے مرتکب ہوئے تھے۔ اسی عہد شکنی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبیین ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ” ولا تزال تطلع علی خآ ئنۃ منھم “ کہ آپ ان کی خیانتوں پر برابر مطلع ہوتے رہیں گے۔ چناچہ زنا کا جو واقعہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا اس میں تورات کے احکام کو چھپا کر یہودیوں نے مذہبی خیانت کا ارتکاب کیا۔ مگر اللہ نے اس کو ظاہر کردیا۔ دوسرا معاملہ یہودیوں کے دو قبیلوں بنو قریظہ اور بنو نضیر کے درمیان قصاص کا تھا۔ ان میں سے بنو نضیر اپنے آپ کو بنو قریظہ پر فوقیت دیتے تھے اگر بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے کسی شخص سے قتل ہوجاتا تو اس کا قصاص نہیں دلاتے تھے کیونکہ وہ بنو قریظہ کو حقیر سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ایک معمولی آدمی کے بدلے معزز شخص کی جان نہیں لی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے تورات میں قانون قصاص سب کے لیے مساوی درجے کا نازل فرمایا تھا ‘ اس میں چھوٹے بڑے ‘ امیر غریب ‘ اعلیٰ و ادنی کی کوئی تفریق نہ تھی مگر انہوں نے مختلف خاندانوں کے درمیان تفریق پیدا کرکے اپنی خیانت کا ایک اور ثبوت فراہم کردیا تھا۔ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے تو قصاص کا واضح قانون دیا تھا وکتبنا علیھم فیھا ہم نے ان پر اس تورات میں لکھ دیا تھا ان النفس بالنفس کہ بیشک جان کے بدلے جان ہے۔ اس میں کسی چھوٹے بڑے کا امتیاز نہیں۔ قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کیا جائے گا۔ یہ قانون تو اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے تورات میں بیان فرمایا ‘ تاہم شریعت محمدیہ میں بھی یہی قانون نافذ ہے۔ کہ کسی مسلمان کے قتل عمد میں قاتل کو بھی قتل کیا جائے گا۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے فتویٰ کے مطابق ذمی آدمی کا مال وجان اور عزت و آبرو بھی اسی طرح محفوظ ہے جس طرح ایک مسلمان کا۔ ذمی کے بدلے میں مسلمان کو بھی قتل کیا جائیگا۔ بشرطیکہ ذمی کا قتل قتل عمد ہو۔ اگر قتل عمد نہیں بلکہ قتل خطا ہے یا قتل شبہ عمد ہے تو اس صورت میں قصاص کی بجائے دیت ادا کرنا ہوگی۔ جیسا کہ گزشتہ شورۃ میں بیان ہوچکا ہے ‘ قتل خطایہ ہے کہ ارادہ کسی جانور وغیرہ کو مارنے کا تھا مگر غلطی سے کوئی انسان زد میں آکر قتل ہوگیا۔ اور قتل شبہ عمد کی تعریف یہ ہے کہ موت کسی ایسے آلہ سے واقع ہوئی ہو جو عام طور پر قتل کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ غرضیکہ حنفی میں ذمی کا قتل۔ بھی مسلمان کے قتل کے برابر ہے۔ تاہم بعض دیگر ائمہ کرام فرماتے ہیں کہ ذمی اگرچہ مسلمانوں کی رعایا ہے مگر وہ کافر تو بہر حال ہے اور اس کے متعلق حضور ﷺ کا فرمان ہے لایقتل مئومن بکافر یعنی کافر کے بدلے مومن کو قتل نہیں کیا جائیگا ‘ لہذا ذمی کا فر کے قصاص میں مومن کی جان نہیں لی جاسکتی ہے۔ مگر امام صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حکم ذمی کا فر کے لیے نہیں بلکہ حربی کافر کے لیے ہے ‘ پر امن غیر مسلم شہر ی پر یہ حکم عاید نہیں ہوتا۔ امام صاحب (رح) کا قول عقلی طور پر بھی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس سے انسانیت کا احترام ظاہر ہوتا ہے اور یہ ایک ایسا اصول ہے جو غیر مسلموں کو اسلام کے قریب آنے میں مدد دیتا ہے۔ اعضاء کا قصاص جان کے بدلے جان کے بعد مختلف اعضاء تلفی کے متعلق فرمایا والعین بالعین آنکھ کے بدلے میں آنکھ ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کی آنکھ پھوڑتا ہے تو قصاص میں اس کی آنکھ بھی پھوڑی جائیگی والانف بالانف اگر کسی کا ناک کاٹا ہے تو اس کے بدلے میں اس کی ناک کو کاٹا جائیگا۔ والاذن بالاذن اگر کسی کا کان ضائع ہوا ہے۔ تو اسے بھی کان کاٹنے کی اجازت ہے۔ والسن بالسن اور دانت کا قصاص دانت ہی ہے۔ اگر دانت ضائع ہوا ہے تو ضرب لگانے والے کا دانت بھی اکھاڑا جائیگا۔ والجروح قصاص اور تمام زخموں میں قصاص ہے جس قسم کا زخم کسی کو لگایا گیا ہے۔ اسی قسم کا زخم بدلے میں لگایا جائیگا۔ غرضیکہ قصاص کا قانون ایک ایسا قانون ہے جو فسادفی الارض کرنے والے کو مجبور کرتا کہ وہ کسی کو نقصان پہنچانے سے پہلے اس کے نتائج پر اچھی طرح غور کرے یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اعضا اور زخموں کا قصاص اسی صورت جائز ہے۔ جب کہ وہ لگائے گئے زخم کے عین مطابق ہو اور اس میں کمی بیشی ممکن نہ ہو۔ مثال کے طور پر اگر ناک نچلے حصے سے کٹی ہے جہاں پر ہڈی نہیں تو قصاص میں ناک کا اتنا حصہ کاٹ دینا تو ممکن ہے ‘ لکین اگر اوپر والے حصے میں ناک کی ہڈی بھی توڑی گئی ہے تو قصاص میں اسی جگہ بعینہ اتنی ہڈی توڑنا ممکن نہیں کیونکہ ایسا کرنے میں تھوڑی بہت کمی بیشی ضرور واقع ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی شخص کی ٹانگ کی یا بازو کی ہڈی توڑی گئی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ بعینہ اسی جگہ سے اتنی ہی ہڈی قصاص میں توڑی جائے ‘ تو ایسے حالات میں قصاص ممکن نہیں رہتا ‘ لہٰذا ہر ایسے زخم کے بدلے میں قصاص کی بجائے دیت لازم آئیگی۔ فرمایا فمن تصدق بہ فھو کفارۃ لہ جو کوئی لگائے گئے زخم کا صدقہ کردے یعنی جارح کو معاف کردے تو اس کا یہ فعل اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔ معانی کی صورت یہ ہے کہ زخم خوردہ نہ تو قصاص میں زخم لگانے والے کو زخم لگائے اور نہ اس سے ویت وصول کرے۔ تو یہ بہت بڑا کام ہے۔ اللہ اس سے اس شخص کے سابقہ گناہوں کا کفارہ بنادے گا۔ اگر مضروب پوری دیت معاف کردیتا ہے تو آخرت میں اس کے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ اور نصف دیت معاف کرتا ہے تو نصف گناہوں کی معانی کا حقدارہو جائیگا۔ بہر حال یہ متقیوں کا شیوہ ہے۔ معافی کا قانون یہ ہے کہ قتل کی صورت میں مقتول کا ولی معاف کرسکتا ہے ‘ اگر مقتول کے کئی وارث ہوں تو سب کی رائے لی جائیگی۔ البتہ اگر ان میں سے ایک وارث بھی قاتل کو معاف کرتا ہے تو اس سے قصاص ٹل جائے گا۔ البتہ ویت دینا پڑیگی۔ اور اگر مکمل معافی ہوجاتی ہے تو یہ مقتول کے گناہوں کا کفارہ بن جائیگا۔ زخم خوردگی کی صورت میں معافی کا اختیار خود مضروب کو حاصل ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو قصاص یا ویت لے لے اور اگر وہ بالکل معاف ہی کردیتا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے اور اس کے لیے آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ آگے فرمایا کہ قصاص کا قانون تو یہ ہے۔ البتہ ومن لم یحکم بمآ انزل اللہ جو کوئی اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ‘ فاولئک ھم الظلمون تو یہی لوگ ظلم کرنے والے ہیں گذشتہ درس میں ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ کافر ہیں کیونکہ انہوں نے اللہ کے احکام کی تصدیق ہی نہیں کی ‘ اور جو شخص قانون الٰہی کو برحق تسلیم کرتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ہے وہ ظالم ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) بطور مصدق فرمایا کہ عیسائیوں کا حال بھی یہودیوں سے ملتا جلتا ہے۔ ان میں تعصب عناد ‘ ظلم و زیادتی اور سنگدلی اگرچہ یہودیوں سے قدرے کم ہے ‘ مگر خدا کی کتاب سے اعراض اور تاویل و تحریف کرنے میں عیسائی بھی یہودیوں سے کم نہیں۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا وقفینا علی اثار ھم بعیسی ابن مریم ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو انبیاء کے نقش قدم پر بھیجا۔ آپ بنی اسرائیل کے سب سے آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد چھ سو سال تک دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا اور سلسلہ نبوت کے آخری مرحلہ میں حضور خاتم النبیین ﷺ کی بعثت ہوئی۔ آپ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان کوئی نبی نہیں آیا۔ اسی لیے آپ کا ارشاد ہے انا اولی بعیسی ابن مریم یعنی میں عیسیٰ (علیہ السلام) سے زیادہ قریب ہوں۔ آپ کی کتاب کا نام انجیل ہے ‘ جس کا معنی بشارت ہے کیونکہ اس میں ختم المرسلین ﷺ کی بشارت دی گئی ہے۔ جیسا کہ سورة صف میں موجود ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے کہا ‘ کہ میں تمہاری طرف رسول بن کے آیا ہوں ‘ میں تمہارے پاس موجود کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں ” ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “ میں اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہوگا۔ چناچہ گذشتہ صدی تک مختلف اناجیل میں فارقلیط کا لفظ موجود تھا جس کا عربی متبادل احمد ہے مگر یہ لفظ تحریف کی نذر ہوچکا ہے۔ انجیل بطور ہدایت اور روشنی یہاں بھی فرمایا کہ ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو پیچھے لگایا مصدقا لما بین یدیہ من التورۃ جو تصدیق کرنے والے تھے اس چیز کی جو ان کے پاس تھی یعنی تورات واتینہ الانجیل اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی ‘ تورات کی طرح انجیل بھی ایسی کتاب تھی فیہ ھد و نور جس میں ہدایت اور روشنی تھی اس میں ایسے اصول و ضوابط تھے جن پر عمل پیرا ہونے سے انسان۔۔۔۔ کی اصلاح ہوتی ہے اور تورات کی طرح انجیل کی روشنی سے بھی شکوک و شبہات دور ہوتے تھے اور انسان کا ذہن بالکل صاف ہوجاتا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے متعلق بھی فرمایا وانزلنآ الیکم نور مبینا “ ہم نے تم پر واضح نور نازل فرمایا ‘ جہاں کہیں شبہ پڑے ‘ قرآن پاک کی طرف رجوع کرو یہ تمہارے تمام مسائل حل کردے گا۔ البتہ فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون “ اگر تم خود مسائل کو اخذ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو اہل علم لوگوں سے دریافت کرلو ‘ وہ قرآن پاک سے اسنباط کر کے بتائیں گے۔ کہ فلاں فلاں مسئلہ فلاں فلاں آیت سے حل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم کتاب اس لیے نازل فرمائی ہے ” لتخرج الناس من الظلمت الی النور “ تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں ‘ کفر ‘ شرک ‘ نفاق ‘ بدعمنی ‘ فسق ‘ و فجور یہ سب ظلمت ہے۔ آپ ان سے نکال کر اطاعت ‘ اخلاص ‘ توحید اور نیکی کی روشنی کی طرف لائیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ روشنی سے یہ ظاہری روشنی مراد نہیں ہے بلکہ اس سے دل کی بصیرت مراد ہے۔ قرآن پر ایمان لا کر اسے پڑھنے سے دل کی تاریکی دور ہوتی ہے ‘ انسان اچھے برے ‘ توحید ‘ شرک ‘ حلال حرام اور نیکی بدی میں امتیاز کرنے لگتا ہے ‘ وحی الٰہی زندگی کے ہر موڑ پر انسان کے لیے روشنی کا کام دیتی ہے۔ معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی ‘ مسئلہ سیاسی ہو یا معاشی ‘ دین کا ہو یا دنیا کا ‘ تنازعہ جنگ کا ہو یا صلح کا۔ تمام مواقع پر کتاب الٰہی روشنی مہیا کرے گی۔ بشرطیکہ اس کو صدق دل سے تسلیم کرلیا جائے ‘ جو شخص اس کی حقیقت کو تسلیم ہی نہ کرے وہ اس سے راہنمائی کیسے حاصل کرسکتا ہے۔ جو شخص دن میں آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائے وہ روشنی سے کیسے استفادہ کرسکیگا ارور جو مکان کا دروازہ بند کرے اسے سورج کی روشنی اور گرمی کیسے حاصل ہوگی۔ بہرحال فرمایا کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو انجیل عطا کی جو پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والی تھی۔ جس طرح ہر آسمانی کتاب اپنے سے پہلے آنے والی کتاب کی تصدیق کرتی رہی ‘ اسی طرح ہر نبی اپنے سے پہلے انبیاء کی تصدیق کرتارہا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا ولا حل لکم بعض الذی حرم علیکم “ میرے آنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بعض ایسی چیزوں کو حلال قرار دے دوں جو پہلے بنی اسرائیل پر حرام تھیں۔ یہ علت و حرمت بھی من جانب اللہ تھی۔ اس نے اپنی حکمت کے مطابق جب چا ہا کسی چیز کو حرام کردیا اور جب چاہا حلال قرار دیدیا۔ فرمایا انجیل کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے و مصدقا لما بین یدیہ من التورۃ جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) تورات کی تصدیق کرنے والے تھے اسی طرح انجیل بھی تورات کی تصدیق کرنے والی تھی وھد ی وموعظۃ للمتقین یہ کتاب متقیوں کے لیے ہدایت اور نصیحت تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ ہدایت اور نصیحت اسی کو مفید ہوسکتی ہے جو اس پر عمل پیرا ہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا جو شخص صراط مستقیم پر سفر کا آغاز کرتا ہے۔ اس کو پہلے ہی دن غیب سے آواز آتی ہے کہ اللہ کے بندے ! اس سیدھی سڑک پر چلتے جائو ‘ اور دائیں بائیں نظر آنے والی پگڈنڈیوں اور دروازوں کی طرف متوجہ نہ ہونا۔ فرمایا یہ ندا کنندہ اللہ کا قرآن ہے۔ جب کوئی شخص مسلمان ہوتا ہے تو یہ قرآن پاک اس کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اور غلط راستوں پر پڑ کر گمراہ ہونے سے خبر دار کرتا ہے۔ سیدھا راستہ حظیرۃ القدس تک راہنمائی کرتا ہے جب کہ غلط راستہ جہنم تک لے جاتا ہے۔ عمل بالا نحیل فرمایا کہ بنی اسرائیل پر یہ فرض عاید ہوتا ہے ولحکم اھل الانجیل بمآ انزل اللہ فیہ اور چاہیے کہ فیصلہ کریں اہل انجیل اس کے مطابق جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر عیسائی انجیل پر ٹھیک ٹھیک ایمان لے آئیں اور اس پر عمل کریں تو پھر انہیں قرآن پاک اور حضور خاتم النبیین (علیہ السلام) کی تصدیق بھی کرنا پڑیگی اور وہ اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔ بگڑی ہوئی عیسائیت پر قائم رہنا محض جہالت ہے۔ یہ تعصب اور عناد کی وجہ سے اب تک ہو رہا ہے فرمایا۔ یادرکھو ! ومن لم یحکم بمآ انزل اللہ جو کوئی اللہ کی نازل کردہ چیز کے مطابق فیصلہ نہیں کریگا فاولئک ھم الفسقون پس یہی لوگ نافرمان ہیں۔ اگر یہ لوگ کتاب اللہ کی دل سے تصدیق نہیں کرتے تو کامل درجے کے نافرمان اور دائرہ ملت سے خارج ہیں۔ اور اگر تصدیق کرنے کے باوجود عمل اس کے خلاف ہے تو پھر سخت مجرم ‘ فاسق اور ظالم ہیں۔ یہ ملت حنیفیت کے پیروکار نہیں ہیں ‘ بلکہ گمراہ ہیں۔ مسلمانوں کا حال بھی یہی ہے ‘ قرآن و سنت پر ایمان لانے کے باوجود تمام فیصلے اس کے خلاف کرتے ہیں ‘ ایسے لوگ فاسق اور ظالم ہیں۔ ممبران اسمبلی جج صاحبان اور قانون سے متعلقہ تمام لوگ اس کی زد میں ہیں۔ انہیں چاہیے کہ ایسے حالات پیدا کریں جن میں تمام فیصلے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کے مطابق طے پائیں۔
Top