Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 46
قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَكُمْ وَ اَبْصَارَكُمْ وَ خَتَمَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِهٖ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ هُمْ یَصْدِفُوْنَ
قُلْ
: آپ کہ دیں
اَرَءَيْتُمْ
: بھلا تم دیکھو
اِنْ
: اگر
اَخَذَ اللّٰهُ
: لے (چھین لے) اللہ
سَمْعَكُمْ
: تمہارے کان
وَاَبْصَارَكُمْ
: اور تمہاری آنکھیں
وَخَتَمَ
: اور مہر لگادے
عَلٰي
: پر
قُلُوْبِكُمْ
: تمہارے دل
مَّنْ
: کون
اِلٰهٌ
: معبود
غَيْرُ
: سوائے
اللّٰهِ
: اللہ
يَاْتِيْكُمْ
: تم کو لا دے
بِهٖ
: یہ
اُنْظُرْ
: دیکھو
كَيْفَ
: کیسے
نُصَرِّفُ
: بدل بدل کر بیان کرتے ہیں
الْاٰيٰتِ
: آیتیں
ثُمَّ
: پھر
هُمْ
: وہ
يَصْدِفُوْنَ
: کنارہ کرتے ہیں
اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ‘ اے لوگو ! بتلائو اگر اللہ لے لے تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور مہریں لگا دے تمہارے دلوں پر ‘ تو کون ہے معبود اللہ کے سوا جو لائے تمہارے پاس اس چیز کو ‘ دیکھو ! کس طرح ہم طرح طرح سے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں باتوں کو ‘ پھر یہ لوگ اعراض کرتے ہیں
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے تنبیہات کا ذکر فرمایا کہ اگر کسی فرد یا قوم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت آجائے تو اس کا فرض ہے کہ ابتدائی پکڑ پر ہی تو بہ کرلے اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑائے ‘ عاجزی کرے اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے نہ کہ کسی بڑی افتاد کا منتظر رہے۔ فرمایا معمولی تنبیہ پر ہی توبہ کر لینی چاہئے تا کہ اللہ کے بڑے عذاب سے بچ جائے۔ پھر جب اس کی سخت گرفت آجاتی ہے تو پھر کون ہے جو اس کے سوا مصیبت کو دور کرسکے ‘ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ قوموں کا حال بھی بیان فرمایا کہ ہم نے انہیں معاشی اور جسمانی تنگی میں مبتلا کیا تا کہ وہ گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں ‘ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا۔ پھر ان پر خوشحالی کا دور ڈال دیا۔ ا پر عیش و عشرت کے دروازے کھول دیئے ‘ ان کے لئے ہر چیز کی فراوانی ہوگئی ‘ پھر جب وہ سرکشی میں بڑھتے چلے گئے تو ہماری گرفت اچانک آئی اور اس قوم کو نیست و نابود کر کے رکھ دیا۔ کان ‘ آنکھ اور دل آج کے درس میں بھی تنبیہات کا ذکر ہی چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بعض مثالوں کے ذریعے انسانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ برے افعال سے باز آجائیں۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ وہ بھی کسی بڑے عذاب میں گرفتار ہوجائیں ارشاد ہوتا ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ارمیتھم یہ بتلائو۔ عربی زبان میں یہ لفظ اخبرنی کا معنی دیتا ہے۔ یعنی اس بات سے آگاہ کرو ان اخذ اللہ سمعکم و ابصارکم اگر اللہ تعالیٰ چھین لے تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں وختم علی قلوبکم اور مہریں لگا دے تمہارے دلوں پر من الہ غیر اللہ یاتیکم بہ تو اللہ کے سوا کون الہ ہے جو ان چیزوں کو واپس لاسکے۔ ان عظیم نعمتوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی نے تمہیں یہ عطا کی ہیں ‘ پھر اگر وہی ان کو واپس لے لے ‘ تو ایسی کون سی طاقت ہے جو تمہیں یہ چیزیں واپس دلا سکے۔ انسانی جسم میں حواس ظاہرہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے آنکھیں اور کان انسان کے ذرائع علم ہیں ‘ ان کے بغیر انسان کی کوئی زندگی نہیں۔ آنکھوں کے ذریعے انسان دیکھتا ہے ‘ اور ظاہر ہے کہ جب تک کوئی چیز نظر نہیں آئے گی اس سے کماحقہ ‘ استفادہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ آنکھ ہے تو جہاں ہے۔ زندگی کا لطف بینائی کے ساتھ ہی ہے ‘ اگر آنکھیں نہیں ہیں تو پوری دنیا گھپ اندھیر ہے۔ اسی طرح کانوں کی بھی بڑی اہمیت ہے ۔ کان کے ذریعے ہی انسان معلومات حاصل کرتا ہے اور پھر انہیں قلب تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ کان اور آنکھ کے بعد تیسری چیز دل ہے۔ دل ہی انسان کا مرکز حیات اور مرکز اخلاق ہے۔ اچھے یا برے تمام اخلاق دل ہی میں راسخ ہوتے ہیں کسی چیز پر عمل کرنے کا عزم دل ہی سے پیدا ہوتا ہے ‘ اور پھر انسان وہ کام کر گزرتا ہے۔ غرضیکہ یہ تینوں چیزیں انسان کے لئے ذرائع علم و عمل ہیں اور ان کے متعلق ہر شخص جواب دہ ہے۔ سورة بنی اسرائیل اور دیگر مقامات پر آتا ہے۔ ” ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسئولا “ بیشک کان ‘ آنکھ اور دل کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر انسان سے پوچھیں گے ہم نے تمہیں یہ گرانقدار نعمتیں عطا کی تھیں۔ تم نے ان سے کہاں تک فائدہ اٹھایا کان سے نیکی کی باتیں ‘ وعظ و نصیحت اور کلام الٰہی سنا یا فحش گانے اور باجے گانے ہی سنتے رہے تم نے آنکھ سے عجائبات قدرت کا نظارہ کیا ‘ والدین اور بزرگوں کو محبت کی نگاہ سے دیکھا ‘ قرآن پاک کی تلاوت کی یا گندی اور فحش فلمیں دیکھتے رہے ‘ تصویر سازی کا نظارہ کرتے رہے یا نا محرم عورتوں کے تعاقب میں رہے۔ فرمایا دل کے متعلق بھی بازپرس ہوگی کہ اس میں نیکی کو جگہ دی یا برائی کو۔ احکام الٰہی کی تعمیل ‘ غرباء و مساکین کی اعانت اعلائے کلمتہ اللہ کے منصوبے بنتے رہے یا لوٹ مار اور غارت گری ‘ عیاشی اور فحاشی پر مائل ہوتا رہا۔ ان سب باتوں کے متعلق سوال ہوگا۔ آنکھ کی پیچیدہ ساخت انسانی آنکھ اللہ تعالیٰ کی بیش قیمت نعمت ہے۔ تمام رنگوں کا امتیاز آنکھ ہی کا مرہون منت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آنکھ کے ڈھیلے میں اپنی قدرت کے حیرت انگیز مناظر بند کردیئے ہیں۔ اس ڈھیلے میں رطوبت بھری رہتی ہے پتلی بالکل شفاف ہوتی ہے ‘ جب یہ گدلی ہوجاتی ہے تو موتیا بن جاتا ہے۔ جسے آپریشن کے ذریعے نکالنا پڑتا ہے۔ انسانی جسم کے اس نازک عضو پر بقراط کے زمانہ سے تحقیق ہو رہی ہے اور اب جدید سائنس نے تو اس کے تمام پوشیدہ گوشوں کو بےنقاب کردیا ہے۔ شیشے جیسا نازک اور شفاف ڈھیلہ ایک خول میں بند ہے اس کی حفاظت کے لئے قدرت نے چہرے پر دو گڑھے بنا دیئے ہیں جن کے اندر یہ دونوں ڈھیلے رکھ دیئے گئے ہیں تا کہ کسی بھی بیرونی چوٹ سے محفوظ رہ سکیں۔ سامنے جو سوراخ نظر آتا ہے اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ نے حکمت کے عجیب و غریب کارخانے لگا رکھے ہیں۔ سامنے دیوار کے پیچھے اعصاب کا جال بچھا ہوا ہے ۔ آنکھ میں پڑنے والا ہر عکس ڈھیلے کی شفاف رطوبت سے گزر کر اعصاب کے جال سے جا ٹکراتا ہے۔ وہ اس عکس کو مجمع نور تک پہنچاتا ہے۔ یہ مجمع نور آنکھ کے اوپر صلیب نما شکل میں دائیں آنکھ کا بائیں طرف اور بائیں کا دائیں طرف بنا ہوا ہے جب کسی چیز کا عکس مجمع نور تک پہنچتا ہے تو وہ راستے پیچھے کی طرف حس مشترک کی سکرین پر ڈال دیتا ہے ‘ جو اسے قوت عاقلہ کے سامنے پیش کردیتی ہے۔ چناچہ عقل فوراً فیصلہ کرتی ہے کہ یہ رنگ سرخ ہے یا سبز ہے ‘ سفید یا نیلا ہے ‘ آنکھ جیسی قیمتی متاع کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں جس شخص کی دو پیاری پیاری آنکھیں لے جائوں ‘ اسے چاہئے کہ صبر کرے اور مجھ سے ثواب طلب کرے ۔ ایسے شخص کو میں جنت تک پہنچائے بغیر کسی چیز پر راضی نہیں ہوں گا۔ ایسے موقع پر صبر لازم ہے ورنہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کان کی عجیب ساخت انسانی کان کی ساخت بھی خد اتعالیٰ نے اپنی حکمت کے ساتھ نہایت عجیب و غریب بناتی ہے۔ کان کے بیرونی حصہ میں پیچ خم اور چینٹیں رکھ دی ہیں تا کہ باہر کی تیز ہوا کان میں براہ راست داخل ہو کر اس کے نازک نظام سماعت کو خراب نہ کر دے۔ اس کی پیچیدہ ساخت کی وجہ سے ہوا کی لہریں کان کے سوراخ میں گھومتی ہوئی آہستہ آہستہ داخل ہوتی ہیں۔ کان کے اندرونی حصے میں سوراخ کے اختتام پر ایک ڈھول سا بنا ہوا ہے جس کے اوپر ایک تختہ سا ہے۔ باہر سے آنے والی آواز اس تکتے کے ساتھ ٹکراتی ہے۔ تختے کے پیچھے رطوبت سے بھرا ہوا حوض ہے۔ آواز کے ٹکرانے سے رطوبت میں لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ جہاں حوض ختم ہوتا ہے وہاں ہر کان میں اعصاب کے کم و بیش تین ہزار ٹیلیفون ہیں۔ ہر ٹیلیفون اپنی استعداد کے مطابق بولی جانے والی آواز مثلاً نرم ‘ سخت ‘ کرخت ‘ آہستہ ‘ زور دار وغیرہ کو وصول کرتا ہے اور پھر اسے دماغ تک پہنچاتا ہے جو اسے بتاتا ہ کہ یہ کس قسم کی آواز آئی ہے اور پھر دماغ اس آواز کے جواب کے متعلق سوچتا ہے اور کسی فیصلے پر پہنچتا ہے۔ بائر استفادہ غرضیکہ کان اور آنکھیں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ اسی لئے یہاں پر فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے کان اور آنکھیں واپس لے لے اور تمہارے دلوں پر مہریں لگا کر انہیں بند کر دے ‘ تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو ان کو واپس لاسکے۔ کان اور آنکھ کے ضائع ہونے کے کئی مشاہدات ہوتے رہتے ہیں۔ معمولی سی چوٹ سے ان نازک اعضا میں موجود اللہ کی حکمت کے کارخانے درہم برہم ہوجاتے ہیں اور انسان سماعت یا بینائی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ چشم زون میں انسان سماعت کی رنگارنگ چاشنی کھو بیٹھتا ہے یا اس کے لئے دنیا اندھیر ہوجاتی ہے۔ یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بظاہر کان اور آنکھ میں کوئی خرابی واقع نہ ہو ‘ اس کے باوجود اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کوئی شخص ان اعضاء کے استفادہ سے محروم ہو سکتا ہے بعض لوگ پیدائشی طور پر بہرے یا اندھے ہوتے ہیں وہ عمر بھر ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو اس کے حکم کے مطابق ہی بروئے کار لانا چاہئے۔ اچھی چیزیں دیکھنی چاہئیں ‘ اچھی باتیں سننی چاہئیں اور اچھے خیالات کو دل میں جگہ دینی چاہئے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ان عظیم نعمتوں سے کماحقہ ‘ فائدہ نہ اٹھایا تو اللہ تعالیٰ ان کو واپس لینے پر بھی قادر ہے۔ تعلیم کے طریقے فرمایا انظر دیکھو ! کیف نصرف الایت ہم اپنی نشانیاں کیسے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں ثم ھم یصدفون پھر بھی یہ لوگ کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنی وحدانیت کے کبھی عقلی دلائل پیش کئے اور کبھی نقلی کبھی نیکی کی طرف ترغیب دی ہے اور کبھی برائی سے ترہیب کے رنگ میں بات سمجھائی ہے کبھی کوئی بات مثال کے ذریعے بیان کی ہے اور کبھی گزشتہ قوموں کا حال بیان کر کے ڈرایا ہے مختلف انداز سے بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کسی نہ کسی طریقے سے حقیقت کو پا لے فرمایا ” تلک الامثال نضربھا للناس “ (الحشر) یہ مثالیں ہیں جو ہم لوگوں کے فہم کے لئے بیان کرتے ہیں۔ تاہم سمجھتے وہی لوگ ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں وگرنہ اکثر لوگ اعراض ہی کرتے ہیں تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے عقلی طور پر یہ بات سمجھائی ہے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تمہیں کان ‘ آنکھ اور دل جیسی عظیم نعمتیں عطا فرمائی ہیں ‘ لہٰذا ان سے فائدہ اٹھائو اگر خدا تعالیٰ ان کو چھین لے گا تو پھر کوئی واپس لوٹانے والا نہیں ہوگا۔ ظالموں کی ہلاکت فرمایا قل اے پیغمبر (علیہ السلام) ! آپ ان سے کہہ دیں ارء یتکم ان اتکم عذاب اللہ بغتہ اگر ان کے پاس اللہ کا عذاب اچانک آجائے اور اچانک کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سے اس کی کوئی نشانی نہ ظاہر کی گئی یا کوئی تنبیہ نہ آئی ہو ‘ فرمایا یکدم عذاب آجائے۔ او جھرۃ یا کھلے طور پر آئے یعنی عذاب کے آنے کی پہلے سے کوئی علامت ظاہر ہوچکی ہو۔ فرمایا دونوں صورتوں میں یعنی خواہ اللہ کا عذاب اچانک آجائے یا وارننگ دے کر آئے۔ ھل یھلک الا القوم الظلمون تو بتائو ظالموں کے علاوہ کون ہلاک ہوگا۔ مقصد یہ کہ عذاب بہرصورت ظالم لوگوں کے مقدر میں ہی ہوتا ہے وہی اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر عذاب آتا ہے تو اس میں نیک و بد سب گرفتار ہوجاتے ہیں جیسے سیلاب آجائے زلزلہ آجائے ‘ آسمانی بجلی گرے ‘ کوئی مہلک بیماری پھیل جائے تو اس کا نشانہ ہر قسم کے لوگ بن جاتے ہیں۔ اور اس میں اطاعت گزاروں اور نافرمانوں کی تمیز باقی نہیں رہتی حضور ﷺ نے اس اشکال کو اس طرح حل فرمایا ہے۔ ثم یبعثون علی اعمالھم او نیتھم فرمایا برزخ اور آخرت میں سب لوگ اپنے اعمال اور نیت کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ اگرچہ وہ دنیا میں کسی آفت کا شکار ہوچکے ہوں مگر ان کے ساتھ آخرت کا معاملہ ان کے عمل اور نیت کی بنیاد پر طے ہوگا۔ وہاں اچھے لوگ کسی سز ا میں مبتلا نہیں ہوں گے ‘ برخلاف اس کے ابدی عذاب کے مستحق ظالم لوگ ہی ہوں گے۔ قصد رسالت باقی رہا مکذبین کا یہ مطالبہ ” لو لا نزل علیہ ایتہ من ربہ “ کہ پیغمبر خدا پر ان کی پسند کی نشانی کیوں نہیں نازل ہوتی۔ تو اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا وما نرسل الرسلین ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو الا مبشرین و منذرین مگر بشارت سنانے والے اور ڈرانے والے ‘ مطلب یہ کہ ہمارے انبیاء کی بعثت کا مقصد نشانیاں ظاہر کرنا نہیں بلکہ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنانا ‘ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اجر عظیم تیار رکھا ہے اور نافرمانوں کو ان کی قبیح حرکات سے ڈرانا ہے تاہم جب کبھی اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو ‘ وہ کوئی نشانی نبی کے ہاتھ پر ظاہر کردیتا ہے۔ یہ اس کی مصلحت پر موقوف ہے ‘ محض معجزات پیش کرنا نبی کا کام نہیں ہوتا۔ وہ تو اچھائی اور برائی کی تمیز سکھاتا ہے اور پھر اس کے مطابق لوگوں کی تربیت کرتا ہے۔ ایمان اور اصلاح نفس فرمایا نبی کی تعلیم و تربیت سے فیض یاب ہو کر فمن امن جو شخص ایمان لے آیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ اس کی صفات ‘ اس کے انبیائ ‘ کتب اور یوم آخرت کو تسلیم کرلیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ واصلح اپنے آپ کو سنوار لیا ‘ اپنی اصلاح کرلی ‘ اعمال خیر کو اختیار کرلیا اور اعمال شر سے بچ گیا ‘ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کیا ‘ دوسرے کے حقوق کو پہچان لیا۔ اگر کسی کا حق تلف ہوا ہے تو اس کو ادا کیا یا سعاف کرا لیا ‘ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا فلاخوف علیھم ولا ھم یحزنون نہ تو انہیں اللہ کی طرف سے بازپرس اور گرفت کا خوف ہوگا ‘ اور نہ وہ غمگین ہون گے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ایمان قبول کرنے کے بعد اپنی اصلاح بھی کرلے گا۔ اسے اطمینان حاصل ہوجائے گا اور وہ اپنے سابقہ اعمال پر نادم نہیں ہوگا۔ برخلاف اس کے جو نہ ایمان لایا اور نہ اپنی اصلاح کی اس کے متعلق تو سابقہ آیات میں گزر چکا ہے کہ وہ کہے گا۔ ” یحسرتنا علی مافرطنا “ افسوس میں نے اللہ کی دی ہوئی مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا بلکہ الٹا جزائے عمل کو جھٹلاتا رہا اور اس کے ساتھ ٹھٹا کرتا رہا۔ بہرحال فرمایا کہ جو شخص ایمان لایا اور اس نے اصلاح نفس بھی کرلیا اسے نہ تو سابقہ اعمال پر افسوس ہوگا اور نہ مستقبل کی فکر ہوگی۔ مکذبین کے لئے سزا فرمایا والذین کذبوا بایتنا جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔ آیات میں تکوینی ‘ تنزیلی اور تشریعی تمام آیات شامل ہیں۔ نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والے معجزات اور گرد و پیش میں پھیلی ہوئی دیگر نشانیوں کا انکار بھی اسی تکذیب میں آتا ہے۔ تو جس نے ہماری آیتوں خاص طور پر ہماری نازل کردہ آیات کو جھٹلایا یمسھم العذاب یقینا ان کو عذاب چھوٹے گا ‘ وہ سزا کے مستحق ہوں گے بما کانوا یفسقون اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔ اگر نافرمانی عقیدے میں ہو تو انسان کافر اور مشرک ہوجاتا ہے اور اعمال میں خرابی ہے تو وہ بھی فاسق ہے مگر کم درجے کا بہرحال چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے گناہ پر فسق کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ دراصل فسق کا لغوی معنی اطاعت سے باہر نکل جانا ہے۔ امام بیضاوی (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ جب کسی پھل وغیرہ کی گٹھلی اس سے باہر آجاتی ہے تو کہتے ہیں فسقت النویٰ اسی طرح جب کوئی شخص ایمان ‘ نیکی اور اطاعت سے باہر نکل جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ شخص فاسق ہوگیا ہے یعنی فسق کا معنی خروج عن الاطاعتہ (اطاعت سے باہر نکل جانا) ہے ۔ تو فرمایا جنہوں نے ہماری آیات کو تکذیب کی وہ اپنے فسق کی وجہ سے عذاب کے مستحق ہوں گے۔
Top