Al-Qurtubi - Al-An'aam : 46
قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَكُمْ وَ اَبْصَارَكُمْ وَ خَتَمَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِهٖ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ هُمْ یَصْدِفُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتُمْ : بھلا تم دیکھو اِنْ : اگر اَخَذَ اللّٰهُ : لے (چھین لے) اللہ سَمْعَكُمْ : تمہارے کان وَاَبْصَارَكُمْ : اور تمہاری آنکھیں وَخَتَمَ : اور مہر لگادے عَلٰي : پر قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دل مَّنْ : کون اِلٰهٌ : معبود غَيْرُ : سوائے اللّٰهِ : اللہ يَاْتِيْكُمْ : تم کو لا دے بِهٖ : یہ اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کیسے نُصَرِّفُ : بدل بدل کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں ثُمَّ : پھر هُمْ : وہ يَصْدِفُوْنَ : کنارہ کرتے ہیں
(ان کافروں سے) کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر خدا تمہارے کان اور آنکھوں چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے تو خدا کے سوا کونسا معبود ہے جو تمہیں یہ نعمتیں پھر بخشے ؟ دیکھو ہم کس کس طرح اپنی آیتیں بیان کرتے ہیں پھر بھی یہ لوگ روگردنی کرتے ہیں۔
آیت نمبر 46 تا 47 :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : قل ارئیتم ان اخذ اللہ سمعکم و ابصارکم یعنی اگر تم سے قوت سماعت اور دیکھنے کی استطاعت واپس لے لے۔ سمعکم کو مفرد ذکر فرمایا، کیونکہ مصدر جمع پر دلالت کرتا ہے۔ و ختم مہر لگا دے۔ یہ پہلے سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ " ان " کا جواب محذوف ہے تقدیر عبارت ہے فمن یاتیکم بہ، بہ محل نصب میں ہے کیونکہ یہ حال واقع ہو رہا ہے جیسے تیرا قول ہے : اضربہ ان اخرج یعنی خارجا۔ پھر بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد وہ معانی ہیں جو ان اعضاء کے ساتھ قائم ہیں اللہ جوارح (اعضائ) اور اعراض سب کو لے جاتا ہے اور کچھ بھی باقی نہیں چھوڑتا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : من قبل ان نطمس وجوھا (النسائ : 47) یہ آیت کریمہ کفار پر حجت ہے۔ آیت : من الہ غیرا للہ یاتیکم بہ، من مبتدا ہے اور اس کی خبر الہ ہے اور غیرہ اس کی صفت ہے اسی طرح یاتیکم محل رفع میں ہے کیونکہ الہ کی صفت ہے اس کا ذکر استفہام کے ذکر کی طرح ہے اور یہ جملہ رایتم کے دونوں مفعولوں کے قائم مقام ہے اور ارایتم کا معنی علمتم ہے بہ میں ضمیر کا مرجع سمع ہے جیسے ارشاد ہے : آیت : واللہ ورسولہ احق ایرضوہ (التوبہ : 62) ابصار اور قلوب تضمین کی دلالت کے ساتھ داخل ہیں۔ بعض نے فرمایا : آیت : من الہ غیر اللہ یاتیکم ان مذکورات میں سے ایک کو۔ بعض نے فرمایا : ہدایت کی طرف ضمیر راجع ہے معنی جس کو شامل ہے۔ عبدالرحمن اعرج نے بہ انظرھا کے ضمہ کے ساتھ اصل پر پڑھا ہے، کیونکہ اصل میں ہ مضمومتہ ہوتی ہے جیسے تو کہتا ہے : جنت معہ۔ نقاش نے کہا : اس آیت میں سمع کی بصر پر فضیلت کی دلیل ہے، کیونکہ یہاں اور دوسری آیت میں سمع کو مقدم کیا گیا ہے۔ یہ سورة بقرہ کی ابتدا میں تفصیلا گزر چکا ہے۔ آیات کو مختلف جہات سے بیان کرنا، کبھی اعذار، کبھی انداز کبھی ترغیب کبھی ترہیب، یہ تصریف الایات کا مفہوم ہے۔ آیت : ثم ھم یصدفون پھر وہ اعراض کرتے ہیں۔ یہ حضرت ابن عباسؓ، حسن، مجاہد، قتادہ اور سدی سے مروی ہے۔ کہا جاتا ہے : صدف عن الشی جب کوئی کسی سے اعراض کرے اس کا مصدر صدفاو صدوفا آتا ہے اور صادف اسم فاعل آتا ہے۔ صادفتہ مصادفتہ اس کی اعراض کی جہت سے میں اسے ملا۔ ابن رقاع نے کہا : اذا ذکرن حدیثا قلن احسنہ دھن عن کل سوء یثقی صدف الصدف فی البعیر اونٹ کا پائوں یا ہاتھ وحشی جانب مائل ہوا۔ ھم یصدفون وہ حج اور آیات سے اعراض کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : قل ارئیتکم ان اتکم عذاب اللہ بغتتہاو جھرۃ حسن نے کہا : بغتتہ سے مراد رات کے وقت اور جھرۃ سے مراد دن کے وقت ہے۔ بعض نے فرمایا : بغتتہ کا معنی اچانک ہے۔ کسائی نے کہا : کہا جاتا ہے : بغتھم الامر بغتھم بغتاو بغتہ جب اچانک ان کے پاس آجائے یہ پہلے گزر چکا ہے۔ آیت : ھل یھلک الا القوم الظلمون اس کی مثال یہ آیت ہے آیت : فھل یھلک الا القوم الفسقون (الاحقاف) یعنی کوئی ہلاک ہوگا سوائے تمہارے، کیونکہ تم نے شرک کیا۔ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا : آیت : یبنی لا تشرک باللہ ان الشرک لظلم عظیم (لقمان) اے میرے پیارے فرزند ! کسی کو اللہ کا شریک نہ بنانا یقینا شرک ظلم عظیم ہے۔
Top