Mualim-ul-Irfan - Al-Fath : 9
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم اِمَّا : اگر يَاْتِيَنَّكُمْ : تمہارے پاس آئیں رُسُلٌ : رسول مِّنْكُمْ : تم میں سے يَقُصُّوْنَ : بیان کریں (سنائیں) عَلَيْكُمْ : تم پر (تمہیں) اٰيٰتِيْ : میری آیات فَمَنِ : تو جو اتَّقٰى : ڈرا وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کرلی فَلَا خَوْفٌ : کوئی خوف نہیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
اے اولاد آدم ! جب آئیں گے تمہارے پاس رسول تم میں سے بیان کریں گے تم پر میری آیتیں پس جو شخص بچ گیا اور اس نے اصلاح کی ، پس نہیں خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے
اولاد آدم سے خطاب اس آیت میں اولاد آدم سے خطاب کے متعلق مفسرین کرام کی دو رائیں ہیں پہلی رائے یہ ہے کہ اگرچہ خطاب تما اولاد آدم کو اکٹھا ہے مگر فی الواقع یہ ہر نبی کے زمانہ میں علیحدہ علیحدہ ہوتا رہا ہے تاہم یہاں پر بیان اکٹھا کردیا گیا ہے اس کی مثال رسولوں سے خطاب میں بھی ملتی ہے جیسے فرمایا یاھا الرسل کلومن الطیبت واعملوا صالحاً (المومنون) اے گروہ رسل ! پاک اور حلال چیزیں کھائو اور نیک اعمال انجام دو یہاں بھی بظاہر خطاب تو تمام رسولوں کو ہے مگر یہ حکم ہر رسول کی بعثت کے ساتھ فرداً فرداً نازل ہوتا رہا ہے بالکل اسی طرح یہاں پر خطاب تو پوری اولاد آدم کو ہے مگر حقیقت میں یہ ہر رسول کے زمانے میں نازل ہوتا رہا ہے جو اسے اپنی اپنی امتوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔ مفسرین کرام کی دوسری رائے یہ ہے کہ خطاب تمام انبیاء سے اکٹھا کیا گیا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے پختہ عہد لیا تھا واذاخذ اللہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ ثمہ جاء کم رسول مقصدق لما معکم لتومنن بہ ولتنصرنہ (آل عمران) اور پختہ عہد یہ تھا کہ جب میری کتاب اور حکمت آئے اور پھر جب میر آخری رسول آجائے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا یہ عالم ارواح کی بات ہے اور اسی طرح اس جہان میں ایک عہد تما اولاد آدم سے بھی لیا گیا تھا جسے عد الست کہا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ لاسلام کی پشت سے تما ارواح کو نکال کر پوچھا تھا الست بربکم کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں قالو بلیٰ تو سب نے نے بیک زبان کہا تھا کیوں نہیں ؟ مولا کریم ! تو ہی ہمارا پروردگار ہے تو اس وقت تمام اولاد آدم سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیا تھا کہ جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لائے گا نیکی کے کام انجام دے گا شرک سے بچتا رہے گا وہ فلاح پاجائے گا اور اس کے خلاف کرنے والا ناکام و نامراد ہوگا۔ الغرض ! یہ خطاب مجموعی طور پر اولاد آدم سے ہے جیسا کہ پیچھے بھی اس قسم کا خطاب گزر چک ہے یبنی آدم خدوا زینتکم عند کل مسجد یعنی اے اولاد آدم عبادت کے وقت زینت اختیار کرو اپنی ستر پوشی کرو اور برہنگی سے پرہیز کرو اس سے پہلے یہ بھی آتا ہے یبنی آدم قد انزلنا علیکم لباساً یواری سواتکم ریشاً اے اولاد آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی کرتا ہے اور باعث زینت بھی ہے۔ سورۃ بقرہ میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے حکم پر شیطان نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اللہ نے فرمایا یادم اسکن انت وزوجک الجنۃ اے آدم (علیہ السلام) ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور حسب پسند اس میں سے کھائو مگر ایک درخت کے قریب نہ جانا پھر شیطان نے انہیں بہکا کر ممنوعہ شجر کا پھل کھانے پر آمادہ کیا اور اس طرح انہیں جنت سے نکلوا دیا مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان سے خطاب کیا کہ اے اولاد آدم تلک الجنۃ التی نورث من عبادتاً (سورۃ مریم) یہ جنت ہمارے بندوں کے لیے ان کے جدامجد حضرت آدم (علیہ السلام) کی وراثت ہے اگر اسے دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے جو ان آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ خوشبو جنت کا ایک خاص تحفہ ہے جو جنتیوں کو میسر ہوگی حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو خوشبو پیش کرے تو اس کو قبول کرلینا چاہیے خوشبو میں عطر بھی ہوسکتا ہے اور پھول ، گلدستہ وغیرہ بھی آجاتا ہے فرمایا اس سے انکار نہ کرو فانہ خرج من الجنۃ کین کہ یہ جنت سے آئی ہوئی ہے اور یہ تمہیں اپنے دائمی ٹھکانے کی یاد دلاتی ہے لہٰذا اسے رد نہ کیا کرو۔ متقی اور مصلح بہرحال جنت میں پہنچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ بیان فرمایا یبنی آدم اے اولاد آدم اما یاتینکم رسل منکم جب تمہارے پاس رسول آئیں جو تمہی میں سے ہوں گے یقصون علیکم ایتی وہ بیان کریں گے تم پر میری آئتیں یعنی میرے احکام دلائل ، معجزات ، اصول اور قوانین تمہارے سامنے پیش کریں گے اس وقت فمن اتقی جو شخص بچ گیا جس نے کفر ، شرک ، نفاق ، معاصی اور گندے عقیدے سے اپنے آپ کو بچالیا ظاہر ہے کہ جو شخص کامل متقی ہوگا وہ صغیرہ گناہوں کے علاوہ مشتبہات سے بھی بچ جائے گا اور اس ضمن میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ متقی وہ ہے من اتقی اشبھات فقد استبراً لدینہ جو شبہات سے بچ گیا اور اس نے اپنے دین کو بری کرلیا علامہ جلال الدین سیوطی (رح) فرماتے ہیں کہ اتقیٰ کی پہلی منزل یہ ہے کہ من اتقی الشرک جو شرک سے بچ گیا جو شرک میں ملوث ہوگیا وہ متقی نہیں ہوسکتا اتقی کے لیے کفر ، شرک اور بدعقیدگی سے پاک ہونا ضروری ہے جس نے یہ چیزیں ترک نہ کیں وہ تو خود ناپاک ہوگا اس کا دل اور روح بھی پلید ہوگا۔ فرمایا جنت کی نعمتیں اس شخص کے لیے ہیں جو بچ گیا واصلح اور اصلاح کرلی اپنے آ پکو سنوار لیا برے کاموں کو ترک کرکے نیکی کی طرف آگیا۔ اپنا اور مخلوق کا حق ادا کیا اپنے خالق کا حق پہچانا وہی مومن ، متقی اور مصلح ہوگا اور جو اس معیار پر پور اترے گا فلا خوف علیھم ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا ولاھم یحزنون اور نہ وہ غمگین ہوں گے خوف کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے کہیں آنے والے زمانے میں کوئی ناگوار معاملہ پیش نہ آجائے مگر کامل الایمان لوگوں کے متعلق فرمایا بڑی گھبراہٹ یعنی قیامت کے دن بھی ان کے دل مطمئن ہوں گے اور فرشتے تسلی دیں گے کہ گھبرائو نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بہتری کرے گا اسی طرح غم کا تعلق ماضی کے امور سے ہوتا ہے مجرمین کو احساس ہوجائے گا کہ انہوں نے دنیا کی زندگی میں وقت ضائع کردیا اپنے مال کو تباہ اور صحت کو برباد کیا کفر ، شرک اور بدعات میں ملوث رہے ان کے یہی افعال انہیں غم میں مبتلا رکھیں گے مگر سچے مومن جنہوں نے ٹھیک کام انجام دیے انبیاء کی دعتو پر لبیک کہا کفرو شرک سے بچتے رہے اور اپنی اصلاح کی ، وہ نہ تو مستقبل کے فکر سے خوفزدہ ہوں گے اور نہ ماضی کے کارناموں پر غمگین ہوں گے۔ بشریت رسل اس آیت کریمہ میں منکم کا لفظ خاص طور پر تو جہ طلب ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے اولاد آدم ! جب تم ہی میں سے رسول آئیں جو میری آیتیں بیان کریں گے مقصد یہ ہے میں جو رسول مبعوث کروں گا وہ تمہارے ہی خاندان کے لوگ ہوں گے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی قریش مکہ میں سے تھے آپ کسی کے چچا تھے ، کسی کے بھتیجے ، کسی کے داماد تھے اور کسی کے خسر ، کسی کے باپ تھے اور کسی کے بھائی ، کوئی اجنبی نہیں تھے اگر ایسا ہوتا تو آپ سے فیضان حاصل کرنے میں دقت پیش آتی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس بات کو بار بار دہرایا ہے کہ رسول تمہارے ہی جیسے انسان ہوتے ہیں اور انسانوں کی ہدایت کے لیے آتے ہیں اللہ نے اس کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے کہ چونکہ زمین میں انسان آباد ہیں اس لیے وہ انسان ہی سے ہدایت حاصل کرسکتے ہیں اور اگر زمین پر فرشتے آباد ہوتے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو رسول بناکر بھیج دیتا خود حضور ﷺ کا اسوہ حسنہ قدم قدم پر آپ کی بشریت کا اعلان کررہا ہے مسجد نبوی کی تعمیر ہورہی تھی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ہاتھوں سے گارا اٹھا کر لائے اور تعمیر میں حصہ لیا آپ پر گرد و غبار بھی پڑا ہوتا تھا خندق کھودی جارہی تھی تو آپ کدال لے کر باقی صحابہ ؓ کے ہمراہ پتھر توڑ رہے تھے صحابہ ؓ نے بھوکا شکوہ کیا اور اپنے پیٹوں پر ایک ایک پتھر بندھا ہوا دکھایا حضور ﷺ نے پیٹ سے کپڑا ہٹایا تو آپ کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے مقصد یہ کہ آپ نے اپنی بھرپور انسانی زندگی گزاری آپ نماز ، روزہ اور دیگر عبادات بھی بجا لاتے تھے جہاد میں بھی شریک ہوتے تھے اہل و عیال کے ساتھ تمام معاملات کرتے تھے معاشرتی امور میں پورا پورا حصہ لیتے تھے عدل و انصاف کو قائم کرتے تھے غرضیکہ انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس میں آپ نے حصہ نہ لیا ہو ظاہر ہے کہ انسانی امور کی انجام دہی کے لیے انسان ہونا ضروری ہے اگر غیر جنس انسانوں میں رسول بن کر آئے تو وہ تو اسوہ حسنہ ہی پیش نہیں کرسکتا جس کی لوگ اتباع کریں مثال کے طور پر اگر جبرائیل یا کوئی دوسرا فرشتہ رسول بن کر آجاتا ہے تو وہ لوگوں کے لیے کس طرح نمونہ بن سکتا تھا جب کہ نہ اسے کھانے پینے کی حاجت ، نہ بیوی بچوں کی ضرورت ، نہ تکلیف سے واسطہ اور نہ دیگر ضروریات زندگی کا احتیاج ایسی صورت میں انسان یہ عذر کرسکتے ہیں کہ مولا کریم تو نے ایسی ہستی کو رسول بنا کر بھیجا ہے جو ہمارے ساتھ مطابقت ہی نہیں رکھتا لہٰذا ہمارے لیے وہ نمونہ کیسے پیش کرسکتا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی طرف سے جتنے بھی انبیاء اور رسل مبعوث فرمائے وہ سب کے سب انسان تھے بعض لوگ نبی کو انسان یا بشر کہنے میں توہین سمھجتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کی اشرف المخلوقات انسان ہونا تو اعزاز کی بات ہے بات اس وقت بگڑتی ہے جب ہر گناہ گار آدمی نبی کو اپنے جیسا انسان سمجھتا ہے یہ تو مشرکوں کا شعار ہے نبی تو تمام انسانوں میں اللہ کا منتخب بندہ ہوتا ہے اس کے مرتبے کو کون پہنچ سکتا ہے پھر اللہ نے انبیاء کی بشریت کا بار بار تذکرہ کیا ہے خود حضور ﷺ کی بان مبارک سے کہلوایا قل انما انا بشرً مثلکم یوحی الی (سورۃ کہف) اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کہ میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے اور وحی کا نزول سب سے بڑا اعزاز ہے جو کسی انسان کو مل سکتا ہے اس لیے کوئی شخص نبی کو ہم مرتبہ نہیں کہتا بلکہ نوعیت کے لحاظ سے بنی بھی انسان ہوتا ہے محدثین کرام نے کتب احادیث میں باب باندھ کر حضور ﷺ کے بشری تقاضوں کا ذکر کیا ہے آپ کا چلنا پھرنا ، کھاناپینا ، سونا جاگنا ، ہنسنا رونا ، سب انسان کی طبعی ضروریات ہیں جو حضور ﷺ میں بھی پائی جاتی تھیں۔ مکذبین اور متکبرین متقین اور مصلحین کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا والذین کذبو بایتنا جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا توحید و رسالت اور معاد کا نکار کیا دنیا میں من مانی کرتے رہے واستکبرو عنھا اور تکبر کے مرتکب ہوئے تکبرہمیشہ مال و جاہ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے دنیا میں چند روزہ اقتدار کی وجہ سے لوگ مفرور ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے لگتے ہیں ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا اولیک اصحب النار یہی لوگ دوزخ والے ہیں وہیں جائیں گے ھم فھا خلدون اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کیونکہ انہوں نے جہنم سے بچائو کی کوئی تدبیر نہیں کی آخرت کے دائمی عذاب سے بچائو کے لیے ایمان اور اتقیٰ کی ضرورت تھی جس سے وہ محروم رہے لہٰذا انہیں ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہنا ہوگا۔ افترا علی اللہ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسالت اور معاد کا اکٹھا ذکر کیا ہے جس شخص پر اللہ تعالیٰ نے رسالت اور معاد کا اکٹھا ذکر کیا ہے جس شخص پر اللہ تعالیٰ مہربانی کرتا ہے اور اسے تاج نبوت سے سرفراز کرتا ہے وہ اللہ کا سچا نبی ہوتا ہے اور جو شخص نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے وہ مفتری اور کذاب ہوتا ہے اس کے علاوہ جو سچے نبی کی تکذیب کرتا ہے وہ بھی اللہ کے ہاں بہت بڑا مجرم ہوتا ہے ارشاد ہوتا ہے فمن اظلم ممن افتریٰ علی اللہ کذباً اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے مخلوق میں سے کسی کو خدا کا بیٹا کہنا بلاشبہ افترا علی اللہ ہے برہنہ طواف یا بیحرہ ، سائبہ وغیرہ کی حرمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا بھی اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے شرک بذات خود بہت بڑا افترا ہے جس سے اللہ نے بیزاری کا حکم دیا ہے اس کے علاوہ جھوٹے مدعیان نبوت جیسے مسلمہ کذاب اور اسوادعنسی ، غلام احمد قادیانی وغیرہ کذاب ہیں ان سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے پہلے اس جھوٹے دعوے کا بھی تذکرہ ہوچکا ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اس پر وحی ناز ہوتی ہے حالن کہ سلسلہ وحی ختم ہوچکا ہے اور اب یہ چیزیں شیطان ہی القا کرتا ہے اس سے بڑا ظالم بھی کوئی نہیں فرمایا اوکذب بایتہ جو اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرتا ہے اس کے نازل کردہ دلائل معجزات ، احکام اور قوانین کو سچا نہیں سمجھتا وہ بھی بہت بڑا ظالم ہے فرمایا اولیک ینالھم نصیبھم من الکتب ایسے ہی مکذبین کو کتاب میں لکھا ہوا ان کا حصہ مل جائے گا اللہ تعالیٰ دنیا میں مہلت دیتا ہے اور بسا اوقات نافرمانوں سے کوئی نعمت واپس نہیں لیتا بلکہ ان کو دنیا کا حصہ ملتا رہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نیکوں اور بدوں سب کو دیتے ہیں مگر دنیا کا مال وجاہ اور عیش و عشرت اللہ کے ہاں شرافت کا کوئی معیار نہیں محض دنیا حاصل کرکے کوئی شخص خدا تعالیٰ کی محبوبیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا دنیا میں تو بڑے بڑے ناہنجار لوگ بھی آرام و آسائش میں رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ ان کے لیے دنیا میں جو لکھا جاچکا ہے وہ انہیں ملتا رہے گا۔ اقرار کفر فرمایا حتیٰ اذا جاء تھم رسلنا یتوفو نھم یہاں تک کہ جب ہمارے فرشتے ان کی روح قبض کرنے کے لیے آتے ہیں قالو تو ان سے کہتے ہیں اینما کنتم تدعون من دون اللہ ، کہاں ہیں وہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے تھے یعنی جن کی تم عبادت کرتے تھے کسی کو پکارنا حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے ہی ہوتا ہے تدعون پکار اور عبادت دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے اللہ نے بار بار فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پکارو بلکہ وادعوہ مخلصین لہ الدین بلکہ خالص اسی کو پکارو کیونکہ غائبانہ طور پر مشکل کشائی اور فریاد رسی اس کے سوا کوئی نہیں کرسکتا فرشتے ، نبی ، ولی مقربین سب اس کے محتاج ہیں نداریم غیرازتو فریاد رس اے مولا کریم ! تیرے بغیر کوئی فریاد رس نہیں ہے کوئی ایسی ہستی نہیں جو تکلیف کو دور کردے یا مشکل کو حل کردے یہ تیری ہی ذات کا خاصہ ہے مشرکوں کا حال یہ ہے کہ کبھی قبروں پر سجدے کرتے ہیں کبھی ملائکہ اور جنات کی دہائی دیتے ہیں کوئی جبرائیل ، اور میکائیل کو پکارتا ہے کوئی اولیا ، اللہ سے مدد مانگتا ہے اور کوئی یا علی مدد کا نعرہ لگاتا ہے یہ سب شرک ہے جب مشرکین کی موت کا وقت آئے گا تو فرشتے پوچھیں گے کہاں گئے تمہارے وہ معبود جن کو تم مافوق الاسباب پکارا کرتے تھے قالو ضلوعنا تو کہیں گے وہ تو ہم سے گم ہوگئے اب کہیں نظر نہیں آتے جو ساری عمر بیوقوف بناکر مال کھاتے رہے اور مشکل وقت میں مشکل کشائی کا وعدہ کرتے رہے آج کسی کام نہیں آئے وشھدو علی انفسھم اور خود اپنے خلاف گواہی دیں گے انھم کانو کفرین کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتے رہے اب جب کہ جان نکل رہی ہے اور جزائے عمل کا وقت شروع ہونے والا ہے تو اپنے کفر اور شرک کا اقرار کریں گے مگر اس وقت کا اقرار کچھ کام نہیں آئے گا اور انہیں اپنے اعمال کی سزا بھگتنا پڑے گی اس سورة کی ابتدا میں بھی ایسا ہی مضمون گزر چکا ہے جب ہماری پکڑ آجائے گی تو پھر وہ اقرار کریں گے انا کنا ظلمین کہ بیشک ہم دنیا میں ظلم کرتے رہے اور سب سے بڑا ظلم شرک ہے جس کا وہ ارتکاب کرتے رہے جب موت کے فرشتے آجائیں گے تو پھر انہیں اقرار کے بغیر چارہ نہیں ہوگا۔
Top