Tafseer-e-Majidi - An-Naba : 16
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
اے ایمان والو (اپنے) عہدوں کو پورا کرو،2 ۔ تمہارے لئے چوپائے مویشی جائز کئے گئے ہیں بجز (ان چیزوں کے) جن کا ذکر (آگے) تم سے کیا جاتا ہے،3 ۔ ہاں شکار اس حال میں کہ تم احرام میں ہو جائز نہیں،4 ۔ بیشک اللہ جو چاہے حکم دے،5 ۔
2 ۔ (آیت) ” العقود “۔ عقد کا لفظ عام ہے۔ اور ہر عہد شرعی کو شامل، خواہ اس کا تعلق خالق سے خواہ مخلوق سے۔ العھود التی بینکم وبین اللہ اوبین الناس (ابن عباس ؓ والظاھر عموم العقود فی کل ربط یوافق الشرع سواء کان اسلام یا اور جاھلیا (بحر) عبادات کے علاوہ بھی جتنے عہد سیاسیات، تجارت، معاشرت وغیرہ معاملات واخلاقیات سے متعلق ہوسکتے ہیں، سب اس میں آگئے، قال الحسن یعنی بذلک عقود الدین وھو ماعقدہ المرء علی نفسہ من بیع وشراء اجارۃ وکراء ومناکحۃ و طلاق ومزارعۃ ومصالحۃ وتملیک وتخییر وعتق وتدبیر وغیر ذلک من الامور ماکان ذلک غٰر خارج عن الشریعتہ وکذلک ما عقدہ علی نفسہ للہ من الطاعات (قرطبی) 3 ۔ اور وہ ذکر کہیں دور نہیں۔ آیت نمبر 3 ہی میں آرہا ہے۔ (آیت) ” حرمت علیکم المیتۃ الخ “۔ کے تحت میں (آیت) ” بھیمۃ الانعام “۔ اضافت تشبیہ کے لیے ہے، یعنی مویشیوں سے ملتے جلتے ہوئے چوپائے، جو نہ درندے ہوں نہ شکاری، اضاف تھا الی الانعام لملا بسۃ الشبہ (بیضاوی) ای ممایماثل الانعام فی الاجتراء وعدم الانیاب (بیضاوی) مراد ہیں، ہرن، نیل گائے وغیرہ ایسے چوپائے جو شکاری اور درندے نہ ہونے میں مویشیوں (گائے، بیل، اونٹ، بھیڑ، بکری) سے مشابہ ہوں، البتہ خچر، گدھے، وغیرہ جن کی حرمت حدیث صحیح سے ثابت ہے، اس قاعدہ سے مستثنی ہیں، 4 ۔ یعنی شکار حلال چوپایوں کا بھی (آیت) ” الصید “۔ شکار سے یہاں مراد صرف ان جانوروں کا شکار ہے جن کا کھانا جائز ہے۔ الصید فی ھذا الموضع مختص بما یوکل لحمہ (راغب) باقی سانپ، بچھو وغیرہ موذی جانوروں کا اس ممانعت سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ انکے ہلاک کرنے پر شکار کا اطلاق ہوتا ہے۔ صیدہی کے لفظ نے اسے بھی واضح کردیا کہ شکار ان جانوروں کا مراد ہے جو وحشی ہوتے ہیں، اور جن کے پکڑنے میں کسی تدبیر یا حیلہ کی ضرورت پڑتی ہے، عام گھریلو جانور بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ وغیرہ جو عادۃ شکار کرکے نہیں لائے جاتے، اور روزانہ محض ذبح کرکے کھانے کے کام میں لائے جاتے ہیں، ان کے ذبح کی کوئی ممانعت نہیں۔ ای ما کان صیدا فھو حلال فی الاحلال دون الاحرام ومالم یکن صیدا فھو حلال فی حالین (قرطبی) (آیت) ” وانتم حرم “۔ حالت احرام میں ہو یا حدود حرم کین اندر داخل ہو۔ خواہ بلااحرام ہی سہی، ممانعت کا اصل مدار صید کا حدود حرم کے اندر موجود ہونا ہے۔ 5 ۔ (کہ وہی حکم ہمیشہ عین مطابق مصلحت ہوگا) ارادۂ الہی سے بالاتر کوئی قانون نہیں، جس کے وہ ماتحت ہو، وہ خود ہی سب سے بالاتر ہے، مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں اسرار احکام کی تفتیش کی ممانعت کا اشارہ ہے۔
Top