Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے)
اَوْفُوْا
: پورا کرو
بِالْعُقُوْدِ
: عہد۔ قول
اُحِلَّتْ لَكُمْ
: حلال کیے گئے تمہارے لیے
بَهِيْمَةُ
: چوپائے
الْاَنْعَامِ
: مویشی
اِلَّا
: سوائے
مَا
: جو
يُتْلٰى عَلَيْكُمْ
: پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں
غَيْرَ
: مگر
مُحِلِّي الصَّيْدِ
: حلال جانے ہوئے شکار
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
حُرُمٌ
: احرام میں ہو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
يَحْكُمُ
: حکم کرتا ہے
مَا يُرِيْدُ
: جو چاہے
اے ایمان والو! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ تمہارے لیے چارپائے جانور (جو چرنے والے ہیں) حلال کر دیئے گئے ہیں۔ بجز ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔ خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے
ایک بےدلیل روایت اور وفائے عہد کی تاکید ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہا ! آپ مجھے خاص نصیحت کیجئے۔ آپ نے فرمایا " جب تو قرآن میں لفظ آیت (یا ایھا الذین امنوا) سن لے تو فوراً کان لگا کر دل سے متوجہ ہوجا، کیونکہ اس کے بعد کسی نہ کسی بھلائی کا حکم ہوگا یا کسی نہ کسی برائی سے ممانعت ہوگی۔ " حضرت زہری فرماتے ہیں " جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو کوئی حکم دیا ہے اس حکم میں نبی ﷺ بھی شامل ہیں۔ " حضرت فیثمہ فرماتے ہیں کہ توراۃ میں بجائے (یا ایھا الذین امنوا) کے (یا ایھا المساکین) ہے۔ ایک روایت ابن عباس کے نام سے بیان کی جاتی ہے کہ جہاں کہیں لفظ آیت (یا ایھا الذین امنوا) ہے، ان تمام مواقع پر ان سب ایمان والوں کے سردار و شریف اور امیر حضرت علی ہیں، اصحاب رسول میں سے ہر ایک کو ڈانٹا گیا ہے بجز حضرت علی بن ابو طالب کے کہ انہیں کسی امر میں نہیں ڈانٹا گیا، یاد رہے کہ یہ اثر بالکل بےدلیل ہے۔ اس کے الفاظ منکر ہیں اور اس کی سند بھی صحیح نہیں۔ حضرت امام بخاری ؒ فرماتے ہیں اس کا راوی عیسیٰ بن راشد مجہول ہے، اس کی روایت منکر ہے۔ میں کہتا ہوں اسی طرح اس کا دوسرا راوی علی بن بذیمہ گو ثقہ ہے مگر اعلیٰ درجہ کا شیعہ ہے۔ پھر بھلا اس کی ایسی روایت جو اس کے اپنے خاص خیالات کی تائید میں ہو، کیسے قبول کی جاسکے گی ؟ یقینا وہ اس میں ناقابل قبول ٹھہرے گا، اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ تمام صحابہ کو بجز حضرت علی کے ڈانٹا گیا، اس سے مراد ان کی وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ نکالنے کا حکم دیا تھا، پس ایک سے زیادہ مفسرین نے کہا ہے کہ اس پر عمل صرف حضرت علی ہی نے کیا اور پھر یہ فرمان اترا کہ آیت (ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍ) 58۔ المجادلہ :13) لیکن یہ غلط ہے کہ اس آیت میں صحابہ کو ڈانٹا گیا، بلکہ دراصل یہ حکم بطور واجب کے تھا ہی نہیں، اختیاری امر تھا۔ پھر اس پر عمل ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کردیا۔ پس حقیقتاً کسی سے اس کے خلاف عمل سرزد ہی نہیں ہوا۔ پھر یہ بات بھی غلط ہے کہ حضرت علی کو کسی بات میں ڈانٹا نہیں گیا۔ سورة انفال کی آیت ملاحظہ ہو جس میں ان تمام صحابہ کو ڈانٹا گیا ہے۔ جنہوں نے بدری قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دینے کا مشورہ دیا تھا، دراصل سوائے حضرت عمر بن خطاب ؓ کے باقی تمام صحابہ کا مشورہ یہی تھا پس یہ ڈانٹ بجز حضرت عمر کے باقی سب کو ہے، جن میں حضرت علی بھی شامل ہیں، پس یہ تمام باتیں اس امر کی کھلی دلیل ہیں کہ یہ اثر بالکل ضعیف اور بودا ہے، واللہ اعلم۔ ابن جریر میں حضرت محمد بن سلمہ فرماتے ہیں جو کتاب رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھوا کردی تھی جبکہ انہیں نجران بھیجا تھا، اس کتاب کو میں نے ابوبکر بن حزم کے پاس دیکھا تھا اور اسے پڑھا تھا، اس میں اللہ اور رسول کے بہت سے احکام تھے، اس میں آیت (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بالْعُقُوْدِ) 5۔ المائدہ :1) سے آیت (يَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَهُمْ ۭقُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ ۙوَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۡ فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ) 5۔ المائدہ :4) تک بھی لکھا ہوا تھا۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عمرو بن حزم کے پوتے حضرت ابوبکر بن محمد نے فرمایا ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کی یہ کتاب ہے جسے آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھ کردی تھی جبکہ انہیں یمن والوں کو دینی سمجھ اور حدیث سکھانے کے لئے اور ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے یمن بھیجا تھا، اس وقت یہ کتاب لکھ کردی تھی، اس میں عہد و پیمان اور حکم احکام کا بیان یہ۔ اس میں آیت (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) کے بعد لکھا ہے یہ کتاب ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے، ایمان والو وعدوں کو اور عہد و پیمان کو پورا کرو، یہ عہد محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے عمرو بن حزم کے لئے ہے جبکہ انہیں یمن بھیجا انہیں اپنے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا حکم ہے یقیناً اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے رہیں اور جو احسان خلوص اور نیکی کریں۔ حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں " عقود سے مراد عہد ہیں۔ " ابن جریر اس پر اجماع بتاتے ہیں۔ خواہ قسمیہ عہد و پیمان ہو یا اور وعدے ہوں، سب کو پورا کرنا فرض ہے۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ " عہد کو پورا کرنے میں اللہ کے حلال کو حلال جاننا، اس کے حرام کو حرام جاننا، اس کے فرائض کی پابندی کرنا، اس کی حد بندی کی نگہداشت کرنا بھی ہے، کسی بات کا خلاف نہ کرو، حد کو نہ توڑو، کسی حرام کام کو نہ کرو، اس پر سختی بہت ہے۔ پڑھو آیت (وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ) 13۔ الرعد :25)۔ " حضرت ضحاک فرماتے ہیں " اس سے مراد یہ کہ اللہ کے حلال کو، اس کے حرام کو، اس کے وعدوں کو، جو ایمان کے بعد ہر مومن کے ذمہ آجاتے ہیں پورا کرنا اللہ کی طرف سے فرض ہے، فرائض کی پابندی، حلال حرام کی عقیدت مندی وغیرہ وغیرہ " حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں " یہ چھ عہد ہیں، اللہ کا عہد، آپس کی یگانگت کا قسمیہ عہد، شرکت کا عہد، تجارت کا عہد، نکاح کا عہد اور قسمیہ وعدہ " محمد بن کعب کہتے ہیں " پانچ ہیں، جن میں جاہلیت کے زمانہ کی قسمیں ہیں اور شرکت تجارت کے عہد و پیمان ہیں، جو لوگ کہتے ہیں کہ خریدو فروخت پوری ہو چکنے کے بعد گو اب تک خریدا اور بیچنے والے ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے ہوں تاہم واپس لوٹانے کا اختیار نہیں وہ اپنی دلیل اس آیت کو بتلاتے ہیں۔ " امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا یہی مذہب ہے، لیکن امام شافعی اور امام احمد اس کے خلاف ہیں اور جمہور علماء کرام بھی اس کے مخالف ہیں، اور دلیل میں وہ صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جو صحیح بخاری مسلم میں حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا " خریدو فروخت کرنے والوں کو سودے کے واپس لینے دینے کا اختیار ہے جب تک کہ جدا جدا نہ ہوجائیں " صحیح بخاری شریف کی ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ " جب وہ شخصوں نے خریدو فروخت کرلی تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے سے علیحدہ ہونے تک اختیار باقی ہے۔ یہ حدیث صاف اور صریح ہے کہ یہ اختیار خریدو فروخت پورے ہو چکنے کے بعد کا ہے۔ ہاں اسے بیع کے لازم ہوجانے کے خلاف نہ سمجھا جائے بلکہ یہ شرعی طور پر اسی کا مقتضی ہے، پس اسے نبھانا بھی اسی آیت کے ماتحت ضروری ہے۔ پھر فرماتا ہے مویشی چوپائے تمہارے لئے حلال کئے گئے ہیں یعنی اونٹ، گائے، بکری۔ ابو الحسن، قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں " عرب میں ان کے لغت کے مطابق بھی یہی ہے " حضرت ابن عمر حضرت ابن عباس وغیرہ بہت سے بزرگوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ جس حلال مادہ کو ذبح کیا جائے اور اس کے پیٹ میں سے بچہ نکلے گو وہ مردہ ہو پھر بھی حلال ہے۔ ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے کہ صحابہ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ اونٹنی، گائے، بکری ذبح کی جاتی ہے، ان کے پیٹ سے بچہ نکلتا ہے تو ہم اسے کھا لیں یا پھینک دیں۔ آپ نے فرمایا " اگر چاہو کھالو، اس کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذیبحہ ہے۔ " امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں، ابو داؤد میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں " پیٹ کے اندر والے بچے کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذبیحہ ہے۔ " پھر فرماتا ہے مگر وہ جن کا بیان تمہارے سامنے کیا جائے گا۔ ابن عباس فرماتے ہیں " اس سے مطلب مردار، خون اور خنزیر کا گوشت ہے۔ " حضرت قتادہ فرماتے ہیں " مراد اس سے از خود مرا ہوا جانور اور وہ جانور ہوے جس کے ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو " پورا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہی ہے لیکن بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد اللہ کا فرمان آیت (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيْحَةُ وَمَآ اَ كَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بالْاَزْلَامِ ۭذٰلِكُمْ فِسْقٌ ۭ اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 5۔ المائدہ :3) ہے یعنی تم پر مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر منسوب و مشہور کی جائے اور جو گلا گھونٹنے سے مرجائے، کسی ضرب سے مرجائے، اونچی جگہ سے گر کر مرجائے اور کسی ٹکر لگنے سے مرجائے، جسے درندہ کھانے لگے پس یہ بھی گو مویشیوں چوپایوں میں سے ہیں لیکن ان وجوہ سے وہ حرام ہوجاتے ہیں اسی لئے اس کے بعد فرمایا لیکن جس کو ذبح کر ڈالو۔ جو جانور پرستش گاہوں پر ذبح کیا جائے، وہ بھی حرام ہے اور ایسا حرام کہ اس میں سے کوئی چیز حلال نہیں، اسی لئے اس سے استدراک نہیں کیا گیا اور حلال کے ساتھ اس کا کوئی فرد ملایا نہیں گیا، پس یہاں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ چوپائے مویشی تم پر حلال ہیں لیکن وہ جن کا ذکر ابھی آئے گا۔ بعض احوال میں حرام ہیں، اس کے بعد کا جملہ حالیت کی بناء پر منصوب ہے۔ مراد انعام سے عام ہے بعض تو وہ جو انسانوں میں رہتے پلتے ہیں، جیسے اونٹ، گائے، بکری اور بعض وہ جو جنگلی ہیں جیسے ہرن، نیل گائے اور جنگلی گدھے، پس پالتو جانوروں میں سے تو ان کو مخصوص کرلیا جو بیان ہوئے اور وحشی جانوروں میں سے احرام کی حالت میں کسی کو بھی شکار کرنا ممنوع قرار دیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے " ہم نے تمہارے لئے چوپائے جانور ہر حال میں حلال کئے ہیں پس تم احرام کی حالت میں شکار کھیلنے سے رک جاؤ اور اسے حرام جانو " کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے جس طرح اس کے تمام احکام سراسر حکمت سے پر ہیں، اسی طرح اس کی ہر ممانعت میں بھی حکمت ہے، اللہ وہ حکم فرماتا ہے جو ارادہ کرتا ہے۔ ایماندار ! رب کی نشانیوں کی توہین نہ کرو، یعنی مناسک حج، صفا، مروہ، قربانی کے جانور، اونٹ اور اللہ کی حرام کردہ ہر چیز، حرمت والے مہینوں سمیت کسی کی توہین نہ کرو، ان کا ادب کرو، ان کا لحاظ رکھو، ان کی عظمت کو مانو اور ان میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کی نافرمانیوں سے بچو اور ان مبارک اور محترم مہینوں میں اپنے دشمنوں سے از خود لڑائی نہ چھیڑو۔ جیسے ارشاد ہے آیت (يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ ۭ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ ۭ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌۢ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۤ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۭ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ۭ وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ) 2۔ البقرۃ :217) اے نبی لوگ تم سے حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کا حکم پوچھتے ہیں تم ان سے کہو کہ ان میں لڑائی کرنا گناہ ہے اور آیت میں ہے مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ ہے۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوبکر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجتہ الودع میں فرمایا " زمانہ گھوم گھام کر ٹھیک اسی طرز پر آگیا ہے جس پر وہ اس وقت تھا، جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے، جن میں سے چار ماہ حرمت والے ہیں۔ تین تو یکے بعد دیگرے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب، جسے قبیلہ مضر رجب کہتا ہے جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان یہ۔ " اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان مہینوں کی حرمت تاقیامت ہے جیسے کہ سلف کی ایک جماعت کا مذہب ہے آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس وغیرہ سے یہ مروی ہے کہ ان " مہینوں میں لڑائی کرنا حلال نہ کرلیا کرو۔ " لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے اور حرمت والے مہینوں میں بھی دشمنان اسلام سے جہاد کی ابتداء کرنا بھی جائز ہے۔ ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے آیت (فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 9۔ التوبہ :5) یعنی جب حرمت والے مہینے گذر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور مراد یہاں ان چار مہینوں کا گذر جانا ہے، جب وہ چار مہینے گذر چکے جو اس وقت تھے، تو اب ان کے بعد برابر جہاد جاری ہے اور قرآن نے پھر کوئی مہینہ خاص نہیں کیا، بلکہ امام ابو جعفر تو اس پر اجماع نقل کرتے ہیں کہ " اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے جہاد کرنا، ہر وقت اور ہر مہینے میں جاری ہی رکھا ہے۔ " آپ فرماتے ہیں کہ اس پر بھی اجماع ہے کہ " اگر کوئی کافر حرم کے تمام درختوں کی چھال اپنے اوپر لپیٹ لے تب بھی اس کے لئے امن وامان نہ سمجھی جائے گی۔ اگر مسلمانوں نے از خود اس سے پہلے اسے امن نہ دیا ہو۔ " اس مسئلہ کی پوری بحث یہاں نہیں ہوسکتی۔ پھر فرمایا کہ ھدی اور قلائد کی بےحرمتی بھی مت کرو۔ یعنی بیت اللہ شریف کی طرف قربانیاں بھیجنا بند نہ کرو، کیونکہ اس میں اللہ کی نشانوں کی تعظیم ہے اور قربانی کے لئے جو اونٹ بیت الحرام کی طرف بھیجو، ان کے گلے میں بطور نشان پٹا ڈالنے سے بھی نہ رکو۔ تاکہ اس نشان سے ہر کوئی پہچان لے کہ یہ جانور اللہ کے لئے اللہ کی راہ کے لئے وقف ہوچکا ہے اب اسے کوئی برائی سے ہاتھ نہ لگائے گا بلکہ اسے دیکھ کر دوسروں کو بھی شوق پیدا ہوگا کہ ہم بھی اس طرح اللہ کے نام جانور بھیجیں اور اس صورت میں تمہیں اس کی نیکی پر بھی اجر ملے گا کیونکہ جو شخص دوسروں کو ہدایت کی طرف بلائے اسے بھی وہ اجر ملے گا، جو اس کی بات مان کر اس پر عمل کرنے والوں کو ملتا ہے۔ یہ بھی خیال رہے اللہ تعالیٰ ان کے اجر کو کم کر کے اسے نہیں دے گا بلکہ اسے اپنے پاس سے عطا فرمائے گا۔ آنحضرت ﷺ جب حج کے لئے نکلے تو آپ نے وادی عقیق یعنی ذوالحلیفہ میں رات گذاری، صبح اپنی نو بیویوں کے پاس گئے، پھر غسل کر کے خوشبو ملی اور دو رکعت نماز ادا کی اور اپنی قربانی کے جانور کے کوہان پر نشان کیا اور گلے میں پٹہ ڈالا اور حج اور عمرے کا احرام باندھا۔ قربانی کے لئے آپ نے بہت خوش رنگ مضبوط اور نوجوان اونٹ ساٹھ سے اوپر اوپر اپنے ساتھ لئے تھے، جیسے کہ قرآن کا فرمان ہے جو شخص اللہ کے احکام کی تعظیم کرے اس کا دل تقوے والا ہے۔ بعض سلف کا فرمان ہے کہ " تعظیم یہ بھی ہے کہ قربانی کے جانوروں کو اچھی طرح رکھا جائے اور انہیں خوب کھلایا جائے اور مضبوط اور موٹا کیا جائے۔ " حضرت علی بن ابو طالب فرماتے ہیں " ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ہم قربانی کے جانوروں کی آنکھیں اور کان دیکھ بھال کر خریدیں " (رواہ اہل السنن) مقاتل بن حیان فرماتے ہیں " جاہلیت کے زمانے میں جب یہ لوگ اپنے وطن سے نکلتے تھے اور حرمت والے مہینے نہیں ہوتے تھے تو یہ اپنے اوپر بالوں اور اون کو لپیٹ لیتے تھے اور حرم میں رہنے والے مشرک لوگ حرم کے درختوں کی چھالیں اپنے جسم پر باندھ لیتے تھے، اس سے عام لوگ انہیں امن دیتے تھے اور ان کو مارتے پیٹتے نہ تھے۔ " حضرت ابن عباس سے بروایت حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ اس سورت کی دو آیتیں منسوخ ہیں " آیت قلائد اور یہ آیت (فَاِنْ جَاۗءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ ۚ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَـيْـــًٔـا) 5۔ المائدہ :42) " لیکن حضرت حسن سے جب سوال ہوتا ہے کہ " کیا اس سورت میں سے کوئی آیت منسوخ ہوئی ہے ؟ " تو آپ فرماتے ہیں " نہیں " حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ " وہ لوگ حرم کے درختوں کی چھالیں لٹکا لیا کرتے تھے اور اس سے انہیں امن ملتا تھا، پس اللہ تعالیٰ نے حرم کے درختوں کو کاٹنا منع فرما دیا۔ " پھر فرماتا ہے " جو لوگ بیت اللہ کے ارادے سے نکلے ہوں، ان سے لڑائی مت لڑو۔ یہاں جو آئے وہ امن میں پہنچ گیا، پس جو اس کے قصد سے چلا ہے اس کی نیت اللہ کے فضل کی تلاش اور اس کی رضامندی کی جستجو ہے تو اب اسے ڈر خوف کے دباؤ میں نہ رکھو، اس کی عزت اور ادب کرو اور اسے بیت اللہ سے نہ روکو۔ " بعض کا قول ہے کہ " اللہ کا فضل تلاش کرنے سے مراد تجارت ہے۔ " جیسے اس آیت میں ہے (لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ) 2۔ البقرۃ :198) یعنی زمانہ حج میں تجارت کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ رضوان سے مراد حج کرنے میں اللہ کی مرضی کو تلاش کرنا ہے۔ ابن جریر وغیرہ فرماتے ہیں " یہ آیت خطیم بن ہند، بکری کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس شخص نے مدینہ کی چراگاہ پر دھاوا ڈالا تھا پھر اگلے سال یہ عمرے کے ارادے سے آ رہا تھا تو بعض صحابہ کا ارادہ ہوا کہ اسے راستے میں روکیں، اس پر یہ فرمان نازل ہوا۔ " امام ابن جرید نے اس مسئلہ پر اجماع نقل کیا ہے کہ " جو مشرک مسلمانوں کی امان لئے ہوئے نہ ہو تو چاہے وہ بیت اللہ شریف کے ارادے سے جا رہا ہو یا بیت المقدس کے ارادے سے، اسے قتل کرنا جائز ہے یہ حکم ان کے حق میں منسوخ ہے واللہ اعلم وہاں جو شخص وہاں الحاد پھیلانے کیلئے جا رہا ہے اور شرک و کفر کے ارادے کا قصد کرتا ہو تو اسے روکا جائے گا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں پہلے مومن و مشرک سب حج کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی ممانعت تھی کہ کسی مومن کافر کو نہ روکو لیکن اس کے بعد یہ آیت اتری کہ (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا ۚ وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖٓ اِنْ شَاۗءَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ) 9۔ التوبہ :28) یعنی مشرکین سراسر نجس ہیں اور وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ آئیں گے اور فرمان ہے آیت (اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَام الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ) 9۔ التوبہ :18) یعنی مشرکین اللہ کی مسجد کو آباد رکھنے کے ہرگز اہل نہیں فرمان ہے آیت (اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَام الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ) 9۔ التوبہ :18) یعنی اللہ کی مسجد کو تو صرف وہی آباد رکھ سکتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں۔ پس مشرکین مسجدوں سے روک دیئے گئے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں منسوخ ہے، جاہلیت کے زمانہ میں جب کوئی شخص اپنے گھر سے حج کے ارادے سے نکلتا تو وہ درخت کی چھال وغیرہ باندھ لیتا تو راستے میں اسے کوئی نہ ستاتا، پھر لوٹتے وقت بالوں کا ہار ڈال لیتا اور محفوظ رہتا اس وقت تک مشرکین بیت اللہ سے روکے نہ جاتے تھے، اب مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ حرمت والے مہینوں میں نہ لڑیں اور نہ بیت اللہ کے پاس لڑیں، پھر اس حکم کو اس آیت نے منسوخ کردیا کہ مشرکین سے لڑو جہاں کہیں انہیں پاؤ۔ " ابن جریر کا قول ہے کہ " قلائد سے مراد یہی ہے جو ہار وہ حرم سے گلے میں ڈال لیتے تھے اور اس کی وجہ سے امن میں رہتے تھے، عرب میں اس کی تعظیم برابر چلی آرہی تھی اور جو اس کے خلاف کرتا تھا اسے بہت برا کہا جاتا تھا اور شاعر اس کو ہجو کرتے تھے " پھر فرماتا ہے " جب تم احرام کھول ڈالو تو شکار کرسکتے ہو " احرام میں شکار کی ممانعت تھی، اب احرام کے بعد پھر اس کی اباحت ہوگئی جو حکم ممانعت کے بعد ہو اس حکم سے وہی ثابت ہوتا ہے جو ممانعت سے پہلے اصل میں تھا۔ یعنی اگر وجوب اصلی تھا تو ممانعت کے بعد کا امر بھی وجوب کیلئے ہوگا۔ اور اسی طرح مستحب و مباح کے بارے میں۔ گو بعض نے کہا ہے کہ ایسا امر وجوب کیلئے ہی ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے، صرف مباح ہونے کیلئے ہی ہوتا ہے لیکن دونوں جماعتوں کے خلاف قرآن کی آیتیں موجود ہیں۔ پس صحیح مذہب جس سے تمام دلیلیں مل جائیں وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا اور بعض علماء اصول نے بھی اسے ہی اختیار کیا واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے جس قوم نے تمہیں حدیبیہ والے سال مسجد حرام سے روکا تھا تو تم ان سے دشمنی باندھ کر قصاص پر آمادہ ہو کر اللہ کے حکم سے آگے بڑھ کر ظلم و زیادتی پر نہ اتر آنا، بلکہ تمہیں کسی وقت بھی عدل کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہئے۔ اسی طرح کی وہ آیت بھی ہے جس میں فرمایا ہے " تمہیں کسی قسم کی عداوت خلاف عدل کرنے پر آمادہ نہ کر دے۔ عدل کیا کرو، عدل ہی تقوے سے زیادہ قریب ہے۔ " بعض سلف کا قول ہے کہ " گو کوئی تجھ سے تیرے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرے لیکن تجھے چاہئے کہ تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمانبرداری ہی کرے۔ عدل ہی کی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہے۔ " حضور ﷺ کو اور آپ کے اصحاب کو جبکہ مشرکین نے بیت اللہ کی زیارت سے روکا اور حدیبیہ سے آگے بڑھنے ہی نہ دیا، اسی رنج و غم میں صحابہ واپس آ رہے تھے جو مشرقی مشرک مکہ جاتے ہوئے انہیں ملے تو ان کا ارادہ ہوا کہ جیسے ان کے گروہوں نے ہمیں روکا ہم بھی انہیں ان تک نہ جانے دیں۔ اس پر یہ آیت اتری (شنان) کے معنی بغض کے ہیں بعض عرب اسے شنان بھی کہتے ہیں لیکن کسی قاری کی یہ قرأت مروی نہیں، ہاں عربی شعروں میں شنتان بھی آیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اپنے ایمان والے بندوں کو نیکی کے کاموں پر ایک دوسرے کی تائید کرنے کو فرماتا ہے، بر " کہتے ہیں نیکیاں کرنے کو اور تقویٰ " کہتے ہیں برائیوں کے چھوڑنے کو اور انہیں منع فرماتا ہے گناہوں اور حرام کاموں پر کسی کی مدد کرنے کو ابن جریر فرماتے ہیں جس کام کے کرنے کا اللہ کا حکم ہو اور انسان اسے نہ کرے، یہ اثم " ہے اور دین میں جو حدیں اللہ نے مقرر کردی ہیں جو فرائض اپنی جان یا دوسروں کے بارے میں جناب باری نے مقرر فرمائے ہیں، ان سے آگے نکل جانا عدوان ہے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے " اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم ہو " تو حضور ﷺ سے سوال ہوا کہ " یا رسول اللہ ﷺ مظلوم ہونے کی صورت میں مدد کرنا ٹھیک ہے لیکن ظالم ہونے کی صورت میں کیسے مدد کریں ؟ " فرمایا " اسے ظلم نہ کرنے دو ، ظلم سے روک لو، یہی اس وقت کی اس کی مدد ہے " یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے، مسند احمد میں ہے " جو مسلمان لوگوں سے ملے جلے اور دین کے حوالے سے ان کی ایذاؤں پر صبر کرے وہ ان مسلمانوں سے بڑے اجر والا ہے، جو نہ لوگوں سے ملے جلے، نہ ان کی ایذاؤں پر صبر کرے " مسند بزار میں ہے " جو شخص کسی بھلی بات کی دوسرے کو ہدایت کرے وہ اس بھلائی کے کرنے والے جیسا ہی ہے " امام ابوبکر بزار اسے بیان فرما کر فرماتے ہیں کہ " یہ حدیث صرف اسی ایک سند سے مروی ہے۔ " لیکن میں کہتا ہوں اس کی شاہد یہ صحیح حدیث ہے کہ جو شخص ہدایت کی طرف لوگوں کو بلائے، اسے ان تمام کے بابر ثواب ملے گا جو قیامت تک آئیں گے اور اس کی تابعداری کریں گے۔ لیکن ان کے ثواب میں سے گھٹا کر نہیں اور جو شخص کسی کو برائی کی طرف چلائے تو قیامت تک جتنے لوگ اس برائی کو کریں گے۔ ان سب کا جتنا گناہ ہوگا، وہ سارا اس اکیلے کو ہوگا۔ لیکن ان کے گناہ گھٹا کر نہیں۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں " جو شخص کسی ظالم کے ساتھ جائے تاکہ اس کی اعانت و امداد کرے اور وہ جانتا ہو کہ یہ ظالم ہے وہ یقینا دین اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ ،
Top