بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Bayan-ul-Quran - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
اے اہل ایمان ! اپنے عہد و پیمان (قول وقرار) کو پورا کیا کرو تمہارے لیے حلال کردیے گئے ہیں مویشی قسم کے تمام حیوانات سوائے ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جا رہے ہیں نہ جائز کرتے ہوئے شکار کو جبکہ تم حالت احرام میں ہو بیشک اللہ حکم دیتا ہے جو چاہتا ہے
آیت 1 ‘ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بالْعُقُوْدِ ط۔ عقدہ گرہ کو کہتے ہیں جس میں مضبوطی سے بندھنے کا مفہوم شامل ہے۔ لہٰذا عُقُود سے مراد وہ معاہدے ہیں جو باقاعدہ طے پاگئے ہوں۔ معاہدوں اور قول وقرار کی اہمیت یوں سمجھ لیجیے کہ ہماری پوری کی پوری سماجی و معاشرتی زندگی قائم ہی معاہدوں پر ہے۔ معاشرتی زندگی کا بنیادی یونٹ ایک خاند ان ہے ‘ جس کی بنیاد ایک معاہدے پر رکھی جاتی ہے۔ شادی کیا ہے ؟ مرد اور عورت کے درمیان ایک ساتھ زندگی گزارنے کا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے سے انسانی معاشرے کی بلند وبالا عمارت کی بنیادی اینٹ رکھی جاتی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق فریقین کے کچھ حقوق ہیں اور کچھ فرائض۔ ایک طرف بیوی کے حقوق اور اس کے فرائض ہیں اور دوسری طرف شوہر کے حقوق اور اس کے فرائض۔ بڑے بڑے کاروبار بھی معاہدوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ آجر اور مستاجر کا تعلق بھی ایک معاہدے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اسی طرح کاروبار حکومت ‘ حکومتی اداروں میں عہدے اور مناصب ‘ چھوٹے بڑے اہلکاروں کی ذمہ ‘ داریاں ‘ ان کی مراعات اور اختیارات کا معاملہ ہے۔ گویا تمام معاشرتی ‘ معاشی اور سیاسی معاملات قرآن حکیم کے ایک حکم پر عمل کرنے سے درست سمت پر چل سکتے ہیں ‘ اور وہ حکم ہے اَوْفُوْ بالْعُقُوْدِ۔ اُحِلَّتْ لَکُمْ بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَام الاَّ مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ جن کا حکم آگے چل کر تمہیں بتایا جائے گا ‘ یعنی خنزیر ‘ مردار وغیرہ حرام ہیں۔ باقی جو مویشی قسم کے جانور ہیں ‘ وحوش نہیں مثلاً شیر ‘ چیتا وغیرہ وحشی ہیں وہ حلال ہیں ‘ جیسے ہرن ‘ نیل گائے اور اس طرح کے جانور جو عام طور پر گوشت خور نہیں ہیں بلکہ سبزے پر ان کا گزارا ہے ‘ ان کا گوشت تمہارے لیے حلال کردیا گیا ہے۔ البتہ استثنائی صورتوں کی تفصیل بعد میں تمہیں بتادی جائے گی۔ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ ط۔ یعنی اگر تم نے حج یا عمرے کے لیے احرام باندھا ہوا ہے تو تم اس حالت میں ان حلال جانوروں کا بھی شکار نہیں کرسکتے۔ 33 اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ یہ اللہ کا اختیار ہے ‘ وہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے ‘ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔
Top