بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
اے ایمان والو پورا کرو عہدوں کو حلال ہوئے تمہارے لیے چوپائے مویشی سوائے ان کے جو تم کو آگے سنائے جاویں گے مگر حلال نہ جانو شکار کو احرام کی حالت میں اللہ حکم کرتا ہے جو چاہے۔
سوت کا شان نزول اور خلاصہ مضامین
یہ سورة مائدہ کی ابتدائی آیت ہے۔ سورة مائدہ بالاتفاق مدنی سورة ہے اور مدنی سورتوں میں بھی آخر کی سورت ہے، یہاں تک کہ بعض حضرات نے اس کو قرآن کی آخری سورت بھی کہا ہے۔ مسند احمد میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر ؓ و اسماء بنت یزید منقول ہے کہ سورة مائدہ رسول کریم ﷺ پر اس وقت نازل ہوئی جب کہ آپ سفر میں عضبا نامی اونٹنی پر سوار تھے۔ نزول وحی کے وقت جو غیر معمولی ثقل اور بوجھ ہوا کرتا تھا حسب دستور اس وقت بھی ہوا۔ یہاں تک کہ اونٹنی عاجز ہوگئی۔ تو آپ ﷺ اس سے نیچے اتر آئے۔ یہ سفر بظاہر حجة الوداع کا سفر ہے جیسا کہ بعض روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ حجة الوداع ہجرت کے دسویں سال میں ہوا، اور اس سے واپسی کے بعد رسول کریم ﷺ کی دنیوی حیات تقریباً اسی (80) دن رہی۔ ابن حبان نے بحر محیط میں فرمایا کہ سورة مائدہ کے بعض اجزاء سفر حدیبیہ میں اور بعض فتح مکہ کے سفر میں اور بعض حجة الوداع کے سفر میں نازل ہوئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سورت نزول قرآن کے آخری مراحل میں نازل ہوئی ہے۔ خواہ بالکل آخری سورت نہ ہو۔
روح المعانی میں بحوالہ ابو عبید حضرت حمزہ بن حبیب اور عطیہ بن قیس کی یہ روایت رسول کریم ﷺ سے منقول ہے۔ المائدة من اٰخر القراٰن تنزیلا فاحلو احلالہا وحترموا حرامھا۔ یعنی سورة مائدہ ان چیزوں میں سے ہے جو نزول قرآن کے آخری دور میں نازل کی گئی ہیں۔ اس میں جو چیز حلال کی گئی ہے اس کو ہمیشہ کے لئے حلال اور جو چیز حرام کی گئی ہے اس کو ہمیشہ کے لئے حرام سمجھو۔
اسی قسم کی ایک روایت ابن کثیر نے مستدرک حاکم کے حوالہ سے حضرت جبیر بن نفیر ؓ سے نقل کی ہے کہ وہ حج کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا جبیر تم سورة مائدہ پڑھتے ہو۔ انہوں نے عرض کیا ہاں پڑھتا ہوں۔ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ یہ قرآن پاک کی آخری سورة ہے اور اس میں جو احکام حلال و حرام کے آئے ہیں وہ محکم ہیں۔ ان میں نسخ کا احتمال نہیں ہے۔ ان کا خاص اہتمام کرو۔ سورة مائدہ میں بھی سورة نساء کی طرح فروعی احکام، معاملات، معاہدات وغیرہ کے زیادہ بیان کئے گئے ہیں۔ اسی لئے روح المعانی نے فرمایا ہے کہ سورة بقرہ اور سورة آل عمران باعتبار مضامین کے متحد ہیں۔ کیونکہ ان میں زیادہ تر احکام اصول عقائد، توحید، رسالت، قیامت وغیرہ کے آئے ہیں۔ فروعی احکام ضمنی ہیں اور سورة نساء اور مائدہ باعتبار مضامین کے متحد ہیں کہ ان دونوں میں بیشتر فروعی احکام کا بیان ہے، اصول کا بیان ضمنی ہے۔ سورة نساء میں باہمی معاملات اور حقوق العباد پر زور دیا گیا ہے۔ شوہر بیوی کے حقوق، یتیموں کے حقوق، والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے حقوق کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ سورة مائدہ کی پہلی آیت میں بھی ان تمام معاملات اور معاہدات کی پابندی اور ان کے پورا کرنے کی ہدایت آئی ہے۔ یا ایھا الذین اٰمنوا اوفوا بالعقود۔ اسی لئے سورة مائدہ کا دوسرا نام سورة عقود بھی ہے۔ (بحر محیط)
معاہدات اور معاملات کے بارے میں یہ سورة اور بالخصوص اس کی ابتدائی آیت ایک خاص حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے جب عمرو بن حزم ؓ کو یمن کا عامل (گورنر) بنا کر بھیجا اور ایک فرمان لکھ کر ان کے حوالہ کیا۔ تو اس فرمان کے سرنامہ پر آپ ﷺ نے یہ آیت تحریر فرمائی تھی۔
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو (تمہارے ایمان کا مقتضا یہ ہے کہ) اپنے عہدوں کو (جو کہ ایمان کے ضمن میں تم نے خدا تعالیٰ سے کئے ہیں، پورا کرو (یعنی احکام شرعیہ کو بجا لاؤ کیونکہ ایمان لانے سے سب کا التزام ہوگیا اور التزام کا متقضی ایفاء ہے) تمہارے لئے تمام چوپائے جو مشابہ (ان) انعام (یعنی اونٹ، بکری، گائے) کے ہوں (جن کی حلت اس سے قبل سورة انعام میں جو کہ مکیہ ہے معلوم ہوچکی ہے، پس ان کے مشابہ جتنے چوپائے ہیں سب) حلال کئے گئے ہیں (جیسے ہرن، نیل گائے وغیرہ کہ اونٹ بکری گائے کے مشابہ ہیں اس بات میں کہ درندے اور شکاری نہیں بجز ان بہائم کے جو کہ دوسرے دلائل شرعیہ حدیث وغیرہ سے مخصوص و مستثنیٰ ہوچکے ہیں۔ جیسے گدھا، خچر وغیرہ۔ ان مستثنیات کے سوا اور سب بہائم اہلی و وحشی حلال ہیں) مگر جن کا ذکر آگے (آیت حرمت علیکم المیتة الخ میں) آتا ہے (کہ وہ باوجود بھیمة الانعام میں داخل ہونے اور مخصوص بالحدیث وغیرہ سے خارج ہونے کے بھی حرام ہیں۔ اور باقی تم کو حلال ہیں) لیکن (ان میں) جو شکار (ہیں ان) کو حلال مت سمجھنا جس حالت میں کہ تم احرام (یا حرم) میں ہو (مثلاً حج وعمرہ کا احرام باندھے ہو گو حرم سے خارج ہو یا یہ کہ حرم کے اندر ہو کہ غالباً شکار بھی حرم کے اندر ہوگا، کیونکہ اصل مدار حکم کا شکار کا حرم کے اندر ہونا ہے گو احرام نہ باندھے ہو، دونوں حالتوں میں شکار یعنی برّی و وحشی کا حرام ہے) بیشک اللہ تعالیٰ جو چاہیں حکم کریں (یعنی وہی مصلحت ہوتا ہے، پس جس جانور کو چاہا ہمیشہ کے لئے فی نفسہ اوقات اضطرار میں حرام کردیا جس کو چاہا ہمیشہ کے لئے حلال کردیا۔ جس کو چاہا کسی حالت میں حلال کردیا کسی حالت میں حرام کردیا۔ تم کو ہر حالت میں امتثال واجب ہے۔
معارف و مسائل
اس سورت کی پہلی آیت کا پہلا جملہ ایک ایسا جامع جملہ ہے کہ اس کی تشریح و تفسیر میں ہزاروں صفحات لکھے جاسکتے ہیں ارشاد ہے یا ایھا الذین بالعقود۔ یعنی اے ایمان والو اپنے معاہدوں کو پورا کیا کرو۔ اس میں پہلے یا ایھا الذین امنوا سے خطاب فرما کر مضمون کی اہمیت کی طرف متوجہ کردیا گیا کہ اس میں جو حکم ہے وہ عین ایمان کا تقاضا ہے۔ اس کے بعد حکم فرمایا اوفوا بالعقود۔ لفظ عقود عقد کی جمع ہے۔ جس کے لفظی معنی باندھنے کے ہیں۔ اور جو معاہدہ دو شخصوں یا دو جماعتوں میں بندھ جائے اس کو بھی عقد کہا جاتا ہے۔ اس لئے بمعنی عہود ہوگیا۔
امام تفسیر ابن جریر نے مفسرین صحابہ وتابعین کا اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ امام جصاص نے فرمایا کہ عقد کہا جائے یا عہد و معاہدہ، اس کا اطلاق ایسے معاملہ پر ہوتا ہے جس میں دو فریق نے آئندہ زمانے میں کوئی کام کرنے یا چھوڑنے کی پابندی ایک دوسرے پر ڈالی ہو۔ اور دونوں متفق ہو کر اس کے پابند ہوگئے ہوں۔ ہمارے عرف میں اسی کا نام معاہدہ ہے اسی لئے خلاصہ مضمون اس جملہ کا یہ ہوگیا کہ باہمی معاہدات کا پورا کرنا لازم و ضروری سمجھو۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ ان معاہدات سے کون سے معاہدات مراد ہیں۔ اس میں حضرات مفسرین کے اقوال بظاہر مختلف نظر آتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے اس سے مراد وہ معاہدات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ایمان و اطاعت کے متعلق لئے ہیں۔ یا وہ معاہدات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نازل کئے ہوئے احکام حلال و حرام سے متعلق اپنے بندوں سے لئے ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے یہی منقول ہے اور بعض نے فرمایا کہ معاہدات سے اس جگہ وہ معاہدات مراد ہیں جو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کرلیا کرتے ہیں۔ جیسے معاہدہ نکاح، معاہدہ بیع و شراء وغیرہ۔ مفسرین میں سے ابن زید اور زید بن اسلم اسی طرف گئے ہیں۔ اور بعض نے فرمایا کہ معاہدات سے وہ حلف اور معاہدے مراد ہیں جو زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے سے باہمی امداد کے لئے لیا کرتے تھے۔ مجاہد، ربیع، قتادہ وغیرہ، مفسرین نے بھی یہی فرمایا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ان میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیں۔ بلکہ یہ سب قسم کے معاہدات لفظ عقود کے تحت میں داخل ہیں اور سبھی پورے کرنے کے لئے قرآن کریم نے ہدایت دی ہے۔
اسی لئے امام راغب اصفہانی نے فرمایا کہ معاہدات کی جتنی قسمیں ہیں سب اس لفظ کے حکم میں داخل ہیں اور پھر فرمایا کہ اس کی ابتدائی تین قسمیں ہیں۔ ایک وہ معاہدہ جو انسان کا رب العالمین کے ساتھ ہے۔ مثلاً ایمان، اطاعت کا عہد یا حلال و حرام کی پابندی کا عہد۔ دوسرے وہ معاہدہ جو ایک انسان کا خود اپنے نفس کے ساتھ ہے، جیسے کسی چیز کی نذر اپنے ذمہ مان لے، یا حلف کرکے کوئی چیز اپنے ذمہ لازم کرلے، تیسرے وہ معاہدہ جو ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ ہے۔ اور تیسری قسم میں وہ تمام معاہدات شامل ہیں جو دو شخصوں یا دو جماعتوں یا دو حکمتوں کے درمیان ہوتے ہیں۔
حکومتوں کے بین العالمی معاہدات۔ یا باہمی سمجھوتے۔ جماعتوں کے باہمی عہد و میثاق اور دو انسانوں کے درمیان ہر طرح کے معاملات نکاح، تجارت، شرکت، اجارہ، ہبہ وغیرہ ان تمام معاہدات میں جو جائز شرطیں باہم طے ہوجائیں اس آیت کی رو سے ان کی پابندی ہر فریق پر لازم و واجب ہے۔ اور جائز کی قید اس لئے لگائی کہ خلاف شرع شرط لگانا یا اس کا قبول کرنا کسی کے لئے جائز نہیں۔
اس کے بعد آیت کے دوسرے جملہ میں اس عام ضابطہ کی خاص جزئیات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے احلت لکم الانعام۔ لفظ بھیمة ان جانوروں کے لئے بولا جاتا ہے، جن کو عادةً غیر ذوی العقول سمجھا جاتا ہے کیونکہ لوگ ان کی بولی کو عادةً نہیں سمجھتے تو ان کی مراد مبہم رہتی ہے۔ اور امام شعرانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ بہیمہ کو بہیمہ اس لئے نہیں کہتے کہ اس کو عقل نہیں اور عقل کی باتیں اس پر مبہم رہتی ہیں۔ جیسا کہ لوگوں کا عام خیال ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عقل و ادراک سے کوئی جانور بلکہ کوئی شجر و حجر بھی خالی نہیں۔ ہاں درجات کا فرق ضرور ہے۔ ان چیزوں میں اتنی عقل نہیں ہے جتنی انسان میں اسی لئے انسان کو احکام کا مکلف بنایا گیا ہے۔ جانوروں کو مکلف نہیں بنایا گیا۔ ورنہ اپنی ضروریات زندگی کی حد تک ہر جانور بلکہ ہر شجر و حجر کو حق تعالیٰ نے عقل و ادراک بخشا ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ وان من شی الا یسبح بحمدہ۔ عقل نہ ہوتی تو اپنے خالق ومالک کو کس طرح پہچانتی اور کس طرح تسبیح کرتی۔
امام شعرانی کے فرمانے کا خلاصہ یہ ہے کہ بہیمہ کو بہیمہ اس لئے نہیں کہتے کہ اس کی بےعقلی کے سبب معلومات اس پر مبہم رہتے ہیں بلکہ اس لئے کہ اس کی بولی لوگ نہیں سمجھتے۔ اس کا کلام لوگوں پر مبہم رہتا ہے۔ بہرحال لفظ بہیمہ ہر جاندار کے لئے بولا جاتا ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ چوپایہ جانداروں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔
اور لفظ انعام نعم کی جمع ہے۔ پالتو جانور جیسے اونٹ، گائے، بھینس، بکری وغیرہ جن کی آٹھ قسمیں سورة انعام میں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ان کو انعام کہا جاتا ہے۔ بہیمہ کا لفظ عام تھا۔ انعام کے لفظ نے اس کو خاص کردیا۔ مراد آیت کی یہ ہوگئی کہ گھریلو جانوروں کی آٹھ قسمیں تمہارے لئے حلال کردی گئیں۔ لفظ عقود کے تحت میں ابھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ تمام معاہدات داخل ہیں۔ ان میں سے ایک معاہدہ وہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے حلال و حرام کی پابندی کے متعلق لیا ہے۔ اس جملہ میں اس خاص معاہدہ کا بیان آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اونٹ، بکری، گائے، بھینس وغیرہ کو حلال کردیا ہے۔ ان کو شرعی قاعدہ کے موافق ذبح کرکے کھا سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی ان حدود کے اندر رکھ کر پابندی کرو۔ نہ تو مجوسی اور بت پرستوں کی طرح مطلقاً ان جانوروں کے ذبح ہی کو حرام قرار دو کہ یہ حکمت حق جل شانہ، پر اعتراض اور اس کی نعمت کی ناشکری ہے۔ اور نہ دوسرے گوشت خور فرقوں کی طرح بےقید ہو کر ہر طرح کے جانور کو کھا جاو بلکہ اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے قانون کے تحت جن جانوروں کو اس نے حلال کیا ہے ان کو کھاو۔ اور جن جانوروں کو حرام قرار دیا ہے ان سے بچو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی خالق کائنات ہے۔ وہ ہر جانور کی حقیقت اور خواص سے اور انسان کے اندر ان سے پیدا ہونے والے اثرات سے واقف ہے۔ وہ طیبات یعنی پاک اور ستھری چیزوں کو انسان کے لئے حلال کردیتے ہیں۔ جن کے کھانے سے انسان کی جسمانی صحت پر یا روحانی اخلاق پر برا اثر نہ پڑے اور گندے ناپاک جانوروں سے منع فرماتے ہیں۔ جو انسانی صحت کے لئے مہلک ہیں یا ان کے اخلاق خراب کرنے والے ہیں۔ اسی لئے اس حکم عام سے چند چیزوں کا استثناء فرمایا۔
پہلا استثناء یہ ہے، الا ما یتلی علیکم۔ یعنی بجز ان جانوروں کے جن کی حرمت قرآن میں بیان کردی گئی ہے۔ مثلاً مردار جانور یا خنزیر وغیرہ۔ دوسرا استثناءغیر محلی حرمت سے فرمایا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ چوپائے جانور تمہارے لئے حلال ہیں، اور جنگل کا شکار بھی حلال ہے۔ مگر جبکہ تم نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا ہوا ہو، تو اس وقت شکار کرنا جرم و گناہ ہے اس سے بچو۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا۔ ان اللہ یحکم ما یرید۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے کسی کو حق نہیں کہ اس کے ماننے میں چون و چرا کرے۔ اس میں شاید اس حکمت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کیلئے بعض جانوروں کو ذبح کرکے کھانے کی اجازت کوئی ظلم نہیں۔ جس مالک نے یہ سب جانیں بنائی ہیں۔ اسی نے پوری حکمت و بصیرت کے ساتھ یہ قانون بھی بنایا ہے کہ ادنیٰ کو اعلیٰ کے لئے غذا بنایا ہے۔ زمین کی مٹی درختوں کی غذا ہے اور درخت جانوروں کی غذا۔ اور جانور انسان کی غذا۔ انسان سے اعلیٰ کوئی مخلوق اس دنیا میں نہیں ہے۔ اس لئے انسان کسی کی غذا نہیں بن سکتا۔
Top