بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ بندشوں کی پوری پابندی کرو۔ تمہارے لئے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کئے گئے سوائے ان کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لئے حلال نہ کرلو ‘ بیشک اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے ۔
(آیت) ” نمبر 1۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ بندشوں کی پوری پابندی کرو) ۔ زندگی کے بسر کرنے کے لئے کچھ ضوابط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ خود انسان اور اس کے نفس کے درمیان جو تعلق ہے اسکے لئے بھی کچھ اصول اور ضوابط ہوتے ہیں۔ پھر ایک انسان اور انسان کے درمیان تعلق کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور پھر انسان اور تمام دوسری زندہ مخلوق اور غیر زندہ اشیاء کے درمیان بھی تعلق کے ضابطے ہوتے ہیں ۔ لوگوں میں سے رشتہ داروں سے تعلقات ‘ غیر رشتہ داروں اور دور کے لوگوں کے ساتھ تعلقات ‘ خاندان اور قوم کے لوگوں کے ساتھ تعلقات ‘ جماعت کے ساتھ تعلقات اور پھر پوری امت کے ساتھ ایک فرد کا تعلق ‘ دشمنوں کے ساتھ تعلق ‘ دوستوں کے ساتھ تعلق ‘ دنیا کی ان زندہ جیروں کے ساتھ تعلق جنہیں اللہ نے انسان کے قابو میں رکھا ہے اور ان کے ساتھ تعلق جو بےتعلق جو بےقابو ہیں اور اس وسیع و عریض کائنات کی تمام اشیاء کے ساتھ انسان کے تعلق کے اصول و ضوابط اسلامی نظام زندگی کے اندر پورے کے پورے موجود ہیں ۔ پھر انسان کی زندگی کا ربط اپنے رب کے ساتھ ‘ اپنے آقا کے ساتھ تو ایک ایسا تعلق ہے جو زندگی کی بنیادی قدر ہے ۔ یہ تمام امور اس نظام کے اندر مقرر اور منضبط ہیں ۔ اسلامی نظام ان تمام ضوابط اور تعلقات کو انسانی زندگی کے اندر عملا ثابت کرتا ہے ۔ وہ ان تعلقات کو قائم کرتا ہے ‘ ان کے لئے حدود قیود متعین کرتا ہے اور ان کی پوری پوری وضاحت کرتا ہے ۔ اور یہ تمام رابطے رب ذوالجلال کے عنوان سے ہوتے ہیں ۔ وہ ان تمام رابطوں کے احترام کی ضمانت دیتا ہے ۔ ان کی بےحرمتی اور ان کے ساتھ مذاق کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ ان روابط کے بارے میں اسلامی نظام یہ صورت حال برداشت نہیں کرتا کہ انہیں بدلتی ہوئی خواہشات نفسانیہ کے حوالے کر دے یا ان اغراض ومقاصد کے نابع کر دے جن کا تعلق کسی ایک فرد کی خواہش اور سوچ سے ہو ۔ یا کوئی جماعت ان اغراض اور خواہشات میں دلچسپی رکھتی ہو یا اقوام عالم میں سے کسی قوم میں یہ اغراض پائی جاتی ہوں یا تاریخ انسانی کی نسلوں میں سے کوئی نسل ان میں دلچسپی رکھتی ہو اور ان اسباب کی وجہ سے انہیں توڑ دینا چاہتی ہو۔ ان تمام روابط ہی میں انسان کی مصلحت ہے بشرطیکہ ان روابط کو اللہ اور رسول نے لوگوں کے لئے وضع کیا ہو ‘ اگرچہ کوئی فرد ‘ کوئی جماعت ‘ کوئی قوم یا کوئی نسل یہ سمجھتی ہو کہ ان میں انسانوں کی مصلحت نہیں ہے اس لئے کہ اللہ خوب جانتا ہے ۔ اور لوگوں کا علم محدود ہے ۔ جو فیصلہ اللہ کرتا ہے وہ بہتر ہے اس سے جو خود لوگ کرتے ہیں ۔ اللہ میاں کے ادب واحترام کا پہلا زینہ یہ ہے کہ انسان اپنے ذاتی اندازے کو اللہ کی تقدیر کے مقابلے میں نہ لائے اور یہ سمجھے کہ بہتر وہی ہے جو اللہ نے قرار دیا ۔ اور جو اللہ نے قرار دیا ‘ اس کے آگے سرتسلیم خم کر دے ‘ نہایت ہی رضامندی ‘ نہایت ہی وثوق اور پورے اطمینان کے ساتھ ۔ یہ تمام ضوابط جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ‘ ان کی تعبیر اللہ تعالیٰ لفظ ” العقود “ سے فرماتے ہیں اور اہل ایمان کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ان عقود کی پوری پوری پابندی کریں ۔ اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ بندشوں اور عقود کی پابندی کرو اور اس کے بعد پھر حلال و حرام کا بیان شروع کردیا ۔ کھانے پینے میں سے محرمات کو بیان کردیا ۔ نکاح میں جو محرمات ہیں ان کو بیان کردیا اور ان کے بعد دوسرے شرع احکام اور عبادات کے طریقوں کی تفصیلات بیان کیں ۔ اس کے والا صحیح عقائد ونظریات کی تشریح بھی کی گئی ۔ بندگی اور عبادت کے طریقے بھی بیان ہوئے اور اللہ کی حاکمیت کی تفصیلات بھی دی گئیں ۔ پھر امت مسلمہ اور دوسری امم کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا تذکرہ بھی ہوا اور احکام بھی ذکر ہوئے ۔ امت مسلمہ کا فریضہ ہے کہ وہ شہادت حق ادا کرے ۔ دنیا میں انصاف قائم کرے ۔ پوری انسانیت کی نگرانی کرے ‘ اس لئے کہ اس کی کتاب بھی تمام کتب پر حاوی اور نگہبان ہے ۔ اور پھر یہ حکم کہ اسلامی معاشرے میں فیصلے اللہ کے قانون کے مطابق ہوں اور یہ حکم کہ فتنے میں نہ پڑو اور ذاتی اور شخصی وجوہات کی بنا پر عدل و انصاف کا رشتہ ہاتھ سے نہ چھوڑو ۔ یہ تمام امور العقود کی تشریح کرتے ہیں ۔ غرض اس سورة کا افتتاح لفظ العقود سے اور اس کے بعد تمام احکام و عقائد و عبادات کی تشریح اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ لفظ عقود اور عقد کا مفہوم اس لغوم سے بہت ہی وسیع ہے جو اس لفظ کے سنتے ہی ذہن میں آجاتا ہے بلکہ اس سے مراد وہ تمام ضابطہ حیات ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے مقرر فرمایا ہے ۔ انسان کے لیے اللہ نے جو ضابطہ حیات مقرر فرمایا ہے اس کی اساس ایمان باللہ اور اس معرفت پر ہے کہ اللہ کی الوہیت کا مفہوم کیا ہے اور اللہ کی الوہیت ‘ حاکمیت اور معبودیت کے تقاضے کیا ہیں ؟ یہ عقد اس ایمان اور تصور حاکمیت الہیہ سے پھونٹا ہے اور زندگی کے تمام ضوابط اس ایمان اور عقیدہ اور پابندی عقود پر استوار ہوتے ہیں ۔ اللہ پر ایمان لانے کا عقد ‘ اللہ کی حاکمیت ‘ ربوبیت اور اس کے قوام اور نگران ہونے کا اعتراف اور اس عقد واعتراف کے نتیجے میں اللہ کی مکمل بندگی کرنے کے تقاضے اور ہمہ گیر اور عمیق اطاعت اور سرتسلیم خم کردینے کے وعدے وہ امور ہیں جن پر اسلام کی عمارت استوار ہے ۔ یہ عہد سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم سے اس وقت لیا تھا جب اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب خلافت فی الارض کی چابیاں سپرد فرمائی تھیں ۔ اس معاہدے اور میثاق کو قرآن کریم نے ان الفاظ اور شرائط کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ (آیت) ” قلنا اھبطوا منھا جمیعا فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون (38) والذین کفروا وکذبوا بایتنا اولئک اصحب الناس ھم فیھا خالدون (39) (2 : 38۔ 39) (ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر جب میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے ‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ‘ ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا ۔ اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ‘ وہ آگ میں جانے والے ہیں ‘ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ ) حضرت آدم اور آپ کے بعد مطلق انسان کو جو مقام خلافت فی الارض دیا گیا ہے وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اللہ کے رسول جو ہدایت لے کر آئیں گے ان کو قبول کیا جائے گا ۔ اگر اللہ کے رسولوں اور ان پر نازل شدہ ہدایات کو قبول نہ کیا گیا تو یہ عہد کی صریح خلاف ورزی ہوگی اور پھر انسان کو اس کرہ ارض پر زندہ رہنے کا کوئی حق نہ ہوگا نہ وہ اس زمین کا مالک ہوگا ۔ اگر اس عہد کی خلاف ورزی کی گئی تو جو کام بھی اس عہد کے خلاف ہوں گے وہ باطل (Void) اور کالعدم ہوں گے ۔ انکی کوئی قانونی حیثیت نہ ہوگی اور نہ ان افعال کو از سرنو درست کیا جاسکے گا اس لیے جو شخص بھی اللہ پر صحیح ایمان رکھتا ہو ‘ اللہ کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنا چاہتا ہو ‘ اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اس باطل کی مدافعت کرے ‘ اس کو ہر گز قبول نہ کرے اور اس باطل کی اساس پر کوئی معاملہ نہ کرے ، اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ ہر گز وفائے عہد نہ کر رہا ہوگا ۔ اللہ کے ساتھ اس عقد اور اس عہد کی ذریت آدم کے ساتھ تجدید ہوتی رہی ہے ۔ آدم (علیہ السلام) کی جو جو نسل وجود میں آتی رہی ہے اس کے ساتھ یہی از سر نو ہوتا رہا ہے ۔ ایک دوسری آیت میں ہے ۔ (آیت) ” واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظھورھم ذریتھم واشھدھم علی انفسھم الست بربکم قالوا بلی شھدنا ان تقولوا یوم القیمۃ انا کنا عن ھذا غفلین (172) او تقولوا انما اشرک ابآونا من قبل وکنا ذریۃ من بعدھم افتھلکنا بما فعل المبطلون (173) (7 : 172۔ 173) (اور اے نبی لوگوں کو یاد دلاو وقت جب کہ تمہارے رب نے نبی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہوں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ” کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ “ انہوں نے کہا : ” ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ہم اس پر گواہی دیتے ہیں “۔ یہ ہم نے اس لئے کہا کہ کہیں قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ” ہم اس بات سے بیخبر تھے ۔ “ یا یہ کہنے لگو کہ ” شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے ۔ پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا ؟ـ) غرض یہ ایک دوسرا صریح معاہدہ تھا جو ہر فرد کے ساتھ طے ہوا ۔ اور یہ عہد ایسا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تمام بنی آدم کے ساتھ طے پایا تھا اور یہ اس وقت ہوا جب وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے ۔ ہم یہاں یہ سوال نہیں کرسکتے کہ یہ عہد کیسے طے پایا کیونکہ یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ کیسے طے پایا ۔ لوگوں کے ساتھ اللہ نے کس طرح خطاب کیا۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے جبکہ وہ آباء کی پشتوں میں تھے ۔ بہرحال اللہ نے ان سے خطاب کی اور ان پر اتمام حجت کیا ۔ اور ان سے عہد یہ لیا گیا کہ وہ ان کا رب ہے اور انہوں نے اس کا اقرار کای جس طرح اللہ نے بیان کیا ہے ۔ اب اگر لوگ اللہ کی الوہیت کو تسلیم نہ کریں گے تو یہ ان کی جانب سے عہد کی خلاف ورزی ہوگی ۔ پھر اگے چل اس سورة میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بھی ایسا ہی عہد لیا تھا ‘ اس وقت جب پہاڑ کو ان کے اوپر ابر کی طرح لٹکا دیا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ یہ پہاڑ ان کے اوپر گرنے ہی والا ہے ۔ آگے بتایا جائے گا کہ انہوں نے کس طرح اس عہد ومیثاق کی خلاف ورزی کی اور پھر ان پر خدا کا عذاب کس طرح نازل ہوا۔ اسی طرح حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانے والے لوگوں نے بھی درحقیقت ‘ آپ پر ایمان لا کر اللہ سے معاہدہ کیا ۔ انہوں نے سمع اور اطاعت پر عہد کیا ، خوشی میں بھی اور مشکلات میں بھی اور یہ کہ اس عہد کو ہر چیز پہ مقدم رکھیں گے اور کسی کام کے اہل شخص اور مستحق شخص کے استحقاق کو چیلنج نہ کریں گے ۔ اس عام عہد اور عقد کے بعد خصوصی عہد بھی ہوتے رہے ۔ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقعہ پر جس کے نتیجے میں ہجرت کا عمل شروع ہوا اور آپ ﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف منتقل ہوئے انصار کے نمائندوہ کے ساتھ ایسا ہی عقد ہوا تھا اور حدیبیہ میں بھی ایک عقد بیعت الرضوان کے نام سے ہوا تھا۔ غرض اللہ پر ایمان لانے کے عقد ‘ اور اللہ کی بندگی کرنے کے عہد پر تمام دوسرے عقود مرتب ہوتے ہیں ‘ چاہے ان کا تعلق اللہ کے اوامر سے ہو یا نواہی سے ہو یا ان کا تعلق عام لوگوں ‘ زندہ چیزوں یا اس کائنات کی دوسری چیزوں سے ہو یا ان حدود میں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی شرعی حکم دیا ہے ۔ یہ سب عقود ہیں اور اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو بحیثیت مومن یہ حکم دے رہے ہیں کہ وہ ان عقود کو پوری طرح سرانجام دیں اس لئے کہ ایمان لاتے ہی ان پر یہ پابندی عائد ہوگئی ہے اور ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ وہ ایسا کریں اور یہی وجہ ہے کہ خطاب یوں ہوا (آیت) ” یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود) اور اس کے بعد اب مزید تفصیلات ان عقود کی اس طرح آتی ہیں ۔
Top