Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Ghaashiya : 17
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ
: کیا وہ نہیں دیکھتے
اِلَى الْاِبِلِ
: اونٹ کی طرف
كَيْفَ
: کیسے
خُلِقَتْ
: پیدا کئے گئے
کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف دیکھتے کہ وہ کس طرح پیدا کیے گئے ہیں
(گذشتہ پیوستہ) اب ان آیات میں قدرت کے چند دلائل پیش کئے ہیں کہ اگر ان کو سامنے رکھا جائے تو قیامت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ جس طرح مالک الملک نے چیزیں پیدا کی ہیں ۔ اسی طرح وہ اس بات پر قادر ہے کہ انسان کو دوبارہ پیدا کرکے اس سے حساب کتاب لے ۔ جب انسان ان اشیاء پر کوئی تعجب نہیں کرتا تو پھر وہ وقوع قیامت اور بعث بعد الموت پر کیوں ہے ۔ ان آیات میں اللہ نے ان چار چیزوں کو بطور دلیل پیش کیا ہے ۔ جن سے قرآن پاک کے اولین مخاطبین قوم عرب بخوبی واقف تھے ۔ دوسرے مقامات پر اور بھی بہت سے دلائل قدرت مذکور ہیں ۔ مگر اس مقام پر پیش آمدہ صرف چار کا ذکر ہے ۔ (اونٹ اور اسکی خصوصیات ) عربوں کا اونٹوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ اس پر سواری کرتے تھے ۔ اس کی اون کے کپڑے پہنتے تھے ۔ اور اس کا گوشت بھی کھاتے تھے ۔ خاص طور پر دور دراز کے سفر میں اونٹ ہی سواری کا کام دیتے تھے ۔ عرب کے لق ودق صحرا میں اونٹ وہی کام دیتا تھا جو سمندر میں کشتی ۔ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کو عجیب و غریب خصوصیات کا حامل پیدا کیا ہے ۔ جسم کے لحاظ سے بہت بڑا جانور ہے مگر ہاتھی اس سے بھی بڑا ہے ۔ بڑا طاقتور ہے ۔ مگر گینڈا اس سے بھی زیادہ طاقتور ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ عرب میں صرف اونٹ ہی پایا جاتا ہے ۔ ہاتھی ، گینڈا وغیرہ وہاں نہیں ہوتا ۔ تاہم اونٹ میں اللہ تعالیٰ نے کمال صفات پیدا فرمائی ہیں یہ قدیم زمانے سے انسان کا خدمت گذار ہے ۔ بیحد محنتی اور ثابت قدم ہے ۔ خلقت کے اعتبار سے عجیب و غریب ہے ۔ لمبی ٹانگیں لمبی گردن دراز جسم کلانی ، غرض ہر چیز حیرت انگیز ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں ۔ کہ پہلی آیت فی جنۃ عالیۃ یعنی جنتی لوگ اونچے باغوں میں ہوں گے ۔ اور اونچے تختوں پر بیھٹیں گے اور اونچی جگہ پر چڑھنا دشوار ہوتا ہے ۔ تو ان آیات کی مناسبت اونٹ سے ہے ۔ کہ جس طرح وہ بلند مقامات ہیں اسی طرح اونٹ بھی بلند قامت جانور ہے اس لیے فرمایا افلا ینظرون الی الابل کیا تم اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کتنا اونچا جانور پیدا کیا ہے ۔ اس پر سواری کرنا مشکل تھا ۔ مگر اس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی خاصیت رکھی ہے ۔ کہ سواری کے لیے گھٹنے ٹیک بیٹھ جاتا ہے ۔ تاکہ سوار اس پر سوار ہوسکے اس پر سامان لادا جاسکے اس کے بعد وہ اٹھ کر منزل کی طرف روانہ ہوجاتا ہے اگر اس میں بوقت ضرورت بیٹھنے کی صلاحیت نہ ہوتی سیڑھی کے بغیر سواری ممکن نہ تھی ۔ تو فرمایا جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے اونٹ پر سوار ہونا آسان کردیا اسی طرح وہ جنت کے اونچے تختوں پر بیٹھنا بھی آسان فرمادے گا ۔ اسی لیے فرمایا کیا یہ لوگ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ نے کیف خلقت کیسا جانور پیدا کیا ۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اونٹ میں سات خصوصیات رکھی ہیں۔ جسم تو بلاشبہ بڑا اور حیرت انگیز ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ جانور بڑا صابر جانور ہے ۔ بھوک اور پیاس کافی عرصہ تک برداشت کرسکتا ہے ۔ پانی نہ ملے تو دس دن تک پرواہ نہیں کرتا ۔ بڑا لمبا سفر کرسکتا ہے۔ بوجھ بہت زیادہ اٹھا سکتا ہے ۔ ہمارے جب اس علاقے میں جیپ سفر کرسکتا ہے ۔ بوجھ بہت زیادہ اٹھا سکتا ہے ۔ ہمارے یہاں جب اس علاقے میں جیپ نہیں چلتی تھی تو بارہ من بوجھ لاد کر بالا کوٹ سے 20 بیس دن میں گلگت پہنچ جاتے تھے ۔ اتنا محنتی اور جفاکش جانور ہے ۔ عرب میں بڑے بڑے ریگستان ہیں ۔ وادی دہنا میں آٹھ آٹھ سو ، نو نو سو میل تک ریگستان پھیلے ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ پہاڑ ہیں راستے دشوار گذرا ہیں مگر یہ اونٹ ہے ۔ جو ان راستوں کو عبور کرجاتا ہے۔ وفادار اس قدر ہے ۔ کہ چھوٹا سا بچہ بھی نکیل پکڑ کر جدہر چاہے لے جائے ۔ کہتے ہیں ۔ یہ بڑا باغیرت جانور ہے حتی الامکان اپنے ارادے سے اپنی ماں یا بہن کے ساتھ جفت نہیں ہوتا ۔ اور چلتے وقت اپنا رخ اکثر قبلہ کی طرف رکھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں عجیب خصوصیات رکھی ہیں ۔ خوراک کے معاملے میں بالکل سادہ ہے ۔ ہر قسم کا کانٹے دار جھاڑ کھا لیتا ہے۔ دوسرے جانور کڑوا یا کانٹے دار جھاڑ نہیں کھاتے ، مگر یہ بلاچون وچرا پیٹ بھر لیتا ہے پچھلی آیت میں جس ضریع یعنی کانٹے دار کڑوی جھاڑ ی کا ذکر آیا ہے وہ بھی کھا لیتا ہے ۔ شاہ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر اونٹ کا مثانہ نکال کر کسی عاشق کے ہاتھ پر باندھ دیا جائے تو اس کا عشق زائل ہوجاتا ہے ۔ یہ اس جانور کی مختلف خصوصیات ہیں ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اونٹ کا حال بیان فرمایا کیا یہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے۔ خدا کی کیسی قدرت کاملہ ہے ۔ کیسا عجیب و غریب وفادار محنتی جفا کش صابر اور خدمت گار جانور ہے ۔ اس کی رفتار بھی بڑی تیز ہے جب حدی پڑھی جاتی ہے تو اس کی رفتار میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور یہ لکعہ ابراروں کی طرح چلتا جاتا ہے بزرگان دین فرماتے ہیں ۔ سی نے محنت جفاکشی اور سادگی سیکھنی ہو تو اونٹ سے سیکھے۔ برخواں افلا ینظر تا قدرت مابینی ۔۔۔۔۔ یک رہ بشتر مبنگر تا صنع خدا بینی در خار خوری قانع دربار کشی راضی۔۔۔۔ ایں وصف اگر جوئی در اہل صفا بینی یہ ایسا جانور ہے کہ کانٹے کھا کر راضی ہوجاتا ہے ۔ بوجھ جتنا بھی ڈالو اٹھا کرلے جاتا ہے بھوک پیاس برداشت کرکے لمبا سفر طے کرلیتا ہے ۔ فرمایا اہل صفا بھی ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ جو ریاضت کرتے ہیں ۔ اور مشقت برداشت کرتے ہیں ۔ فرمایا افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت کیا ان لوگوں نے اونٹ کی طرف نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح پیدا کیا گیا ہے ۔ اس کی ہمیئت اور خاصیت دیگر جانوروں کی نسبت عجیب و غریب ہے۔ (آسمان پہاڑ اور زمین ) دوسری دلیل یہ فرمائی والی السماء کیف رفعت کیا ان لوگوں نے کبھی آسمان کی طرف غور نہیں کیا کہ اللہ نے اسے کیسا بلند کیا ۔ اتنی بڑی وضع اور ہمئیت کے آسمان کو بغیر ستون کے کھڑا کیا اور جب تک خدا کو یہ نظام قائم رکھنا منظور ہے۔ اس وقت تک قائم رہے گا۔ نہ اس کی چھت کا پلستر کبھی خراب ہوتا ہے اور نہ رنگ زائل ہوتا ہے۔ اسے کسی دوسری چیز کا سہارا بھی میسر نہیں ۔ بغیر عمد ترونھا اسے تم بغیر ستون کے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ اور اس کی بلندی کی یہ کیفیت ہے ۔ کہ رفع سمکھا فسوھا اس کے درمیان اللہ نے عجیب و غریب قسم کا نظام قائم کیا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے آسمان کو بھی بطور دلیل پیش کیا۔ پھر فرمایا والی الجبال کیف نصبت کیا انہوں نے کبھی پہاڑوں کی طرف نہیں دیکھا ۔ کہ انہیں زمین میں کس طرح نصب کردیا ۔ کہ ان میں جنبش تک نہیں ہوتی ، مگر جب اللہ تعالیٰ چاہے تو زلزلہ کی صورت میں انہیں جھنجوڑتا ہے ۔ پہاڑوں میں اللہ تعالیٰ نے انواع اقسام کی چیزیں پیدا کیں ہیں ۔ جن سے انسان اور جانور فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ عرب لوگ پہاڑوں سے اچھی طرح واقف تھے ۔ صبح وشام ان سے واسطہ تھا ۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو تیسری دلیل کے طور پر پیش کیا ۔ کہ یہ لوگ اگر پہاڑوں کی مضبوطی اور ان سے وابستہ طرح طرح کے فوائد کو ہی دیکھ لیں تو بعث الموت کا انکار نہ کریں ۔ چوتھی دلیل یہ فرمائی والی الارض کیف سطحت یہ لوگ زمین کو ہی دیکھ لیں کہ اللہ نے اسے کس طرح بچھا دیا ہے ۔ انسان کی تمام تر ضروریات زمین سے پیدا ہوتی ہیں خوراک لباس مکان سڑکیں راستے ان پر چلنا پھرنا سب زمین سے متعلق ہیں ۔ زمین ویسے تو گول کروی شکل کی ہے مگر جسم بڑا ہونے کی وجہ سے کرویت محسوس نہیں ہوتی بلکہ ہموار سطح محسوس ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کی ہمیت ہی اس طرح بنائی ہے کہ اس کے متعلقہ تمام کام آسان کردیے گیے ہیں ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ خدا کی قدرت کی نشانی ہے کہ وہ ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے ۔ جس کا انکار منکرین قیامت نہیں کرسکتے ۔ وہ خدا جو اتنی وسیع مضبوط اور کارآمد چیزیں پیدا کرسکتا ہے ۔ کیا وہ انسان کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا ۔ یا حساب کتاب نہیں لے سکتا ؟ کیوں نہیں وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (سبق آموز دلائل ) ان دلائل پر غور کرنے کے بعد ایک صاحب عقل شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نے ایسی عجیب و غریب چیزیں پیدا کی ہیں ، وہ بلاشبہ بعث بعد الموت پر بھی قادر ہے جس نے ایسی عجیب و غریب چیزیں پیدا کی ہیں ، وہ بلاشبہ بعث بعد الموت پر بھی قادر ہے یہ تو ایک عام فہم وادراک کی بات ہے ۔ مگر ایک دوسرے لحاظ سے یہ اشیاء انسان کے لیے نہایت سبق آموز ہیں ۔ اے لوگو ! اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اونٹ کی طرح سادگی اختیار کرو اس جیسی محنت کرو اور اپنے اندر جفا کشی پیدا کرو۔ تزول الجبال الراسیات وقلبنا ۔۔۔ علی العھد لا یلوی ولا یتغیر۔۔ پہاڑ اتنے مضبوط ہونے کے باوجود اپنی جگہ سے ٹل سکتے ہیں ۔ مگر ہمارے عہد وپیماں کبھی نہیں ٹوٹ سکتے ۔ کیونکہ یہ پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہیں ۔ لہذا پہاڑوں کی طرح راسخ ہونا چاہیئے ۔ علامہ اقبال مرحوم کہتے ہیں۔ بخود خزیدہ ومحکم چو کو ہساراں زی ۔۔۔ چوخس مزی کہ ہوا تیز وشعلہ بیباک است پہاڑ کی طرح مستقل مزاج بن کر زندگی کذار ، نہ تنکے کی طرح کمزور جسے تیز ہوا اڑا لے جائے یا شعلہ جلا ڈالے ۔ اگر مضبوط اور مستقل مزاج رہوگے اپنے ایمان اور نیکی پر قائم رہوگے تو کامیابی حاصل ہوگی ۔ وگرنہ ڈانواں ڈول انسان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ جو دن میں تین تین عقیدے بدلتا ہے ۔ یہ پہاڑ تمہارے لیے مستقل مزاجی کی علامت ہیں۔ زمین کے متعلق فرمایا کہ دیکھ ! ہم نے کس طرح اسے پھیلا دیا ۔ زمین اس قدر عاجز ہے کہ لوگ اسے ٹھوکریں مارتے ہیں ، اس کو کھودتے ہیں ۔ اس پر چلتے ہیں کاروبار کرتے ہیں ۔ مگر اس میں اس قدر انکسار ہے کہ ہر زحمت برداشت کرتی ہے ۔ مگر کبھی کسی کے خلاف شکایت تک نہیں کرتی ۔ اتنی جسیم ہونے کے باوجود اس قدر منکسر المزاج ہے ۔ لہذا اگر عاجزی اور انکساری سیکھنا ہو تو زمین سے سیکھنا چاہیئے ۔ الغرض قدرت کے یہ دلائل ایک دوسرے زاویہ نگاہ سے بھی نہایت اہم ہیں ۔ کہ انسان کو دنیا کی زندگی میں ان سے کیا سبق حاصل کرنا چاہیئے ۔ سادگی بلند مقصدی مستقل مزاجی اور انکساری وہ زریں اصول زندگی ہیں جو ہمیں ان دلائل قدرت سے حاصل ہوتے ہیں ۔ پچھلی سورة میں بیان ہوچکا ہے قد افلح من تزکی تزکیہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا عقیدہ پاک ہو۔ کفر وشرک کی آمیزش سے بری ہو خوش اخلاقی ہو ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق درست ہو۔ وذکر اسم ربہ کے مطابق انسان اپنے رب کے نام کو زبان بنالے ۔ جو خدا کو یاد کرتا ہے۔ اس کی توجہ خطیرۃ القدس کی طرف رہتی ہے اور جب کوئی آدمی زبان سے سبحان اللہ کہتا ہے ۔ تو اس کا تصور خاص ہوجاتا ہے۔ جب یہ چیزیں ہوں گی تو دنیا میں عدل و انصاف کا دور دورا ہوگا۔ دنیا میں اسلامی معاشرہ قائم ہوگا ۔ حضرت عمربن عبدالعزیز نے جمعہ کے خطبہ میں (اس آیت کو) شامل کرلیا تھا۔ تفسیر مولانا سندھی ان اللہ یامر بالعدل والاحسان ان سورتوں میں مختصر طور پر یہ پروگرام آگیا ہے ۔ اگلی سورتوں میں بھی آرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور بنی نوع انسان کے تعلق کی درستگی فلاح کی ضامن ہے۔ تزکیہ اختیار کرنے کی تلقین سورة مدثر میں بھی کی گئی ۔ گندگی سے پرہیز کی تعلیم والرجز فاھجر میں دی گئی ۔ فرمایا ہر قسم کی گندگی ظاہری باطنی جسمانی روحانی سب سے بچتے رہو۔ خدمت انسانی کا جو پروگرام قرآن پاک نے پیش کیا ہے ۔ اس کو کہاں تلاش کریں نہ انفرادی طور پر ملتا ہے ۔ اور نہ اجتماعی طور پر ۔ انسانیت کی خدمت کا فرض سب سے زیادہ حکومت پر عائد ہوتا ہے۔ مگر حکومتیں کیا کرتی ہیں ۔ ان کے سامنے قرآن پاک کے بلند مقصد والا پروگرام کہاں ہے ۔ ان کی توجہ تو سامان تعیش ۔ سامان خوردو نوش کوٹھی اور بنگلے کی طرف رہتی ہے ۔ قرآن پاک کا پروگرام کس کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دلائل قدرت کے ساتھ سمجھایا ہے کہ تمہارے سامنے سادگی مستقل مزاجی بلند ہمتی اور عاجزی و انکساری کی مثالیں موجود ہیں انہیں دیکھ کر نصیحت پکڑو کہ انسان اور مومن کو کس قسم کا طرز زندگی اختیار کرنا چاہیئے ۔ (افکار کی پاکیزگی) اللہ تعالیٰ نے ہمیں پاکیزگی کی تعلیم دی ہے۔ افکار کی پاکیزگی اس کا ایک اہم جزو ہے آج دنیا گندے افکار سے بھری ہوئی ہے ۔ دہریت فحاشی عریانی اشتراکیت امریکیت اور برطانویت سب گندے افکار ہیں ۔ جو انسان کی روحانیت پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اور اسے اس بلندی سے گرانا چاہتے ہیں جس پر قرآن انہیں پہنچانا چاہتا ہے ۔ کیا سینما دیکھ کر اخلاق سے گرے ہوئے اخبار پڑھ کر برہنہ تصویروں والے رسالے دیکھ کر ریڈیو اور ٹیلیوثرن پر گانے سن کر اور گانے والیاں دیکھ کر کسی کے افکار پاک رہ سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں یہ سب گندگی اور نجاست ہے ۔ اخلاق اور روحانی نجاست ہے۔ (عقیدے کی پاکیزگی) دوسری طرف عقیدے کے معاملے میں دیکھ لیں ۔ ہر طرف شرک بدعت قبر پرستی اور رسوم باطلہ کا دور دورا ہے ۔ یہ سب گندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فاجتنبوا الرجس من الاوثان بت پرستی کی غلاظت سے بچو۔ یہ بت پرستی معنوی گندگی اور نجاست ہے ۔ تم سمجھتے ہو کہ بزرگوں کی تعظیم کر رہے ہو۔ تم تو گندگی میں پھنسے ہوئے ہو۔ مزاروں پر چادریں چڑھاتے ہو ، قبروں کو چومتے ہو ان سے مرادیں مانگتے ہو۔ یہ شرک نجاست ہے۔ پاکیزگی کے سراسر خلاف ہے قبروں پر میلے لگانا انہیں عرس کا نام دینا جھنڈیاں لگانا نعرے بازی کرنا کیا یہی حضور ﷺ کی تعظیم ہے جو تم کر رہے ہو۔ تم تو شب وروز نبی کریم ﷺ کی مخالفت کر رہے ہو ہر بات میں سنت کی مخالفت کرتے ہو۔ حلال و حرام کی تمیز سے بےنیاز ہوگئے ہو۔ سود اور رشوت کھاتے ہو۔ تجارت میں حرام کی کمائی کرتے ہو۔ تمہارے اندر پاکیزگی کیسے آئے گی ۔ اگر پاکیزگی اختیار کرنا چاہتے ہو تو ظاہر و باطن کو پاک کرو۔ مال کو پاک کرو۔ دل کو پاک رکھو اور افکار میں پاکیزگی اختیار کرو۔ (ڈیوٹی کی پابندی ) ڈیوٹی میں کوتاہی آج کل کا معمول بن چکا ہے کسی طرف دیکھ لیں ۔ ہر شعبہ زندگی میں اپنے فرائض سے اغماض پایا جاتا ہے ۔ کوئی شخص اپنی ڈیوٹی پابندی کے ساتھ ادا کرنے پر تیار نہیں پولیس والے ہوں یا فوج والے یا کوئی دوسرے ملازمین فرائض سے غافل ہیں ۔ ان حالات میں پاکیزگی اور استقلال کہاں سے آئے گا۔ اللہ کے کوئی خاص بندے ہی ہیں ۔ جنہیں اس زمانے میں ڈیوٹی کا پاس ہو۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب جہنوں نے پنتالیس 45 برس تک دار العلوم دیوبند میں تعلیم دی ان کی بیوی فوت ہوگئی ۔ عصر کے وقت دفن کر آئے مولانا مغرب کے بعد شمائل شریف کا درس دیتے تھے ۔ کتاب بغل میں لی اور درس گاہ میں پہنچ گئے ۔ لوگوں نے کافی کہا سنا حتی کہ منت خوشامد بھی کی مگر آپ نے فرمایا کہ میں تو اپنی ڈیوٹی ادا کروں گا۔ حدیث کی تعلیم سے زیادہ بڑھ کر کون سا کام ہوسکتا ہے۔ ( حضور ﷺ نصیحت کرنیوالے ہیں ) سورۃ کے آخری حصے میں ارشاد ہوتا ہے ۔ کہ اے نبی (علیہ السلام) فذکر آپ ان لوگوں کو نصیحت کریں کیونکہ انما انت مذکر آپ نصیحت کرنے والے ہیں اور لست علیھم بمصیطر آپ ان کافروں پر داروغہ نہیں ہیں ۔ کہ انہیں پکڑ لائیں اور مسلمان بنالیں ۔ آپ کا یہ کام نہیں ہے ۔ ” علیک الا البلغ آپ کا کام تو اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے ۔ ہاں یہ بات ضرور ہے الا من تولی وکفر جو روگردانی کرے گا ۔ اور کفر کا راستہ اختیار کرے گا ۔ فیعذبہ اللہ العذاب الاکبر اللہ اس کو بڑی سزا دے گا ۔ اور وہ بڑی سزا کیا ہے ۔ اللہ نے پہلی سورة میں بتا دی یصلی النار الکبری جو نصیحت سے اعراض کرے گا ۔ وہ دوزخ کی بڑی آگ میں داخل ہوگا ایسی آگ جو اس دنیا کی آگ سے انہتر 79 گنا تیز ہوگی۔ آپ کا کام نہ سزا دینا ہے ۔ نہ کسی پر زجر کرنا ہے ۔ آپ مذکر ہیں ۔ انہیں سمجھا دیں کہ کوتاہی نہ کریں ۔ کیونکہ ان الینا ایابھم ان لوگوں نے ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا والی اللہ ترجع الامور ہر چیز اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانے والی ہے۔ انسان کو بھی وہیں جانا ہے ۔ پھر جب وہاں پہنچ جائے گا ۔ تو ثم ان علینا حسابھم ان لوگوں کا حساب کتاب لینا بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ ہم خود ان سے پوچھ لیں گے کہ دنیا میں کیا کچھ کر کے آئے ہو۔ اس آیت کی تلاوت پر حضور ﷺ نے یہ دعا لکھائی اللھم حاسبنی حسابا یسیرا ۔ اے اللہ ہم سے آسان حساب لے ۔ آسان حساب کی تفسیر پہلے آچکی ہے ۔ کہ حساب صرف پیش کردیا جائے ۔ حضور ﷺ نے خود فرمایا کہ آسان حساب عرض ہے۔ جس کے ساتھ مناقشہ کیا گیا اور جس سے یہ پوچھ لیا گیا ۔ کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ۔ بس وہ ہلاک ہوگیا ۔ وہ بچ نہیں سکتا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ۔ تم نے فلاں وقت یہ کام کیا بندہ اقرار کرے گا۔ اللہ فرمائے گا ۔ جاؤ یہ آسان حساب ہے۔ سورۃ اعلی کی تلاوت میں اگر سبح اسم ربک الاعلی پڑھ کر وقف کیا جائے تو سبحان ربی الاعلی کہنا چاہیئے ۔ خواہ نماز پڑھ رہا ہو یا نماز سے باہر ہو۔ شاہ عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ نماز میں یہ تسبیح آہستہ کہنی چاہیئے ۔ اور اگر وقف نہیں کیا مسلسل پڑھ لیا تو یہ تسبیح پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ اسی طرح اس سورة مبارکہ میں جب ان علینا حسابھم تلاوت کیا جائے خواہ نماز میں ہو یا باہر ہو اللھم حاسبنی حسابا یسیرا آہستہ آواز میں کہنا چاہیئے ۔
Top