Mualim-ul-Irfan - Al-Ghaashiya : 17
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ نہیں دیکھتے اِلَى الْاِبِلِ : اونٹ کی طرف كَيْفَ : کیسے خُلِقَتْ : پیدا کئے گئے
کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف دیکھتے کہ وہ کس طرح پیدا کیے گئے ہیں
(گذشتہ پیوستہ) اب ان آیات میں قدرت کے چند دلائل پیش کئے ہیں کہ اگر ان کو سامنے رکھا جائے تو قیامت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ جس طرح مالک الملک نے چیزیں پیدا کی ہیں ۔ اسی طرح وہ اس بات پر قادر ہے کہ انسان کو دوبارہ پیدا کرکے اس سے حساب کتاب لے ۔ جب انسان ان اشیاء پر کوئی تعجب نہیں کرتا تو پھر وہ وقوع قیامت اور بعث بعد الموت پر کیوں ہے ۔ ان آیات میں اللہ نے ان چار چیزوں کو بطور دلیل پیش کیا ہے ۔ جن سے قرآن پاک کے اولین مخاطبین قوم عرب بخوبی واقف تھے ۔ دوسرے مقامات پر اور بھی بہت سے دلائل قدرت مذکور ہیں ۔ مگر اس مقام پر پیش آمدہ صرف چار کا ذکر ہے ۔ (اونٹ اور اسکی خصوصیات ) عربوں کا اونٹوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ اس پر سواری کرتے تھے ۔ اس کی اون کے کپڑے پہنتے تھے ۔ اور اس کا گوشت بھی کھاتے تھے ۔ خاص طور پر دور دراز کے سفر میں اونٹ ہی سواری کا کام دیتے تھے ۔ عرب کے لق ودق صحرا میں اونٹ وہی کام دیتا تھا جو سمندر میں کشتی ۔ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کو عجیب و غریب خصوصیات کا حامل پیدا کیا ہے ۔ جسم کے لحاظ سے بہت بڑا جانور ہے مگر ہاتھی اس سے بھی بڑا ہے ۔ بڑا طاقتور ہے ۔ مگر گینڈا اس سے بھی زیادہ طاقتور ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ عرب میں صرف اونٹ ہی پایا جاتا ہے ۔ ہاتھی ، گینڈا وغیرہ وہاں نہیں ہوتا ۔ تاہم اونٹ میں اللہ تعالیٰ نے کمال صفات پیدا فرمائی ہیں یہ قدیم زمانے سے انسان کا خدمت گذار ہے ۔ بیحد محنتی اور ثابت قدم ہے ۔ خلقت کے اعتبار سے عجیب و غریب ہے ۔ لمبی ٹانگیں لمبی گردن دراز جسم کلانی ، غرض ہر چیز حیرت انگیز ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں ۔ کہ پہلی آیت فی جنۃ عالیۃ یعنی جنتی لوگ اونچے باغوں میں ہوں گے ۔ اور اونچے تختوں پر بیھٹیں گے اور اونچی جگہ پر چڑھنا دشوار ہوتا ہے ۔ تو ان آیات کی مناسبت اونٹ سے ہے ۔ کہ جس طرح وہ بلند مقامات ہیں اسی طرح اونٹ بھی بلند قامت جانور ہے اس لیے فرمایا افلا ینظرون الی الابل کیا تم اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کتنا اونچا جانور پیدا کیا ہے ۔ اس پر سواری کرنا مشکل تھا ۔ مگر اس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی خاصیت رکھی ہے ۔ کہ سواری کے لیے گھٹنے ٹیک بیٹھ جاتا ہے ۔ تاکہ سوار اس پر سوار ہوسکے اس پر سامان لادا جاسکے اس کے بعد وہ اٹھ کر منزل کی طرف روانہ ہوجاتا ہے اگر اس میں بوقت ضرورت بیٹھنے کی صلاحیت نہ ہوتی سیڑھی کے بغیر سواری ممکن نہ تھی ۔ تو فرمایا جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے اونٹ پر سوار ہونا آسان کردیا اسی طرح وہ جنت کے اونچے تختوں پر بیٹھنا بھی آسان فرمادے گا ۔ اسی لیے فرمایا کیا یہ لوگ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ نے کیف خلقت کیسا جانور پیدا کیا ۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اونٹ میں سات خصوصیات رکھی ہیں۔ جسم تو بلاشبہ بڑا اور حیرت انگیز ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ جانور بڑا صابر جانور ہے ۔ بھوک اور پیاس کافی عرصہ تک برداشت کرسکتا ہے ۔ پانی نہ ملے تو دس دن تک پرواہ نہیں کرتا ۔ بڑا لمبا سفر کرسکتا ہے۔ بوجھ بہت زیادہ اٹھا سکتا ہے ۔ ہمارے جب اس علاقے میں جیپ سفر کرسکتا ہے ۔ بوجھ بہت زیادہ اٹھا سکتا ہے ۔ ہمارے یہاں جب اس علاقے میں جیپ نہیں چلتی تھی تو بارہ من بوجھ لاد کر بالا کوٹ سے 20 بیس دن میں گلگت پہنچ جاتے تھے ۔ اتنا محنتی اور جفاکش جانور ہے ۔ عرب میں بڑے بڑے ریگستان ہیں ۔ وادی دہنا میں آٹھ آٹھ سو ، نو نو سو میل تک ریگستان پھیلے ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ پہاڑ ہیں راستے دشوار گذرا ہیں مگر یہ اونٹ ہے ۔ جو ان راستوں کو عبور کرجاتا ہے۔ وفادار اس قدر ہے ۔ کہ چھوٹا سا بچہ بھی نکیل پکڑ کر جدہر چاہے لے جائے ۔ کہتے ہیں ۔ یہ بڑا باغیرت جانور ہے حتی الامکان اپنے ارادے سے اپنی ماں یا بہن کے ساتھ جفت نہیں ہوتا ۔ اور چلتے وقت اپنا رخ اکثر قبلہ کی طرف رکھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں عجیب خصوصیات رکھی ہیں ۔ خوراک کے معاملے میں بالکل سادہ ہے ۔ ہر قسم کا کانٹے دار جھاڑ کھا لیتا ہے۔ دوسرے جانور کڑوا یا کانٹے دار جھاڑ نہیں کھاتے ، مگر یہ بلاچون وچرا پیٹ بھر لیتا ہے پچھلی آیت میں جس ضریع یعنی کانٹے دار کڑوی جھاڑ ی کا ذکر آیا ہے وہ بھی کھا لیتا ہے ۔ شاہ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر اونٹ کا مثانہ نکال کر کسی عاشق کے ہاتھ پر باندھ دیا جائے تو اس کا عشق زائل ہوجاتا ہے ۔ یہ اس جانور کی مختلف خصوصیات ہیں ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اونٹ کا حال بیان فرمایا کیا یہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے۔ خدا کی کیسی قدرت کاملہ ہے ۔ کیسا عجیب و غریب وفادار محنتی جفا کش صابر اور خدمت گار جانور ہے ۔ اس کی رفتار بھی بڑی تیز ہے جب حدی پڑھی جاتی ہے تو اس کی رفتار میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور یہ لکعہ ابراروں کی طرح چلتا جاتا ہے بزرگان دین فرماتے ہیں ۔ سی نے محنت جفاکشی اور سادگی سیکھنی ہو تو اونٹ سے سیکھے۔ برخواں افلا ینظر تا قدرت مابینی ۔۔۔۔۔ یک رہ بشتر مبنگر تا صنع خدا بینی در خار خوری قانع دربار کشی راضی۔۔۔۔ ایں وصف اگر جوئی در اہل صفا بینی یہ ایسا جانور ہے کہ کانٹے کھا کر راضی ہوجاتا ہے ۔ بوجھ جتنا بھی ڈالو اٹھا کرلے جاتا ہے بھوک پیاس برداشت کرکے لمبا سفر طے کرلیتا ہے ۔ فرمایا اہل صفا بھی ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ جو ریاضت کرتے ہیں ۔ اور مشقت برداشت کرتے ہیں ۔ فرمایا افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت کیا ان لوگوں نے اونٹ کی طرف نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح پیدا کیا گیا ہے ۔ اس کی ہمیئت اور خاصیت دیگر جانوروں کی نسبت عجیب و غریب ہے۔ (آسمان پہاڑ اور زمین ) دوسری دلیل یہ فرمائی والی السماء کیف رفعت کیا ان لوگوں نے کبھی آسمان کی طرف غور نہیں کیا کہ اللہ نے اسے کیسا بلند کیا ۔ اتنی بڑی وضع اور ہمئیت کے آسمان کو بغیر ستون کے کھڑا کیا اور جب تک خدا کو یہ نظام قائم رکھنا منظور ہے۔ اس وقت تک قائم رہے گا۔ نہ اس کی چھت کا پلستر کبھی خراب ہوتا ہے اور نہ رنگ زائل ہوتا ہے۔ اسے کسی دوسری چیز کا سہارا بھی میسر نہیں ۔ بغیر عمد ترونھا اسے تم بغیر ستون کے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ اور اس کی بلندی کی یہ کیفیت ہے ۔ کہ رفع سمکھا فسوھا اس کے درمیان اللہ نے عجیب و غریب قسم کا نظام قائم کیا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے آسمان کو بھی بطور دلیل پیش کیا۔ پھر فرمایا والی الجبال کیف نصبت کیا انہوں نے کبھی پہاڑوں کی طرف نہیں دیکھا ۔ کہ انہیں زمین میں کس طرح نصب کردیا ۔ کہ ان میں جنبش تک نہیں ہوتی ، مگر جب اللہ تعالیٰ چاہے تو زلزلہ کی صورت میں انہیں جھنجوڑتا ہے ۔ پہاڑوں میں اللہ تعالیٰ نے انواع اقسام کی چیزیں پیدا کیں ہیں ۔ جن سے انسان اور جانور فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ عرب لوگ پہاڑوں سے اچھی طرح واقف تھے ۔ صبح وشام ان سے واسطہ تھا ۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو تیسری دلیل کے طور پر پیش کیا ۔ کہ یہ لوگ اگر پہاڑوں کی مضبوطی اور ان سے وابستہ طرح طرح کے فوائد کو ہی دیکھ لیں تو بعث الموت کا انکار نہ کریں ۔ چوتھی دلیل یہ فرمائی والی الارض کیف سطحت یہ لوگ زمین کو ہی دیکھ لیں کہ اللہ نے اسے کس طرح بچھا دیا ہے ۔ انسان کی تمام تر ضروریات زمین سے پیدا ہوتی ہیں خوراک لباس مکان سڑکیں راستے ان پر چلنا پھرنا سب زمین سے متعلق ہیں ۔ زمین ویسے تو گول کروی شکل کی ہے مگر جسم بڑا ہونے کی وجہ سے کرویت محسوس نہیں ہوتی بلکہ ہموار سطح محسوس ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کی ہمیت ہی اس طرح بنائی ہے کہ اس کے متعلقہ تمام کام آسان کردیے گیے ہیں ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ خدا کی قدرت کی نشانی ہے کہ وہ ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے ۔ جس کا انکار منکرین قیامت نہیں کرسکتے ۔ وہ خدا جو اتنی وسیع مضبوط اور کارآمد چیزیں پیدا کرسکتا ہے ۔ کیا وہ انسان کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا ۔ یا حساب کتاب نہیں لے سکتا ؟ کیوں نہیں وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (سبق آموز دلائل ) ان دلائل پر غور کرنے کے بعد ایک صاحب عقل شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نے ایسی عجیب و غریب چیزیں پیدا کی ہیں ، وہ بلاشبہ بعث بعد الموت پر بھی قادر ہے جس نے ایسی عجیب و غریب چیزیں پیدا کی ہیں ، وہ بلاشبہ بعث بعد الموت پر بھی قادر ہے یہ تو ایک عام فہم وادراک کی بات ہے ۔ مگر ایک دوسرے لحاظ سے یہ اشیاء انسان کے لیے نہایت سبق آموز ہیں ۔ اے لوگو ! اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اونٹ کی طرح سادگی اختیار کرو اس جیسی محنت کرو اور اپنے اندر جفا کشی پیدا کرو۔ تزول الجبال الراسیات وقلبنا ۔۔۔ علی العھد لا یلوی ولا یتغیر۔۔ پہاڑ اتنے مضبوط ہونے کے باوجود اپنی جگہ سے ٹل سکتے ہیں ۔ مگر ہمارے عہد وپیماں کبھی نہیں ٹوٹ سکتے ۔ کیونکہ یہ پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہیں ۔ لہذا پہاڑوں کی طرح راسخ ہونا چاہیئے ۔ علامہ اقبال مرحوم کہتے ہیں۔ بخود خزیدہ ومحکم چو کو ہساراں زی ۔۔۔ چوخس مزی کہ ہوا تیز وشعلہ بیباک است پہاڑ کی طرح مستقل مزاج بن کر زندگی کذار ، نہ تنکے کی طرح کمزور جسے تیز ہوا اڑا لے جائے یا شعلہ جلا ڈالے ۔ اگر مضبوط اور مستقل مزاج رہوگے اپنے ایمان اور نیکی پر قائم رہوگے تو کامیابی حاصل ہوگی ۔ وگرنہ ڈانواں ڈول انسان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ جو دن میں تین تین عقیدے بدلتا ہے ۔ یہ پہاڑ تمہارے لیے مستقل مزاجی کی علامت ہیں۔ زمین کے متعلق فرمایا کہ دیکھ ! ہم نے کس طرح اسے پھیلا دیا ۔ زمین اس قدر عاجز ہے کہ لوگ اسے ٹھوکریں مارتے ہیں ، اس کو کھودتے ہیں ۔ اس پر چلتے ہیں کاروبار کرتے ہیں ۔ مگر اس میں اس قدر انکسار ہے کہ ہر زحمت برداشت کرتی ہے ۔ مگر کبھی کسی کے خلاف شکایت تک نہیں کرتی ۔ اتنی جسیم ہونے کے باوجود اس قدر منکسر المزاج ہے ۔ لہذا اگر عاجزی اور انکساری سیکھنا ہو تو زمین سے سیکھنا چاہیئے ۔ الغرض قدرت کے یہ دلائل ایک دوسرے زاویہ نگاہ سے بھی نہایت اہم ہیں ۔ کہ انسان کو دنیا کی زندگی میں ان سے کیا سبق حاصل کرنا چاہیئے ۔ سادگی بلند مقصدی مستقل مزاجی اور انکساری وہ زریں اصول زندگی ہیں جو ہمیں ان دلائل قدرت سے حاصل ہوتے ہیں ۔ پچھلی سورة میں بیان ہوچکا ہے قد افلح من تزکی تزکیہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا عقیدہ پاک ہو۔ کفر وشرک کی آمیزش سے بری ہو خوش اخلاقی ہو ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق درست ہو۔ وذکر اسم ربہ کے مطابق انسان اپنے رب کے نام کو زبان بنالے ۔ جو خدا کو یاد کرتا ہے۔ اس کی توجہ خطیرۃ القدس کی طرف رہتی ہے اور جب کوئی آدمی زبان سے سبحان اللہ کہتا ہے ۔ تو اس کا تصور خاص ہوجاتا ہے۔ جب یہ چیزیں ہوں گی تو دنیا میں عدل و انصاف کا دور دورا ہوگا۔ دنیا میں اسلامی معاشرہ قائم ہوگا ۔ حضرت عمربن عبدالعزیز نے جمعہ کے خطبہ میں (اس آیت کو) شامل کرلیا تھا۔ تفسیر مولانا سندھی ان اللہ یامر بالعدل والاحسان ان سورتوں میں مختصر طور پر یہ پروگرام آگیا ہے ۔ اگلی سورتوں میں بھی آرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور بنی نوع انسان کے تعلق کی درستگی فلاح کی ضامن ہے۔ تزکیہ اختیار کرنے کی تلقین سورة مدثر میں بھی کی گئی ۔ گندگی سے پرہیز کی تعلیم والرجز فاھجر میں دی گئی ۔ فرمایا ہر قسم کی گندگی ظاہری باطنی جسمانی روحانی سب سے بچتے رہو۔ خدمت انسانی کا جو پروگرام قرآن پاک نے پیش کیا ہے ۔ اس کو کہاں تلاش کریں نہ انفرادی طور پر ملتا ہے ۔ اور نہ اجتماعی طور پر ۔ انسانیت کی خدمت کا فرض سب سے زیادہ حکومت پر عائد ہوتا ہے۔ مگر حکومتیں کیا کرتی ہیں ۔ ان کے سامنے قرآن پاک کے بلند مقصد والا پروگرام کہاں ہے ۔ ان کی توجہ تو سامان تعیش ۔ سامان خوردو نوش کوٹھی اور بنگلے کی طرف رہتی ہے ۔ قرآن پاک کا پروگرام کس کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دلائل قدرت کے ساتھ سمجھایا ہے کہ تمہارے سامنے سادگی مستقل مزاجی بلند ہمتی اور عاجزی و انکساری کی مثالیں موجود ہیں انہیں دیکھ کر نصیحت پکڑو کہ انسان اور مومن کو کس قسم کا طرز زندگی اختیار کرنا چاہیئے ۔ (افکار کی پاکیزگی) اللہ تعالیٰ نے ہمیں پاکیزگی کی تعلیم دی ہے۔ افکار کی پاکیزگی اس کا ایک اہم جزو ہے آج دنیا گندے افکار سے بھری ہوئی ہے ۔ دہریت فحاشی عریانی اشتراکیت امریکیت اور برطانویت سب گندے افکار ہیں ۔ جو انسان کی روحانیت پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اور اسے اس بلندی سے گرانا چاہتے ہیں جس پر قرآن انہیں پہنچانا چاہتا ہے ۔ کیا سینما دیکھ کر اخلاق سے گرے ہوئے اخبار پڑھ کر برہنہ تصویروں والے رسالے دیکھ کر ریڈیو اور ٹیلیوثرن پر گانے سن کر اور گانے والیاں دیکھ کر کسی کے افکار پاک رہ سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں یہ سب گندگی اور نجاست ہے ۔ اخلاق اور روحانی نجاست ہے۔ (عقیدے کی پاکیزگی) دوسری طرف عقیدے کے معاملے میں دیکھ لیں ۔ ہر طرف شرک بدعت قبر پرستی اور رسوم باطلہ کا دور دورا ہے ۔ یہ سب گندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فاجتنبوا الرجس من الاوثان بت پرستی کی غلاظت سے بچو۔ یہ بت پرستی معنوی گندگی اور نجاست ہے ۔ تم سمجھتے ہو کہ بزرگوں کی تعظیم کر رہے ہو۔ تم تو گندگی میں پھنسے ہوئے ہو۔ مزاروں پر چادریں چڑھاتے ہو ، قبروں کو چومتے ہو ان سے مرادیں مانگتے ہو۔ یہ شرک نجاست ہے۔ پاکیزگی کے سراسر خلاف ہے قبروں پر میلے لگانا انہیں عرس کا نام دینا جھنڈیاں لگانا نعرے بازی کرنا کیا یہی حضور ﷺ کی تعظیم ہے جو تم کر رہے ہو۔ تم تو شب وروز نبی کریم ﷺ کی مخالفت کر رہے ہو ہر بات میں سنت کی مخالفت کرتے ہو۔ حلال و حرام کی تمیز سے بےنیاز ہوگئے ہو۔ سود اور رشوت کھاتے ہو۔ تجارت میں حرام کی کمائی کرتے ہو۔ تمہارے اندر پاکیزگی کیسے آئے گی ۔ اگر پاکیزگی اختیار کرنا چاہتے ہو تو ظاہر و باطن کو پاک کرو۔ مال کو پاک کرو۔ دل کو پاک رکھو اور افکار میں پاکیزگی اختیار کرو۔ (ڈیوٹی کی پابندی ) ڈیوٹی میں کوتاہی آج کل کا معمول بن چکا ہے کسی طرف دیکھ لیں ۔ ہر شعبہ زندگی میں اپنے فرائض سے اغماض پایا جاتا ہے ۔ کوئی شخص اپنی ڈیوٹی پابندی کے ساتھ ادا کرنے پر تیار نہیں پولیس والے ہوں یا فوج والے یا کوئی دوسرے ملازمین فرائض سے غافل ہیں ۔ ان حالات میں پاکیزگی اور استقلال کہاں سے آئے گا۔ اللہ کے کوئی خاص بندے ہی ہیں ۔ جنہیں اس زمانے میں ڈیوٹی کا پاس ہو۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب جہنوں نے پنتالیس 45 برس تک دار العلوم دیوبند میں تعلیم دی ان کی بیوی فوت ہوگئی ۔ عصر کے وقت دفن کر آئے مولانا مغرب کے بعد شمائل شریف کا درس دیتے تھے ۔ کتاب بغل میں لی اور درس گاہ میں پہنچ گئے ۔ لوگوں نے کافی کہا سنا حتی کہ منت خوشامد بھی کی مگر آپ نے فرمایا کہ میں تو اپنی ڈیوٹی ادا کروں گا۔ حدیث کی تعلیم سے زیادہ بڑھ کر کون سا کام ہوسکتا ہے۔ ( حضور ﷺ نصیحت کرنیوالے ہیں ) سورۃ کے آخری حصے میں ارشاد ہوتا ہے ۔ کہ اے نبی (علیہ السلام) فذکر آپ ان لوگوں کو نصیحت کریں کیونکہ انما انت مذکر آپ نصیحت کرنے والے ہیں اور لست علیھم بمصیطر آپ ان کافروں پر داروغہ نہیں ہیں ۔ کہ انہیں پکڑ لائیں اور مسلمان بنالیں ۔ آپ کا یہ کام نہیں ہے ۔ ” علیک الا البلغ آپ کا کام تو اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے ۔ ہاں یہ بات ضرور ہے الا من تولی وکفر جو روگردانی کرے گا ۔ اور کفر کا راستہ اختیار کرے گا ۔ فیعذبہ اللہ العذاب الاکبر اللہ اس کو بڑی سزا دے گا ۔ اور وہ بڑی سزا کیا ہے ۔ اللہ نے پہلی سورة میں بتا دی یصلی النار الکبری جو نصیحت سے اعراض کرے گا ۔ وہ دوزخ کی بڑی آگ میں داخل ہوگا ایسی آگ جو اس دنیا کی آگ سے انہتر 79 گنا تیز ہوگی۔ آپ کا کام نہ سزا دینا ہے ۔ نہ کسی پر زجر کرنا ہے ۔ آپ مذکر ہیں ۔ انہیں سمجھا دیں کہ کوتاہی نہ کریں ۔ کیونکہ ان الینا ایابھم ان لوگوں نے ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا والی اللہ ترجع الامور ہر چیز اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانے والی ہے۔ انسان کو بھی وہیں جانا ہے ۔ پھر جب وہاں پہنچ جائے گا ۔ تو ثم ان علینا حسابھم ان لوگوں کا حساب کتاب لینا بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ ہم خود ان سے پوچھ لیں گے کہ دنیا میں کیا کچھ کر کے آئے ہو۔ اس آیت کی تلاوت پر حضور ﷺ نے یہ دعا لکھائی اللھم حاسبنی حسابا یسیرا ۔ اے اللہ ہم سے آسان حساب لے ۔ آسان حساب کی تفسیر پہلے آچکی ہے ۔ کہ حساب صرف پیش کردیا جائے ۔ حضور ﷺ نے خود فرمایا کہ آسان حساب عرض ہے۔ جس کے ساتھ مناقشہ کیا گیا اور جس سے یہ پوچھ لیا گیا ۔ کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ۔ بس وہ ہلاک ہوگیا ۔ وہ بچ نہیں سکتا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ۔ تم نے فلاں وقت یہ کام کیا بندہ اقرار کرے گا۔ اللہ فرمائے گا ۔ جاؤ یہ آسان حساب ہے۔ سورۃ اعلی کی تلاوت میں اگر سبح اسم ربک الاعلی پڑھ کر وقف کیا جائے تو سبحان ربی الاعلی کہنا چاہیئے ۔ خواہ نماز پڑھ رہا ہو یا نماز سے باہر ہو۔ شاہ عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ نماز میں یہ تسبیح آہستہ کہنی چاہیئے ۔ اور اگر وقف نہیں کیا مسلسل پڑھ لیا تو یہ تسبیح پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ اسی طرح اس سورة مبارکہ میں جب ان علینا حسابھم تلاوت کیا جائے خواہ نماز میں ہو یا باہر ہو اللھم حاسبنی حسابا یسیرا آہستہ آواز میں کہنا چاہیئے ۔
Top