Tafseer-e-Majidi - Al-Ghaafir : 50
وَ اِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ۠   ۧ
وَ : اور اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف فَارْغَبْ : رغبت کریں
پیروی اس کی کرو جو کچھ تم پر تمہارے پر ورگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اللہ کو چھوڑ کر (دوسرے) رفیقوں کی پیروی مت کرو،3 ۔ کم ہی تم لوگ نصیحت قبول کرتے ہو،4 ۔
3 ۔ یہ رفیق وہیں ہیں جنہیں دوسری جگہ قرآن میں شیاطین الجن والانس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ای یضلونکم من الجن والانس (بیضاوی) انزل الیکم من ربکم “۔ یعنی جو کچھ تمہارے اوپر تمہارے پیغمبر کے واسطے سے نازل ہوا ہے۔ ابھی انزل الیک میں خطاب پیغمبر ﷺ سے براہ راست تھا، اب خطاب مومنین سے ہے جن کا ذکر (آیت) ” ذکری لل مومنین “ کے تحت میں ابھی آچکا ہے۔ اور (آیت) ” انزل الیکم “ سے مراد نزول بواسطہ پیغمبر ہے۔ دونوں طرز تعبیر اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ (آیت) ” ماانزل الیکم “۔ کے عموم میں محققین نے قرآن کے ساتھ سنت کو بھی بھی شامل کیا ہے کہ وہ بھی وحی خفی کی ایک صورت ہے، یعنی الکتاب والسنۃ (قرطبی) یتناول الکتاب والسنۃ (کبیر) ای القران والسنۃ (مدارک) لیکن خود خبر واحد کے قبول کا معیار یہی ہے کہ وہ کسی نص قرآنی کے مخالف نہ ہو اور حنفیہ نے اس پر خاص طور سے زور دیا ہے۔ دلیل علی وجوب اتباع القرآن فی کل حال وانہ غیر جائز الاعتراض علی حکمہ باخبار والاحاد لان الامر باتباعہ قدثبت بنص التنزیل و قبول خبر واحد غیر ثابت بنص التنزیل وھذا یدل علی صحۃ قول اصحابنا فی ان قول من خالف القران فی اخبار الاحاد غیر مقبول (جصاص) (آیت) ” من دونہ “۔ میں ضمیر ربکم کی طرف ہے یعنی اللہ کے ساتھ ساتھ دوسروں کو اپنا مطاع مت قرار دو ۔ والھاء تعود علی الرب سبحانہ والمعنی لاتعبدوا معہ غیرہ (قرطبی) ای من دون اللہ (مدارک) آیت سے صاف ظاہر ہے نہ نص کے ہوتے ہوئے رائے کی پیروی ممنوع ہے۔ ودلت الایۃ علی ترک اتباع الاراء مع وجود النص (قرطبی) 4 ۔ چناچہ گمراہی اور گمراہوں دونوں کی کثرت ظاہر ہے۔ (آیت) ” ماتذکرون “۔ میں ما زایدہ قلت تذکر کی تاکید کے لیے ہے۔ اصل ترکیب کلام یوں ہے۔ تذکرون تذکرا قلیلا۔ مامزیدۃ لتوکید القلۃ (کشاف، بیضاوی)
Top