Mufradat-ul-Quran - Al-An'aam : 153
وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ١ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاَنَّ : اور یہ کہ ھٰذَا : یہ صِرَاطِيْ : یہ راستہ مُسْتَقِيْمًا : سیدھا فَاتَّبِعُوْهُ : پس اس پر چلو وَلَا تَتَّبِعُوا : اور نہ چلو السُّبُلَ : راستے فَتَفَرَّقَ : پس جدا کردیں بِكُمْ : تمہیں عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ بِهٖ : حکم دیا اس کا لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری اختیار کرو
اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے تو تم اسی پر چلنا اور راستوں پر نہ چلنا کہ (ان پر چل کر) خدا کے راستے سے الگ ہوجاؤ گے۔ ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۝ 0 ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ۝ 0 ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝ 153 هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سداھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ تَّفْرِيقُ ( فرقان) أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو : يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه/ 94] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة/ 285] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة/ 136] ، إنما جاز أن يجعل التّفریق منسوبا إلى (أحد) من حيث إنّ لفظ (أحد) يفيد في النّفي، وقال : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام/ 159] ، وقرئ : فَارَقُوا «1» والفِراقُ والْمُفَارَقَةُ تکون بالأبدان أكثر . قال : هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف/ 78] ، وقوله : وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة/ 28] ، أي : غلب علی قلبه أنه حين مفارقته الدّنيا بالموت، وقوله : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء/ 150] ، أي : يظهرون الإيمان بالله ويکفرون بالرّسل خلاف ما أمرهم اللہ به . وقوله : وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء/ 152] ، أي : آمنوا برسل اللہ جمیعا، والفُرْقَانُ أبلغ من الفرق، لأنه يستعمل في الفرق بين الحقّ والباطل، وتقدیره کتقدیر : رجل قنعان : يقنع به في الحکم، وهو اسم لا مصدر فيما قيل، والفرق يستعمل في ذلک وفي غيره، وقوله : يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] ، أي : الیوم الذي يفرق فيه بين الحقّ والباطل، والحجّة والشّبهة، وقوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال/ 29] ، أي : نورا وتوفیقا علی قلوبکم يفرق به بين الحق والباطل «1» ، فکان الفرقان هاهنا کالسّكينة والرّوح في غيره، وقوله : وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] ، قيل : أريد به يوم بدر «2» ، فإنّه أوّل يوم فُرِقَ فيه بين الحقّ والباطل، والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة/ 53] ، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان/ 1] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة/ 185] . والفَرَقُ : تَفَرُّقُ القلب من الخوف، واستعمال الفرق فيه کاستعمال الصّدع والشّقّ فيه . قال تعالی: وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة/ 56] ، ويقال : رجل فَرُوقٌ وفَرُوقَةٌ ، وامرأة كذلك، ومنه قيل للناقة التي تذهب في الأرض نادّة من وجع المخاض : فَارِقٌ وفَارِقَةٌ «3» ، وبها شبّه السّحابة المنفردة فقیل : فَارِقٌ ، والْأَفْرَقُ من الدّيك : ما عُرْفُهُ مَفْرُوقٌ ، ومن الخیل : ما أحد وركيه أرفع من الآخر، والفَرِيقَةُ : تمر يطبخ بحلبة، والفَرُوقَةُ : شحم الکليتين . التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه/ 94] کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ۔ اور آیت کریمہ : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة/ 285] ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔ نیز آیت : ۔ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة/ 136] ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے میں احد کا لفظ چونکہ حرف نفی کے تحت واقع ہونے کی وجہ سے جمع کے معنی میں ہے لہذا تفریق کی نسبت اس کی طرف جائز ہے اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام/ 159] جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے رستے نکالے ۔ میں ایک قرات فارقوا ہے اور فرق ومفارقۃ کا لفظ عام طور پر اجسام کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف/ 78] اب مجھ میں اور تجھ میں علیحد گی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة/ 28] اس ( جان بلب ) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب دنیا سے مفارقت کا وقت قریب آپہنچا ہے اور آیت کریمہ : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء/ 150] اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں مگر حکم الہی کی مخالفت کر کے اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء/ 152] اور ان میں کسی میں فرق نہ کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ الفرقان یہ فرق سے ابلغ ہے کیونکہ یہ حق اور باطل کو الگ الگ کردینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ رجل وقنعان ( یعنی وہ آدمی جس کے حکم پر قناعت کی جائے ) کی طرح اسم صفت ہے مصدر نہیں ہے اور فرق کا لفظ عام ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور دوسری چیزوں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال/ 29] مومنوں اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دیگا ( یعنی تم کو ممتاز کر دے گا ۔ میں فر قان سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے اندر نور اور توفیق پیدا کر دیگا جس کے ذریعہ تم حق و باطل میں امتیاز کرسکو گے تو گویا یہاں فرقان کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ سکینۃ اور روح کے الفاظ ہیں اور قرآن نے یوم الفرقان اس دن کو کہا ہے جس روز کہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے مابین فرق اور امتیاز ظاہر ہوا چناچہ آیت : ۔ وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] اور اس ( نصرت ) پر ایمان رکھتے ہو جو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن نازل فرمائی ۔ میں یوم الفرقان سے جنگ بدر کا دن مراد ہے کیونکہ وہ ( تاریخ اسلام میں ) پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا کھلا امتیاز ہوگیا تھا ۔ اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون هْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة/ 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی ۔ ،۔۔ عطا کی ۔ تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان/ 1] وہ خدائے عزوجل بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو معجزے دیئے روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے الفرق کے معنی خوف کی وجہ سے دل کے پرا گندہ ہوجانے کے ہیں اور دل کے متعلق اس کا استعمال ایسے ہی ہے جس طرح کہ صدع وشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة/ 56] اصل یہ ہے کہ یہ ڈر پوک لوگ ہے ۔ اور فروق وفروقۃ کے معنی ڈرپوک مرد یا عورت کے ہیں اور اسی سے اس اونٹنی کو جو درندہ کی وجہ سے بدک کر دور بھاگ جائے ۔ فارق یا فارقۃ کہا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر اس بدلی کو بھی فارق کہا جاتا ہے جو دوسری بد لیوں سے علیحد ہ ہو ۔ وہ مرغ جس کی کلفی شاخ در شاخ ہو ( 2 ) وہ گھوڑا جس کا ایک سرین دوسرے سے اونچا ہو ۔ الفریقۃ دودھ میں پکائی ہوئی کھجور ۔ الفریقہ گردوں کی چربی ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔
Top