Mufradat-ul-Quran - Al-Ghaashiya : 25
اِنَّ اِلَیْنَاۤ اِیَابَهُمْۙ
اِنَّ : بیشک اِلَيْنَآ : ہماری طرف اِيَابَهُمْ : ان کا لوٹنا
بیشک ان کو ہمارے پاس لوٹ کر آنا ہے
اِنَّ اِلَيْنَآ اِيَابَہُمْ۝ 25 ۙ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں أوب الأَوْبُ : ضرب من الرجوع، وذلک أنّ الأوب لا يقال إلا في الحیوان الذي له إرادة، والرجوع يقال فيه وفي غيره، يقال : آب أَوْباً وإِيَاباً ومَآباً. قال اللہ تعالی: إِنَّ إِلَيْنا إِيابَهُمْ [ الغاشية/ 25] وقال : فَمَنْ شاءَ اتَّخَذَ إِلى رَبِّهِ مَآباً [ النبأ/ 39] ، والمآب : المصدر منه واسم الزمان والمکان . قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ [ آل عمران/ 14] ، ( او ب ) الاوب ۔ گو اس کے معنی رجوع ہونا کے ہیں لیکن رجوع کا لفظ عام ہے جو حیوان اور غیر حیوان دونوں کے لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ مگر اواب کا لفظ خاص کر حیوان کے ارادہ لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ اب اوبا ویابا ومآبا وہ لوٹ آیا قرآن میں ہے ۔ { إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ } ( سورة الغاشية 25) بیشک ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے ۔ { فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ مَآبًا } ( سورة النبأ 39) اپس جو شخص چاہے اپنے پروردگار کے پاس ٹھکانا بنائے ۔ المآب۔ یہ مصدر ( میمی ) ہے اور اسم زمان اور مکان بھی ۔ قرآن میں ہے :۔ { وَاللهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ } ( سورة آل عمران 14) اور اللہ کے پاس اچھا ٹھکانا ہے ۔
Top