Ruh-ul-Quran - Al-Ghaashiya : 25
اِنَّ اِلَیْنَاۤ اِیَابَهُمْۙ
اِنَّ : بیشک اِلَيْنَآ : ہماری طرف اِيَابَهُمْ : ان کا لوٹنا
بیشک ہماری ہی طرف ہے ان کا پلٹنا
اِنَّ اِلَیْنَـآ اِیَابَھُمْ ۔ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَھُمْ ۔ (الغاشیۃ : 25، 26) (بیشک ہماری ہی طرف ہے ان کا پلٹنا۔ پھر ہمارے ہی ذمہ ہے ان سے حساب لینا۔ ) ان دونوں آیتوں میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ پہلی آیت میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ آج جو لوگ جہنم کے ذکر سے بھی بدمزہ ہوتے ہیں اور انھیں کبھی بھول کر بھی احساس نہیں ہوتا کہ کبھی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری دینے کا وقت بھی آئے گا۔ اور ان کی زندگی کے رویئے کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اپنے یہاں ہمیشہ رہنے کا یقین ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے یہ بچ نہیں سکتے۔ اور مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ہی کی طرف واپسی ہے۔ اس لیے یہ آج کیسی ہی سرکشی کا رویہ اختیار کریں۔ انھیں بہرحال موت کے شکنجے میں پھنسنا ہے اور پھر ان کی روح اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق وہیں جائے گی جہاں اس کا جانا مقدر کردیا گیا ہے۔ اور دوسری آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اپنے اوپر یہ بات لازم کرلی ہے کہ جب ہم سب لوگوں کو دوبارہ اٹھائیں گے تو سب سے حساب لیں گے۔ ان کے اعمال کے مطابق ان کو جزاء و سزا دیں گے۔ اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ دنیا ایک بازیچہ اطفال اور ایک بےمقصد کارخانہ ہے۔ اور محض اس کے خالق نے بچوں کے گھروندے بنانے کی طرح محض تفریح کی خاطر اسے پیدا کیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک ہے کہ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی ہو، یا اس سے کسی عبث کام کا صدور ہو۔ اس لیے پروردگار نے اپنے اوپر واجب کرلیا ہے کہ میں اپنے بندوں میں سے ہر ایک کا ایک نہ ایک دن حساب لوں گا۔ اور یہی وہ حساب کا دن ہے جسے یوم الدین اور یوم آخر کہا گیا ہے۔
Top