Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 157
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ١٘ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ١ۙ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَّبِعُوْنَ : پیروی کرتے ہیں الرَّسُوْلَ : رسول النَّبِيَّ : نبی الْاُمِّيَّ : امی الَّذِيْ : وہ جو۔ جس يَجِدُوْنَهٗ : اسے پاتے ہیں مَكْتُوْبًا : لکھا ہوا عِنْدَهُمْ : اپنے پاس فِي : میں التَّوْرٰىةِ : توریت وَالْاِنْجِيْلِ : اور انجیل يَاْمُرُهُمْ : وہ حکم دیتا ہے بِالْمَعْرُوْفِ : بھلائی وَيَنْهٰىهُمْ : اور روکتا ہے انہیں عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برائی وَيُحِلُّ : اور حلال کرتا ہے لَهُمُ : ان کے لیے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَيُحَرِّمُ : اور حرام کرتا ہے عَلَيْهِمُ : ان پر الْخَبٰٓئِثَ : ناپاک چیزیں وَيَضَعُ : اور اتارتا ہے عَنْهُمْ : ان کے بوجھ اِصْرَهُمْ : ان کے بوجھ وَالْاَغْلٰلَ : اور طوق الَّتِيْ : جو كَانَتْ : تھے عَلَيْهِمْ : ان پر فَالَّذِيْنَ : پس جو لوگ اٰمَنُوْا بِهٖ : ایمان لائے اس پر وَعَزَّرُوْهُ : اور اس کی رفاقت (حمایت کی) وَنَصَرُوْهُ : اور اس کی مدد کی وَاتَّبَعُوا : اور پیروی کی النُّوْرَ : نور الَّذِيْٓ : جو اُنْزِلَ : اتارا گیا مَعَهٗٓ : اس کے ساتھ اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
وہ لوگ جو پیروی کرتے ہیں اس رسول کی جو نبی امی ہے کہ جس کو پاتے ہیں لکھا ہوا اپنے پاس توریت اور انجیل میں وہ حکم کرتا ہے ان کو نیک کام کا، منع کرتا ہے برے کام سے، اور حلال کرتا ہے ان کے لئے سب پاک چیزیں اور حرام کرتا ہے ان پر ناپاک چیزیں اور اتارتا ہے ان پر سے ان کے بوجھ اور وہ قیدیں جو ان پر تھیں، سو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی رفاقت کی اور اس کی مدد کی اور تابع ہوئے اس نور کے جو اس کے ساتھ اترا ہے وہی لوگ پہنچے اپنی مراد کو۔
خلاصہ تفسیر
جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں (جن کی صفت یہ بھی ہے کہ) وہ ان کو نیک کاموں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال بتلاتے ہیں (گو وہ پہلی شرائع میں حرام تھیں) اور گندی چیزوں کو (بدستور) ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو (پہلے شرائع میں) بوجھ اور طوق (لدے ہوئے) تھے (یعنی سخت اور شدید احکام جن کا ان کو پابند کیا ہوا تھا) ان کو دور کرتے ہیں (یعنی ایسے سخت احکام ان کی شریعت میں منسوخ ہوجاتے ہیں) سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے (یعنی قرآن) ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں (کہ ابدی عذاب سے نجات پائیں گے)

معارف و مسائل
خاتم النبین محمد مصطفیٰ ﷺ اور ان کی امت کے مخصوص صفات و فضائل
پچھلی آیت میں حضرت موسیٰ ؑ کی دعا کے جو اب میں ارشاد ہوا تھا کہ یوں تو اللہ کی رحمت ہر چیز ہر شخص کے لئے وسیع ہے آپ کی موجودہ امت بھی اس سے محروم نہیں، لیکن مکمل نعمت و رحمت کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو ایمان وتقوی اور زکوة وغیرہ کی مخصوص شرائط کو پورا کریں۔
اس آیت میں ان لوگوں کا پتہ دیا گیا ہے کہ ان شرائط پر پورے اترنے والے کون لوگ ہوں گے اور بتلایا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو رسول امی ﷺ کا اتباع کریں، اس ضمن میں آنحضرت ﷺ کے چند خصوصی فضائل و کمالات اور علامات کا بھی ذکر فرما کر آپ پر صرف ایمان لانے کا نہیں بلکہ آپ کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ فلاح آخرت کے لئے ایمان کے ساتھ اتباع شریعت وسنت ضروری ہے۔
الرسول النبی الامی اس جگہ رسول اور نبی کے دو لقبوں کے ساتھ آپ کی ایک تیسری صفت امی بھی بیان کی گئی ہے، امی کے لفظی معنی ان پڑھ کے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو، عام قوم عرب کو قرآن میں ا میین اسی لئے کہا گیا ہے کہ ان میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا اور امی ہونا کسی انسان کے لئے کوئی صفت مدح نہیں بلکہ ایک عیب سمجھا جاتا ہے، مگر رسول کریم ﷺ کے علوم و معارف اور خصوصیات اور حالات و کمالات کے ساتھ امی ہونا آپ کے لئے بڑی صفت کمال بن گئی ہے، کیونکہ اگر علمی عملی اخلاقی کمالات کسی لکھے پڑھے آدمی سے ظاہر ہوں تو وہ اس کی تعلیم کا نتیجہ ہوتے ہیں لیکن ایک امی محض سے ایسے بیش بہا علوم اور بےنظیر حقائق و معارف کا صدور اس کا ایک ایسا کھلا ہوا معجزہ ہے جس سے کوئی پرلے درجے کا معاند و مخالف بھی انکار نہیں کرسکتا، خصوصا جبکہ آپ کی عمر شریف کے چالیس سال مکہ مکرمہ میں سب کے سامنے اس طرح گزرے کہ کسی سے نہ ایک حرف پڑھا نہ سیکھا ٹھیک چالیس سال کی عمر ہونے پر یکایک آپ کی زبان مبارک پر وہ کلام جاری ہوا جس کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی مثال لانے سے ساری دنیا عاجز ہوگئی، تو ان حالات میں آپ کا امی ہونا آپ کے رسول من جانب اللہ ہونے اور قرآن کے کلام الہی ہونے پر ایک بہت بڑی شہادت ہے، اس لئے امی ہونا اگرچہ دوسروں کے لئے کوئی صفت مدح نہیں مگر رسول اللہ ﷺ کے لئے بہت بڑی صفت مدح و کمال ہے، جیسے متکبر کا لفظ عام انسانوں کے لئے صفت مدح نہیں بلکہ عیب ہے مگر حق تعالیٰ شانہ کے لئے خصوصیت سے صفت مدح ہے۔
آیت میں چوتھی صفت رسول کریم ﷺ کی یہ بیان فرمائی کہ وہ لوگ آپ کو تورات و انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے، یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کی صفات و حالات کو لکھا ہوا پائیں گے بلکہ يَجِدُوْنَهٗ کا لفظ اختیار کیا گیا جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کو لکھا ہوا پائیں گے، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ تورات و انجیل میں رسول کریم ﷺ کی صفات ایسی تفصیل و وضاحت کے ساتھ ہوں گی کہ ان کو دیکھنا ایسا ہوگا جیسے خود آنحضرت ﷺ کو دیکھ لیا، اور تورات و انجیل کی تخصیص یہاں اس لئے کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل انہیں دو کتابوں کے قائل ہیں ورنہ آنحضرت ﷺ کے حالات وصفات کا ذکر زبور میں بھی موجود ہے۔
آیت مذکورہ کے اصل مخاطب موسیٰ ؑ ہیں جس میں ان کو بتلایا گیا ہے کہ دنیا و آخرت کی مکمل فلاح آپ کی امت کے ان لوگوں کا حصہ ہے جو نبی امی خاتم الانبیاء علیہ الصلوة والسلام کا اتباع کریں جن کا ذکر وہ تورات و انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے۔
تورات و انجیل میں رسول اللہ ﷺ کی صفات اور علامات
موجودہ تورات و انجیل بیشمار تحریفات اور تغیر و تبدل ہوجانے کے سبب قابل اعتماد نہیں رہی، اس کے باوجود اب بھی ان میں ایسے کلمات موجود ہیں جو رسول کریم ﷺ کا پتہ دیتے ہیں، اور اتنی بات بالکل واضح ہے کہ جب قرآن کریم نے یہ اعلان کیا کہ خاتم الانبیاء کی صفات و علامات تورات و انجیل میں لکھی ہوئی ہیں، اگر یہ بات واقعہ کے خلاف ہوتی تو اس زمانہ کے یہود و نصارٰی کے لئے تو اسلام کے خلاف ایک بہت بڑا ہتھیار ہاتھ آجاتا کہ اس کے ذریعہ قرآن کی تکذیب کرسکتے تھے کہ تورات و انجیل میں کہیں نبی امی کے حالات کا ذکر نہیں، لیکن اس وقت کے یہود و نصارٰی نے اس کے خلاف کوئی اعلان نہیں کیا، یہ خود اس پر شاہد ہے کہ اس وقت تورات و انجیل میں رسول کریم ﷺ کی صفات و علامات واضح طور پر موجود تھیں جس نے ان لوگوں کی زبانوں پر مہر لگادی۔
خاتم الانبیاء ﷺ کی جو صفات تورات و انجیل میں لکھی تھیں ان کا کچھ بیان تو قرآن کریم میں بحوالہ تورات و انجیل آیا ہے اور کچھ روایات حدیث میں ان حضرات سے منقول ہے جنہوں نے اصلی تورات و انجیل کو دیکھا اور ان میں آنحضرت ﷺ کا ذکر مبارک پڑھ کر ہی وہ مسلمان ہوئے۔
بیہقی نے دلائل النبوة میں نقل کیا ہے کہ حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا وہ اتفاقا بیمار ہوگیا تو آپ اس کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ اس کا باپ اس کے سرہانے کھڑا ہوا تورات پڑھ رہا ہے، آنحضرت ﷺ نے اس سے کہا کہ اے یہودی میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ ؑ پر تورات نازل فرمائی ہے کہ کیا تو تورات میں میرے حالات اور صفات اور میرے ظہور کا بیان پاتا ہے ؟ اس نے انکار کیا تو بیٹا بولا یا رسول اللہ یہ غلط کہتا ہے، تورات میں ہم آپ کا ذکر اور آپ کی صفات پاتے ہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں آنحضرت اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اب یہ مسلمان ہے انتقال کے بعد اس کی تجہیز وتکفین مسلمان کریں، باپ کے حوالہ نہ کریں (مظہری) اور حضرت علی مرتضی فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے ذمہ ایک یہودی کا قرض تھا، اس نے آکر اپنا قرض مانگا آپ نے فرمایا کہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں کچھ مہلت دو ، یہودی نے شدت کے ساتھ مطالبہ کیا اور کہا کہ میں آپ کو اس وقت تک نہ چھوڑوں گا جب تک میرا قرض ادا نہ کردو، آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ تمہیں اختیار ہے میں تمہارے پاس بیٹھ جاؤں گا، چناچہ رسول کریم ﷺ اسی جگہ بیٹھ گئے اور ظہر، مغرب عشاء کی اور پھر اگلے روز صبح کی نماز یہیں ادا فرمائی، صحابہ کرام یہ ماجرا دیکھ کر رنجیدہ اور غضبناک ہو رہے تھے اور آہستہ آہستہ یہودی کو ڈرا دھمکا کر یہ چاہتے تھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ دے، رسول اللہ ﷺ نے اس کو تاڑ لیا اور صحابہ سے پوچھا یہ کیا کرتے ہو ؟ تب انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ہم اس کو کیسے برداشت کریں کہ ایک یہودی آپ کو قید کرے، آپ نے فرمایا کہ ”مجھے میرے رب نے منع فرمایا ہے کہ کسی معاہد وغیرہ پر ظلم کروں، یہودی یہ سب ماجرا دیکھ اور سن رہا تھا۔ صبح ہوتے ہی یہودی نے کہا اشھد ان لآ الہ الا اللہ واشھد انک رسول اللہ، اس طرح مشرف باسلام ہو کر اس نے کہا کہ یا رسول اللہ میں نے اپنا آدھا مال اللہ کے راستہ میں دے دیا، اور قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ میں نے اس وقت جو کچھ کیا اس کا مقصد صرف یہ امتحان کرنا تھا کہ تورات میں جو آپ کی صفات بتلائی گئی ہیں وہ آپ میں صحیح طور پر موجود ہیں یا نہیں، میں نے تورات میں آپ کے متعلق یہ الفاظ پڑھے ہیںمحمد بن عبدللہ، ان کی ولادت مکہ میں ہوگی اور) ہجرت طیبہ کی طرف اور ملک ان کا شام ہوگا، نہ وہ سخت مزاج ہوں گے نہ سخت بات کرنے والے نہ بازاروں میں شور کرنے والے فحش اور بےحیائی سے دور ہوں گے۔
اب میں نے ان تمام صفات کا امتحان کرکے آپ میں صحیح پایا، اس لئے شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ میرا آدھا مال ہے آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں خرچ فرمائیں، اور یہ یہودی بہت مالدار تھا، آدھا مال بھی ایک بڑی دولت تھی۔ اس روایت کو تفسیر مظہری میں بحوالہ دلائل النبوة بیہقی نقل فرمایا ہے۔
اور امام بغوی نے اپنی سند کے ساتھ کعب احبار سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ تورات میں آنحضرت ﷺ کے متعلق یہ لکھا ہوا ہے کہ محمد اللہ کے رسول اور منتخب بندے ہیں، نہ سخت مزاج ہیں نہ بیہودہ گو، نہ بازاروں میں شور کرنے والے، بدی کا بدلہ بدی سے نہیں دیتے بلکہ معاف فرما دیتے ہیں اور درگزر کرتے ہیں، ولادت آپ کی مکہ میں اور ہجرت طیبہ میں ہوگی، ملک آپ کا شام ہوگا اور امت آپ کی حمادین ہوگی، یعنی راحت وکلفت دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد وشکر ادا کرے گی، ہر بلندی پر چڑھنے کے وقت وہ تکبیر کہا کرے گی، وہ آفتاب کے سایوں پر نظر رکھے گی تاکہ اس کے ذریعہ اوقات کا پتہ لگا کر نمازیں اپنے اپنے وقت میں پڑھا کرے) وہ اپنے نچلے بدن پر تہبند استعمال کریں گے اور اپنے ہاتھ پاؤں کو وضو کے ذریعہ پاک صاف رکھیں گے) ان کا اذان دینے والا فضا میں آواز بلند کرے گا، جہاد میں ان کی صفیں ایسی ہوں گی جیسے نماز جماعت میں، رات کو ان کی تلاوت اور ذکر کی آوازیں اس طرح گونجیں گی جیسے شہد کی مکھیوں کا شور ہوتا ہے“ (مظہری)
ابن سعد اور ابن عساکر نے حضرت سہل مولی خیثمہ سے سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ حضرت سہل نے فرمایا کہ میں نے خود انجیل میں محمد مصطفیٰ ﷺ کی یہ صفات پڑھی ہیں کہ ”وہ نہ پست قد ہوں گے نہ بہت دراز قد، سفید رنگ دو زلفوں والے ہوں گے ان کے دونوں شانوں کے درمیان ایک مہر نبوت ہوگی، صدقہ قبول نہ کریں گے، حمار اور اونٹ پر سوار ہوں گے، بکریوں کا دودھ خود دوہ لیا کریں گے پیوند زدہ کرتہ استعمال فرماویں گے اور جو ایسا کرتا ہے وہ تکبر سے بری ہوتا ہے، وہ اسماعیل ؑ کی ذریت میں ہوں گے، ان کا نام احمد ہوگا۔“
اور ابن سعد نے طبقات میں، دارمی نے اپنے مسند میں، بیہقی نے دلائل نبوت میں حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت نقل کی ہے، جو یہود کے سب سے بڑے عالم اور تورات کے ماہر مشہور تھے، انہوں نے فرمایا کہ تورات میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ الفاظ مذکور ہیں، اے نبی ! ہم نے آپ کو بھیجا ہے سب امتوں پر گواہ بنا کر اور نیک عمل کرنے والوں کو بشارت دینے والا برے اعمال والوں کو ڈرانے والا بنا کر اور امیین یعنی عرب کی حفاظت کرنے والا بنا کر، آپ میرے بندے اور رسول ہیں، میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے، نہ آپ سخت مزاج ہیں نہ جھگڑالو اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف کردیتے ہیں اور درگزر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اس وقت تک وفات نہ دیں گے جب تک ان کے ذریعہ ٹیڑھی قوم کو سیدھا نہ کردیں یہاں تک کہ وہ لآ الہ الا اللہ کے قائل ہوجائیں اور اندھی آنکھوں کو کھول دیں اور بہرے کانوں کو سننے کے قابل بنادیں اور بندھے ہوئے دلوں کو کھول دیں“
اس جیسی ایک روایت بخاری میں بروایت عبداللہ بن عمرو بن عاص بھی مذکور ہے۔
اور کتب سابقہ کے بڑے ماہر عالم حضرت وہب بن منبہ سے بیہقی نے دلائل النبوة میں نقل کیا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نے زبور میں حضرت داؤد ؑ کی طرف یہ وحی فرمائی کہ اے داؤد ! آپ کے بعد ایک نبی آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا، میں ان پر کبھی ناراض نہ ہوں گا اور وہ کبھی میری نافرمانی نہ کریں گے اور میں نے ان کے لئے سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کردی ہیں، ان کی امت امت مرحومہ ہے، میں نے ان کو وہ نوافل دیئے ہیں جو انبیاء کو عطا کی تھیں اور ان پر وہ فرائض عائد کئے ہیں جو پچھلے انبیاء (علیہم السلام) پر لازم کئے گئے تھے یہاں تک کہ وہ محشر میں میرے سامنے اس حالت میں آئیں گے کہ ان کا نور انبیاء علہیم السلام کے نور کی مانند ہوگا، اے داؤد میں نے محمد اور ان کی امت کو تمام امتوں پر فضیلت دی ہے، میں نے ان کو چھ چیزیں خصوصی طور پر عطا کی ہیں جو دوسری امتوں کو نہیں دی گئیں۔ اول یہ کہ خطا و نسیان پر ان کو عذاب نہ ہوگا، جو گناہ ان سے بغیر قصد کے صادر ہوجائے اگر وہ اس کی مغفرت مجھ سے طلب کریں تو میں معاف کردوں گا، اور جو مال وہ اللہ کی راہ میں بطیب خاطر خرچ کریں گے تو میں دنیا ہی میں ان کو اس سے بہت زیادہ دے دوں گا، اور جب ان پر کوئی مصیبت پڑے اور وہ انا للہ وانا الیہ رجعون کہیں تو میں ان پر اس مصیبت کو صلوة و رحمت اور جنت کی طرف ہدایت بنادوں گا، وہ جو دعا کریں گے میں قبول کروں گا کبھی اس طرح کہ جو مانگا ہے وہی دے دوں اور کبھی اس طرح کہ اس دعا کو ان کی آخرت کا سامان بنا دوں۔ (روح المعانی)
سینکڑوں میں سے یہ چند روایات تورات، انجیل، زبور کے حوالہ سے نقل کی گئی ہیں پوری روایات کو محدثین نے مستقل کتابوں میں جمع کیا ہے۔
تورات و انجیل میں خاتم الانبیاء ﷺ اور آپ کی امت مرحومہ کے خاص فضائل وصفات اور علامات کی تفصیل پر علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں، اس آخری دور میں حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب اظہار الحق میں اس کو بڑے شرح و بسط اور تفصیل و تحقیق کے ساتھ لکھا ہے، اس میں موجودہ زمانے کی تورات و انجیل جس میں بےانتہا تحریفات ہوچکی ہیں ان میں بھی بہت سی صفات و فضائل کا ذکر موجود ہونا ثابت کیا ہے، اس کا عربی سے اردو میں ترجمہ حال میں شائع ہوچکا ہے، قابل دید ہے۔
سابقہ آیت میں آنحضرت ﷺ کی ان صفات و علامات کا تفصیلی بیان تھا جو تورات و انجیل اور زبور میں لکھی ہوئی تھیں، اس میں آحضرت ﷺ کی کچھ مزید صفات بھی مذکور ہیں۔
جن میں پہلی صفت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، معروف“ کے لفظی معنی جانا پہچانا ہوا، اور منکر کے لغوی معنی اوپرا، اجنبی جو پہچانا نہ جائے، اس جگہ معروف سے وہ نیک کام مراد ہیں جو شریعت اسلام میں جانے پہچانے ہوئے ہیں اور منکر سے وہ برے کام جو دین و شریعت سے اجنبی ہیں۔
اس جگہ اچھے کاموں کو معروف کے لفظ سے اور برے کاموں کو منکر کے لفظ سے تعبیر کرنے میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ دین میں نیک کام صرف اس کو سمجھا جائے گا جو قرن اول کے مسلمانوں میں رائج ہوا اور جانا پہچانا گیا اور جو ایسا نہ ہو وہ منکر کہلائے گا، اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ وتابعین نے جس کام کو نیک نہیں سمجھا وہ خواہ کتنا ہی بھلا معلوم ہو ازروئے شریعت وہ بھلا نہیں، احادیث صحیحہ میں اسی لئے ان کاموں کو جن کی تعلیم آنحضرت ﷺ اور صحابہ وتابعین کی طرف سے نہیں پائی جاتی ان کو محدثات الامور اور بدعت فرما کر گمراہی قرار دیا ہے، معنی آیت کے اس جملہ کے یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ لوگوں کو نیک کاموں کا حکم کریں گے اور برے کاموں سے منع فرمادیں گے۔
یہ صفت اگرچہ تمام انبیاء (علیہم السلام) میں عام ہے اور ہونا ہی چاہئے کیونکہ ہر نبی اور رسول اسی کام کے لئے بھیجے جاتے ہیں کہ لوگوں کو نیک کاموں کی طرف ہدایت کریں اور برے کاموں سے منع کریں، لیکن اس جگہ رسول کریم ﷺ کی خصوصیات کے موقع پر اس کا بیان کرنا اس کی خبر دیتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اس صفت میں دوسرے انبیاء (علیہم السلام) سے کوئی خاص امتیاز اور خصوصیت حاصل ہے اور وہ امتیاز کئی وجہ سے ہے، اول اس کام کا خاص سلیقہ کہ ہر طبقہ کے لوگوں کو ان کے مناسب حال طریق سے فہمائش کرنا جس سے بات ان کے دل میں اتر جائے اور بھاری نہ معلوم ہو، رسول کریم ﷺ کی تعلیمات میں غور کیا جائے تو اس کا مشاہدہ ہوگا کہ آپ کو حق تعالیٰ نے اس میں خصوصی اور امتیازی سلیقہ عطا فرمایا تھا، عرب کے بدوی جو اونٹ اور بکری چرانے کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے ان سے ان کے انداز فہم پر گفتگو فرماتے اور دقیق علمی مضامین کو ایسے سادہ الفاظ میں سمجھا دیتے تھے کہ ان پڑھ لوگوں کی بھی سمجھ میں آجائے اور قیصر و کسری اور دوسرے ملوک عجم اور ان کے بیھجے ہوئے ذی علم و فہم سفراء سے ان کے انداز کے مطابق گفتگو ہوتی تھی اور بلا استثناء سب ہی اس گفتگو سے متاثر ہوتے تھے، دوسرے آپ کی اور آپ کے کلام کی خداداد مقبولیت اور دلوں میں تاثیر بھی ایک معجزانہ انداز رکھتی ہے بڑے سے بڑا دشمن بھی جب آپ کا کلام سنتا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا تھا۔
اوپر بحولہ تورات جو صفات رسول کریم ﷺ کی بیان کی گئی تھیں ان میں یہ بھی تھا کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اندھی آنکھوں کو بینا اور بہرے کانوں کو سننے والا بنا دے گا اور بند دلوں کو کھول دے گا، یہ اوصاف شاید اسی خصوصیت کا نتیجہ ہوں کہ رسول کریم ﷺ کو حق تعالیٰ نے صفت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا امتیازی سلیقہ عطا فرمایا تھا۔
دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ لوگوں کے لئے پاکیزہ اور پسندیدہ چیزوں کو حلال فرماویں گے اور گندی چیزوں کو حرام، مراد یہ ہے کہ بہت سی پاکیزہ اور پسندیدہ چیزیں جو بنی اسرائیل پر بطور سزا کے حرام کردی گئی تھیں، رسول کریم ﷺ ان کی حرمت کو ختم کردیں گے۔ مثلا حلال جانوروں کی چربی وغیرہ جو بنی اسرائیل کی بدکاریوں کی سزا میں ان پر حرام کردی گئی تھی آنحضرت ﷺ نے اس کو حلال قرار دیا، اور گندی چیزوں میں خون اور مردار جانور، شراب اور تمام حرام جانور داخل ہیں اور تمام حرام ذرائع آمدنی بھی مثلا سود، رشوت جوا وغیرہ، (السراج المنیر) اور بعض حضرات نے برے اخلاق و عادات کو بھی گندی چیزوں میں شمار فرمایا ہے۔
تیسری صفت یہ بیان فرمائی گئی (آیت) وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ یعنی آنحضرت ﷺ ہٹا دیں گے لوگوں سے اس بوجھ اور بند کو جو ان پر مسلط تھی۔
لفظ اصر کے معنی بارگراں کے ہیں جو آدمی کو حرکت کرنے سے روک دے اور اغلال غل کی جمع ہے، اس ہتھکڑی کو غل کہتے ہیں جس کے ذریعہ مجرم کے ہاتھوں کو اس کی گردن کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور وہ بالکل بےاختیار ہوجاتا ہے۔
اصر اور اغلال یعنی بار گراں اور قید سے مراد اس آیت میں وہ احکام شاقہ اور دشوار واجبات ہیں جو اصل دین میں مقصود نہ تھے بلکہ بنی اسرائیل پر بطور سزا کے لازم کردیئے گئے تھے، مثلا کپڑا ناپاک ہوجائے تو پانی سے دھو دینا بنی اسرائیل کے لئے کافی نہ تھا بلکہ یہ واجب تھا کہ جس جگہ نجاست لگی ہے اس کو کاٹ دیا جائے، اور کفار سے جہاد کرکے جو مال غنیمت ان کو ہاتھ آئے، ان کے لئے حلال نہیں تھا بلکہ آسمان سے ایک آگ آکر اس کو جلا دیتی تھی، ہفتہ کے دن شکار کھیلنا ان کے لئے حرام تھا جن اعضاء سے کوئی گناہ صادر ہو ان اعضاء کو کاٹ دینا واجب تھا کسی کا قتل خواہ عمد ہو یا خطاء دونوں صورتوں میں قصاص یعنی قاتل کا قتل کرنا واجب تھا خون بہا دینے کا قانون نہ تھا۔
ان احکام شاقة کو جو بنی اسرائیل پر نافذ تھے قرآن میں اصر اور اغلال فرمایا اور یہ خبر دی کہ رسول کریم ﷺ ان سخت احکام کو منسوخ کرکے سہل احکام جاری فرماویں گے۔ اسی کو آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ میں نے تم کو ایک سہل اور آسان شریعت پر چھوڑا ہے جس میں نہ کوئی مشقت ہے نہ گمراہی کا اندیشہ۔
ایک حدیث میں ارشاد ہے الدین یسر یعنی دین آسان ہے، قرآن کریم نے فرمایا، (آیت) وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر دین کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں ڈالی۔
نبی امی ﷺ کی مخصوص صفات کمال بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا، (آیت) فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٗٓ ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ، یعنی تورات و انجیل میں نبی آخر الزمان کی واضح صفات و علامات بتلا دینے کا نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی تعظیم کریں اور مدد کریں اور اس نور کا اتباع کریں جو آپ کے ساتھ بھیجا گیا ہے یعنی قرآن عظیم تو یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے۔
یہاں فلاح پانے کے لئے چار شرطیں ذکر کی گئی ہیں، اول آنحضرت ﷺ پر ایمان دوسرے آپ کی تعظیم و تکریم، تیسرے آپ کی امداد، چوتھے قرآن کریم کا اتباع۔
تعظیم و تکریم کے لئے اس جگہ لفظ عَزَّرُوْهُ لایا گیا ہے جو تعزیر سے مشتق ہے، تعزیر کے اصلی معنی شفقت کے ساتھ منع کرنے، حفاظت کرنے کے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس نے عَزَّرُوْهُ کے معنی تعظیم و تکریم کرنے کے بتلائے ہیں اور مبرد نے کہا کہ اعلی درجہ کی تعظیم کو تعزیر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو آنحضرت ﷺ کی عظمت و محبت کے ساتھ آپ کی تائید و حمایت اور مخالفین کے مقابلہ میں آپ کی مدد کریں وہ مکمل فلاح پانے والے ہیں، زمانہ نبوت میں تو یہ تائید ونصرت آپ کی ذات کے ساتھ متعلق تھی اور آپ کی وفات کے بعد آپ کی شریعت اور آپ کے دین کی تائید و نصرت ہی آنحضرت ﷺ کی تائید و نصرت کا مصداق ہے۔
قرآن کریم کو اس آیت میں نور سے تعبیر کیا گیا ہے، وجہ یہ ہے کہ جس طرح نور کے نور ہونے پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں، نور خود اپنے وجود کی دلیل ہوتا ہے، اسی طرح قرآن کریم خود اپنے کلام ربانی اور کلام حق ہونے کی دلیل ہے کہ ایک امی محض کی زبان سے ایسا اعلی وابلغ کلام آیا جس کی مثال لانے سے ساری دنیا عاجز ہوگئی، یہ خود قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کی دلیل ہے۔
نیز جس طرح نور خود بھی روشن ہوتا ہے اور دوسری اندھیریوں میں بھی اجالا کردیتا ہے اسی طرح قرآن کریم نے اندھیریوں میں پھنسی ہوئی دنیا کو تاریکیوں سے نکالا۔
قرآن کے ساتھ سنت کا اتباع بھی فرض ہے
اس آیت کے شروع میں یہ (آیت) يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ فرمایا تھا اور آخر میں واتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٗٓ فرمایا۔
ان میں سے پہلے جملہ میں نبی امی کے اتباع کا حکم ہے اور آخری جملہ میں قرآن کے اتباع کا۔ اس سے ثابت ہوا کہ نجات آخرت کتاب اور سنت دونوں کے اتباع پر موقوف ہے کیونکہ نبی امی کا اتباع ان کی سنت ہی کے اتباع کے ذریعہ ہوسکتا ہے۔
رسول کا صرف اتباع بھی کافی نہیں، ادب و احترام اور محبت بھی فرض ہے
اور ان دونوں جملوں کے درمیان عَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ آنحضرت ﷺ کے احکام کا ایسا اتباع مقصود نہیں جیسے عام دنیا کے حکام کا اتباع جبرا قہرا کرنا پڑتا ہے بلکہ وہ اتباع مقصود ہے جو عظمت و محبت کا نتیجہ ہو یعنی رسول اللہ ﷺ کی عظمت و محبت دل میں اتنی ہو کہ اس کی وجہ سے آپ کے احکام کے اتباع پر مجبور ہو، کیونکہ امت کو اپنے رسول سے مختلف قسم کے تعلقات ہوتے ہیں، ایک یہ کہ وہ امیر و حاکم ہے اور امت محکوم و رعیت، دوسرے یہ کہ رسول محبوب ہے اور پوری امت ان کی محب۔
ایک یہ کہ رسول اپنے کمالات علمی، عملی، اخلاقی کی بناء پر صاحب عظمت ہے، اور ساری امت ان کے مقابلہ میں پست اور عاجز۔
ہمارے رسول کریم ﷺ میں سب شانیں درجہ کمال میں پائی جاتی ہیں اس لئے امت پر لازم ہے کہ ہر شان کا حق ادا کریں، بحیثیت محبوب ہونے کے ان کے ساتھ گہری محبت رکھیں اور بحیثیت کمالات نبوت ان کی تعظیم و تکریم بجا لائیں۔
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اتباع تو امت پر فرض ہونا ہی چاہئے تھا کیونکہ انبیاء کے بھیجنے کا مقصد ہی اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا، لیکن حق تعالیٰ نے ہمارے رسول مقبول ﷺ کے بارے میں صرف اسی پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ امت پر آپ کی تعظیم و توقیر اور احترام و ادب کو بھی لازم قرار دیا ہے اور قرآن کریم میں جابجا اس کے آداب سکھائے گئے ہیں۔
اس آیت میں تو عَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ کے الفاظ سے اس کی طرف ہدایت کی گئی ہے اور ایک دوسری آیت میں بھی وَتُعَزِّرُوہٗ وَتُوَقِّرُوہٗ آیا ہے، اور کئی آیتوں میں اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے ایسی بلند آواز سے بات نہ کریں کہ آپ کی آواز سے بڑھ جائے (آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ۔
اور ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ، یعنی اے مسلمانو ! اللہ اور اس کے رسول سے پیش قدمی نہ کرو، یعنی جس مجلس میں حضور تشریف فرما ہوں اور کوئی معاملہ پیش آئے تو آپ سے پہلے کوئی نہ بولے۔
حضرت سہل بن عبداللہ نے اس آیت کے معنی یہ بتلائے ہیں کہ آپ سے پہلے نہ بولیں اور جب آپ کلام کریں تو سب خموش ہو کر سنیں۔
ایک آیت قرآن میں اس کی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو پکارنے کے وقت ادب کا لحاظ رکھیں اس طرح نہ پکاریں جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارا کرتے ہیں۔ (آیت) لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا، آخر آیت میں اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اس کے خلاف کوئی کام بےادبی کا کیا گیا تو سارے اعمال حبط اور برباد ہوجائیں گے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین باوجودیکہ ہر وقت، ہر حال میں آنحضرت ﷺ کے شریک کار رہتے تھے اور ایسی حالت میں احترام و تعظیم کے آداب ملحوظ رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن ان کا یہ حال تھا کہ آیت مذکورہ کے نازل ہونے کے بعد حضرت صدیق اکبر جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں کچھ عرض کرتے تو اس طرح بولتے تھے جیسے کوئی پوشیدہ بات کو آہستہ کہا کرتا ہے، یہی حال حضرت فاروق اعظم کا تھا، (شفاء)
حضرت عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کوئی مجھے دنیا میں محبوب نہ تھا اور میرا یہ حال تھا کہ میں آپ کی طرف نظر بھر کر دیکھ بھی نہ سکتا تھا، اور اگر کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ مبارک دریافت کرے تو میں بیان کرنے پر اس لئے قادر نہیں کہ میں نے کبھی آپ کو نظر بھر کر دیکھا ہی نہیں۔
ترمذی نے حضرت انس سے نقل کیا ہے کہ مجلس صحابہ میں جب آنحضرت ﷺ تشریف لاتے تھے تو سب نیچی نظریں کرکے بیٹھتے تھے، صرف صدیق اکبر اور فاروق اعظم آپ کی طرف نظر کرتے اور آپ ان کی طرف نظر فرما کر تبسم فرماتے تھے۔
عروہ بن مسعود کو اہل مکہ نے جاسوس بنا کر مسلمانوں کا حال معلوم کرنے کے لئے مدینہ بھیجا اس نے صحابہ کرام کو پروانہ وار آنحضرت ﷺ پر گرتا اور فدا ہوتا ہوا دیکھ کر واپسی میں یہ رپورٹ دی کہ میں نے کسری و قیصر کے دربار بھی دیکھے ہیں اور ملک نجاشی سے بھی ملا ہوں مگر جو حال میں نے اصحاب محمد کا دیکھا وہ کہیں نہیں دیکھا، میرا خیال یہ ہے کہ تم لوگ ان کے مقابلہ میں ہرگز کامیاب نہ ہوگے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ کی حدیث میں ہے کہ جب آپ گھر میں تشریف فرما ہوتے تھے تو صحابہ کرام باہر سے آواز دے کر آنحضرت ﷺ کو بلانا بےادبی سمجھتے تھے دروازہ پر دستک بھی صرف ناخن سے دیتے تھے تاکہ زیادہ کھڑکا اور شور نہ ہو۔
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد بھی صحابہ وتابعین کا معمول یہ تھا کہ مسجد نبوی میں کبھی بلند آواز سے بات کرنا تو درکنار کوئی وعظ تقریر بھی زیادہ بلند آواز سے پسند نہ کرتے تھے، اکثر حضرات کا عالم یہ تھا کہ جب کسی نے آنحضرت ﷺ کا نام مبارک لیا تو رونے لگے اور ہیبت زدہ ہوگئے۔
اسی تعظیم و توقیر کی برکت تھی کہ ان حضرات کو کمالات نبوت سے خاص حصہ ملا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو انبیاء کے بعد سب سے اونچا مقام عطا فرمایا۔
Top