Mutaliya-e-Quran - An-Nisaa : 117
اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا١ۚ وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًاۙ
اِنْ يَّدْعُوْنَ : وہ نہیں پکارتے مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اِلَّآ اِنَاثًا : مگر عورتیں وَاِنْ : اور نہیں يَّدْعُوْنَ : پکارتے ہیں اِلَّا : مگر شَيْطٰنًا : شیطان مَّرِيْدًا : سرکش
وہ اللہ کو چھوڑ کر دیویوں کو معبود بناتے ہیں وہ اُس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں
[ اِنْ یَّدْعُوْنَ : وہ لوگ نہیں پکارتے ] [ مِنْ دُوْنِہٖٓ : اس کے علاوہ ] [ اِلَّآ : مگر ] [ اِنٰـثًا : عورتوں کو ] [ وَاِنْ یَّدْعُوْنَ : اور وہ نہیں پکارتے ] [ اِلاَّ : مگر ] [ شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا : سرکش شیطان کو ] م ر د مَرِدَ یَمْرَدُ (س) مَرَدًا : (1) درخت کی ٹہنی کا پتوں کے بغیر ہونا۔ (2) چکنا ہونا۔ مَرَدَ یَمْرُدُ (ن) مُرُوْدًا : (1) ہمسروں سے آگے نکلنا۔ (2) نافرمان و سرکش ہونا۔ { وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ قف مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِقف }(التوبۃ :101) ” اور مدینے والوں میں سے کچھ لوگ آگے بڑھے نفاق پر۔ “ مَارِدٌ (اسم الفاعل) : سرکشی کرنے والا ۔ { وَحِفْظًا مِّنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ ۔ } (الصفت) ” اور حفاظت کرتے ہوئے ہر ایک سرکشی کرنے والے شیطان سے۔ “ مَرِیْدٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : ہمیشہ اور ہر حال میں سرکش۔ آیت زیر مطالعہ۔ مَرَّدَ (تفعیل) تَمْرِیْدًا : کسی چیز کو ہموار اور چکنا کرنا۔ مُمَرَّدٌ (اسم المفعول) : چکنا کیا ہوا۔ { قَالَ اِنَّہٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ} (النمل :44) ” اس نے کہا کہ یہ ایک چکنا کیا ہوا محل ہے۔ “ ترکیب :” اِنْ یَّدْعُوْنَ “ کا ” اِنْ “ نافیہ ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ آگے ” اِلاَّ “ آ رہا ہے۔ اگر یہ ” اِنْ “ شرطیہ ہوتا تو مضارع کو مجزوم کرتا اور ” اِنْ یَّدْعُوْا “ آتا۔ ” وَقَالَ “ کا وَ حالیہ ہے اور ” قَالَ “ کا فاعل اس میں ” ھُوَ “ کی ضمیر ہے جو ” شَیْطَانًا مَّرِیْدًا “ کے لیے ہے۔ ” فَلْیُبَتِّکُنَّ “ اور ” فَلْیُغَیِّرُنَّ “ ‘ دونوں جمع کے صیغے ہیں۔ ان کا فاعل ” ھُمْ “ کی ضمیر ہے جو ” مِنْ عِبَادِکَ “ کے لیے ہے ۔
Top