Mutaliya-e-Quran - Al-Maaida : 72
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ١ؕ وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْ١ؕ اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ
لَقَدْ كَفَرَ : بیشک کافر ہوئے الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : وہ جنہوں نے کہا اِنَّ : تحقیق اللّٰهَ : اللہ هُوَ : وہی الْمَسِيْحُ : مسیح ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم وَقَالَ : اور کہا الْمَسِيْحُ : مسیح يٰبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : اے بنی اسرائیل اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ رَبِّيْ : میرا رب وَرَبَّكُمْ : اور تمہارا رب اِنَّهٗ : بیشک وہ مَنْ : جو يُّشْرِكْ : شریک ٹھہرائے بِاللّٰهِ : اللہ کا فَقَدْ حَرَّمَ : تو تحقیق حرام کردی اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِ : اس پر الْجَنَّةَ : جنت وَمَاْوٰىهُ : اور اس کا ٹھکانہ النَّارُ : دوزخ وَمَا : اور نہیں لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے مِنْ : کوئی اَنْصَارٍ : مددگار
یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے حالانکہ مسیح نے کہا تھا کہ "اے بنی اسرائیل! اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی" جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں
لَقَدْ كَفَرَ [ یقینا کفر کرچکے ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنھوں نے ] قَالُوْٓا [ کہا ] اِنَّ اللّٰهَ [ بیشک اللہ ] هُوَ الْمَسِيْحُ [ ہی مسیح ہے ] ابْنُ مَرْيَمَ ۭ [ جو مریم کا بیٹا ہے ] وَ [ حالانکہ ] قَالَ [ کہا ] الْمَسِيْحُ [ مسیح نے ] يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [ اے بنی اسرائیل ] اعْبُدُوا [ تم لوگ بندگی کرو ] اللّٰهَ [ اللہ کی ] رَبِّيْ [ جو میرا رب ہے ] وَرَبَّكُمْ ۭ [ اور تمہارا رب ہے ] اِنَّهٗ [ بیشک وہ ] مَنْ [ جو ] يُّشْرِكْ [ شرک کرتا ہے ] بِاللّٰهِ [ اللہ کے ساتھ ] فَقَدْ حَرَّمَ [ تو حرام کرچکا ہے ] اللّٰهُ [ اللہ ] عَلَيْهِ [ اس پر ] الْجَنَّةَ [ جنت کو ] وَمَاْوٰىهُ [ اور اس کا ٹھکانہ ] النَّارُ ۭ [ آگ ہے ] وَمَا [ اور نہیں ہے ] لِلظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والوں کے لیے ] مِنْ اَنْصَارٍ [ کسی قسم کا کوئی مددگار ] ءک : (ض) ۔ افکا ۔ (1) کسی چیز کو اس کے رخ سے پھیر دینا ۔ (2) جھوٹ گھڑنا ۔ جھوٹی چیزیں بنانا ۔ قَالُوْٓا اَجِئْتَـنَا لِتَاْفِكَنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا ۚ ۔ [ کیا تو آیا ہمارے پاس تاکہ تو پھیر دے ہم کو ہمارے خداؤں سے ] 46:22 فَاِذَا هِىَ تَلْقَفُ مَا يَاْفِكُوْنَ [ تو جب ہی وہ نکلتی ہے اس کو جو وہ لوگ جھوٹ بناوٹ کرتے ہیں ] ۔ 7:117 ۔ افک ۔ اسم ذات ہے ۔ گھڑا ہوا جھوٹ ۔ بہتان ۔ ھذا افک مبین [ یہ ایک کھلا بہتان ہے ] ۔ 24:12 ۔ افاک ۔ فعال کے وزن پر مبالغہ ہے ۔ بار بار یا بکثرت جھوٹ گھڑنے والا ۔ بہتان لگانے والا ۔ وَيْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍ [ تباہی ہے ہر ایک بہتان باز گنہگار کے لیے ] ۔ 45:7 ۔ (افتعال ) ایتفا کا ۔ کسی جگہ یا بستی کا الٹ جانا ۔ اوندھا ہونا ۔ مؤتفکۃ۔ اسم الفاعل ہے ۔ الٹ جانے والی ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ اَهْوٰى [ اور الٹ جانے والی بستی کو اس نے نیچے گرایا ] ۔ 53: 53 ۔ ترکیب : ان کا اسم اللہ ہے، المسیح اس کی خبر معرف باللام آئی ہے اس لیے ھو کی ضمیر فاصل آئی ہے جبکہ ابن مریم بدل ہے المسیح کا ۔ انہ میں ہ کی ضمیر ان کا اسم ہے جبکہ من یشرک سے الجنۃ تک پورا جملہ اس کی خبر ہے ۔ قدخلت کا فاعل الرسل ہے جو عاقل کی جمع مکسر ہے اس لیے واحد مؤنث کا صیغہ بھی جائز ہے ۔ امہ میں ہ کی ضمیر المسیح کے لیے ہے ۔ غیرالحق حال ہے اس لیے غیر منصوب ہوا ہے ۔ نوٹ :1 ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ابتدائی پیروکار جو عقائد رکھتے تھے وہ بڑی حد تک اس حقیقت کے مطابق تھے جس کا مشاہدہ انھوں نے خود کیا تھا اور جس کی تعلیم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو دی تھی ۔ مگر بعد کے عیسائیوں نے ایک طرف ان کی تعظیم میں غلو کرکے اور دوسری طرف ہمسایہ قوموں کے ادہام اور فلسفوں سے متاثر ہوکر ایک بالکل نیا مذہب تیار کرلیا جس کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اصل تعلیمات سے دور کا واسطہ بھی نہ رہا ۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے چودھویں ایڈیشن میں JESUS CHRIST کے عنوان پر ایک مسیحی عالم دینیات ریواینڈ چارلس اینڈ رسن اسکاٹ کا ایک طویل مضمون شامل ہے ۔ اس میں صاحب مضمون نے لکھا ہے کہ پہلی تین انجیلوں (متی ۔ مرقس ۔ لوقا) میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے یہ گمان کیا جاسکتا ہو کہ ان انجیلوں کے لکھنے والے یسوع کو انسان کے سوا کچھ اور سمجھتے تھے ۔ ان کی نگاہ میں وہ ایک انسان تھے ۔ درحقیقت ان کے حاضروناضر ہونے کا اگر دعوی کیا جائے تو یہ اس پورے تصور کے بالکل خلاف ہوگا جو ہمیں انجیلوں سے حاصل ہوتا ہے ۔ پھر مسیح کو قادر مطلق سمجھنے کی گنجائش تو انجیلوں میں اور بھی کم ہے ۔ فی الواقع یہ بات ان انجیلوں (یعنی مذکورہ تین انجیلوں ) کے تاریخی حیثیت سے معتبر ہونے کی اہم شہادت ہے کہ ان میں ایک طرف مسیح کے فی الحقیقت انسان ہونے کی شہادت محفوظ ہے اور دوسری طرف ان کے اندر کوئی شہادت اس امر کی موجود نہیں ہے کہ مسیح اپنے آپ کو خدا سمجھتے تھے ۔ یہ سینٹ پال تھا جس نے اعلان کیا کہ واقعہ رفع کے وقت اسی فعل رفع کے ذریعہ سے یسوع کو پورے اختیارات کے ساتھ ابن اللہ کے مرتبہ پر اعلانیہ فائز کیا گیا ۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے ایک دوسرے مضمون CHRISTIANITY میں ریورنڈ جارج ولیم ناکس مسیح کلیسا کے بنیادی عقیدے پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ عقیدہ تثلیت کا فکری سانچہ یونانی ہے اور یہودی تعلیمات اس میں ڈھالی گئی ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ ہمارے لیے ایک عجیب قسم کا مرکب ہے ۔ مذہبی خیالات بائبل کے اور ڈھلے ہوئے ایک اجنبی فلسفے کی صورتوں میں ۔ نیقیا کی کونسل نے اس عقدے میں جو درج کیا ہے اسے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنی تمام خصوصیات میں بالکل یونانی فکر کا نمونہ ہے ۔ اسی سلسلہ میں انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے ایک اور مضمون CHURCH HISTORY میں لکھا ہے کہ تیسری صدی عیسوی کے خاتمہ سے پہلے مسیح کو عام طور پر ” کلام “ کا جدی ظہور تو مان لیا گیا تھا تاہم بکثرت عیسائی ایسے تھے جو مسح کی الوہیت کے قائل نہ تھے ۔ چوتھی صدی میں اس مسئلہ پر سخت بحثیں چھڑی ہوئی تھیں جن سے کلیسا کی بنیادیں ہل گئی تھیں ۔ آخرکار 325 ء میں نیقیا کی کونسل نے الوہیت مسیح کو باضابطہ سرکاری طور پر اصل مسیحی عقیدہ قرار دیا اور مخصوص الفاظ میں اسے مرتب کردیا ۔ اگرچہ اس کے بعد بھی کچھ مدت تک جھگڑا چلتا رہا لیکن آخری فتح نیقیا ہی کے فیصلے کی ہوئی ۔ اس طرح عقیدہ تثلیث مسیحی مذہب کا ایک جزو لاینفک قرار پا گیا ۔ نوٹ :2 ۔ ابن حزم وغیرہ کی رائے ہے کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نبیہ تھیں کیونکہ بی بی سارہ سے فرشتوں نے کلام کیا تھا (11:73) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی تھی (28:7) اور بی بی مریم سے بھی فرشتے نے کلام کیا تھا (19: 19) جبکہ جمہور علماء کی رائے ہے کہ نبوت مردوں میں رہتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے پیغام دے کر نہیں بیجھا آپ سے پہلے مگر مردوں کو (12:109) ۔ (تفسیر ابن کثیر سے ماخوذ) اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ کسی سے صرف فرشتوں کا خطاب کرلینا یا کسی کی طرف اللہ کا وحی بھیج دینا اس کے نبی ہونے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ نبی ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کسی قوم کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے مامور بھی کیا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ زیر مطالعہ آیت نمبر 75 میں بی بی مریم کو نبیہ کے بجائے صدیقہ کہا گیا ہے ۔
Top