Urwatul-Wusqaa - Faatir : 5
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ١ؕ وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْ١ؕ اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ
لَقَدْ كَفَرَ : بیشک کافر ہوئے الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : وہ جنہوں نے کہا اِنَّ : تحقیق اللّٰهَ : اللہ هُوَ : وہی الْمَسِيْحُ : مسیح ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم وَقَالَ : اور کہا الْمَسِيْحُ : مسیح يٰبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : اے بنی اسرائیل اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ رَبِّيْ : میرا رب وَرَبَّكُمْ : اور تمہارا رب اِنَّهٗ : بیشک وہ مَنْ : جو يُّشْرِكْ : شریک ٹھہرائے بِاللّٰهِ : اللہ کا فَقَدْ حَرَّمَ : تو تحقیق حرام کردی اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِ : اس پر الْجَنَّةَ : جنت وَمَاْوٰىهُ : اور اس کا ٹھکانہ النَّارُ : دوزخ وَمَا : اور نہیں لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے مِنْ : کوئی اَنْصَارٍ : مددگار
یقینا وہ کافر ہوئے جنہوں نے کہا اللہ تو یہی مسیح بیٹا مریم کا ہے اور مسیح نے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے ، بلاشبہ جس کسی نے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرایا تو اس پر اللہ نے جنت حرام کردی اس کا ٹھکانا آتش دوزخ ہوا اور ظلم کرنے والوں کے لیے کوئی نہیں جو مددگار ہو گا
جن لوگوں نے مسیح (علیہ السلام) کو ” اللہ “ کہا وہ کھلے کفر کے مرتکب ٹھہرے : 188: زیر نظر آت کا یہ حصہ ” لقد کفرا الذین قالوا ان اللہ ھو المسیع ابن مریم “ اس سے پہلے اس سورت کی آیت نمبر 17 کے شروع میں گزر چکا ہے اور اس کی تفسیر وہاں بیان کردی گئی ہے وہاں سے ملاحظہ فرما لیں۔ اس جگہ میں قابل غور بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے مسیح (علیہ السلام) کو ” اللہ “ کہا انہوں نے کھلا کفر کیا۔ لیکن جن لوگوں نے ” جو احد تھا وہ احمد بن کر مدینہ میں آگیا “ کے الفاظ فرمائے وہ کون ہوئے ؟ اور جن لوگوں نے ” علی اللہ “ کا نعرہ بلند وہ کیا ٹھہرے ؟ مسیح (علیہ السلام) نے ان اندھوں اور بہروں کو کس طرح درست کیا : 189: وہ اندھے اور بہرے جن کا ذکر پیچھے آپ پڑھ آئے وہ اندھے اور بہرے کون تھے یہی بد عقیدہ لوگ جنہوں نے توحید الٰہی سے انکار کیا اور کھلے طور پر کفر و شرک کے مرتکب ہوئے۔ نافرمانیاں اور بےحیائیاں ان کا شیوہ ہوگیا۔ پھر ان کو انکی ایسی ہی بداعمالیوں کی پاداش میں ان کے اپنے ہی علاقے میں تباہ برباد کر کے رکھ دیا گیا پھر مسیح (علیہ السلام) نے ان کو توحید الٰہی کا درس دیا تھا ” کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے۔ “ رب کا معنی ہے آہستہ آہستہ کسی چیز کو اس کی استعداد کے مطابق نقص سے کمال کی طرف ، کمزوری سے قوت کی طرف پہنچانے والے کے ہیں۔ پھر جب وہ مجھے مرتبہ و کمال تک پہنچانے والا ہے تو پھر میں خدا کیسے ہو سکتا ہوں خدا تو وہ ہے جو ہر نقص اور کمی سے پہلے ہی پاک اور منزہ ہے وہ کسی کے پاک کرنے اور منزہ کرنے کا محتاج نہیں۔ پھر قرآن کریم کے اس بیان کی تائید محرف اور مسخ شدہ انجیلیں آج بھی کر رہی ہیں ، نقل ہے کہ 73 ” تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر۔ “ (متی 4 : 11) ” تو خداوند کو سجدہ کر اور صرف اس کی عبادت کر۔ “ (لوقا 4 : 9) ” اس نے کہا جو انسان سے نہیں ہوسکتا وہ خدا سے ہو سکتا ہے ۔ “ (لوقا 18 : 27) اللہ کے ساتھ کسی دوسروں کو شریک ٹھہرانے والوں پر جنت حرام ہے : 190: مسیح (علیہ السلام) نے کتنی واضح الفاظ میں اپنی قوم کے سامنے توحید الٰہی کا پرچار کیا اور کس طرح ان کو بتایا کہ اگر تم مجھے خدا سمجھو کے تو شرک کا ارتکاب کروگے اور ” جس کسی نے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرایا تو اس پر اللہ نے جنت حرام کردی ، اسکا ٹھکانا آتش دوزخ ہوا اور ظلم کرنے والوں کے لئے کوئی نہیں جو مدد گار ہوگا۔ “ یعنی جو شرک کرتا ہے وہ ظلم عظیم کرتا ہے اور اس روز ظالم کی امداد نہیں کی جائے گی اور میں بھی تم سے دست بردار ہوجاؤں گا۔ پھر مسیح (علیہ السلام) کے متعلق قرآن کریم نے یہ بیان بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت ملتے ہی جو پہلا اعلان اپنی قوم کے سامنے کیا تو وہ انی عبد اللہ ” میں اللہ کا بندہ ہوں “ تھا اور اپنی پوری زندگی میں آپ اسی بات کا اعلان کرتے رہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ جس طرح ایک شخص کسی بت ، پتھر ، درخت ، سانپ ، سورج ، چاند اور ستاروں کو خدا یا خدائی میں شریک مان کر مشرک ہوجاتا ہے جس طرح پہلے گروپ کی چیزوں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا اور بگڑی بنانے والا ، تکالیف اور مصائب دور کرنے والا ، روزی اور رزق دینے والا اور اولاد دینے والا سمجھ کر شرک کرتا ہے اس طرح دوسرے گروپ کے سارے انسانوں میں سے کسی انسان کو یا فرشتہ اور جن کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا اور بگڑی بنانے والا ، تکالیف اور مصائب دور کرنے والا ، روزی و رزق دینے والا سمجھ کر شرک کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ وہ پہلی قسم کے مشرکوں سے زیادہ بڑے اور زیادہ برے شرک کا مرتکب ہوتا ہے اور ان کی سزا بھی پہلے مشرکوں سے یقینا زیادہ ہوگی۔ کیوں ؟ اس لئے کہ پہلے گروپ کی چیزوں نے کبھی کسی کو روکا یا منع نہیں کیا کہ ہمیں شریک نہ ٹھہرائے لیکن دوسرے گروپ کے انسانوں نے ہر حال میں جب کہ وہ اللہ کے نیک بندے تھے لوگوں کو اس سے منع فرمایا جیسا کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی تقریر سے ثابت ہوچکا۔
Top