Mutaliya-e-Quran - Al-Hadid : 13
یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْ١ۚ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا١ؕ فَضُرِبَ بَیْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌ١ؕ بَاطِنُهٗ فِیْهِ الرَّحْمَةُ وَ ظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُؕ
يَوْمَ : جس دن يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ : کہیں گے منافق (مرد) وَالْمُنٰفِقٰتُ : اور منافق عورتیں لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے انْظُرُوْنَا : دیکھو ہم کو نَقْتَبِسْ : ہم روشنی حاصل کریں مِنْ نُّوْرِكُمْ ۚ : تمہارے نور سے قِيْلَ : کہہ دیا جائے گا ارْجِعُوْا : لوٹ جاؤ۔ پلٹ جاؤ وَرَآءَكُمْ : اپنے پیچھے فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا ۭ : پھر تلاش کرو نور کو فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ : تو حائل کردی جائے گی ان کے درمیان بِسُوْرٍ : ایک دیوار لَّهٗ : اس کا بَابٌ ۭ : ایک دروازہ ہوگا بَاطِنُهٗ : اس کے اندر فِيْهِ : اس میں الرَّحْمَةُ : رحمت ہوگی وَظَاهِرُهٗ : اور اس کے باہر مِنْ قِبَلِهِ : اس کے سامنے سے الْعَذَابُ : عذاب ہوگا
اُس روز منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں، مگر ان سے کہا جائے گا پیچھے ہٹ جاؤ، اپنا نور کہیں اور تلاش کرو پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا اُس دروازے کے اندر رحمت ہوگی اور باہر عذاب
[يَوْمَ يَقُوْلُ : جس دن کہیں گے ][ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ : منافق مرد اور منافق عورتیں ][ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ان لوگوں سے جو ایمان لائے ][ انْظُرُوْنَا : تم لوگ رعایت کرو ہماری ][ نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْ ۚ: تو ہم حصہ حاصل کرلیں گے تمہارے نور سے ][ قِيْلَ ارْجِعُوْا : کہا جائے گا تم لوگ لوٹ جاؤ ][ وَرَاۗءَكُمْ : اپنے پیچھے کی طرف ][ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا ۭ: پھر تلاش کرو نور کو ][ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ : پھر بنادی جائے گی ان کے درمیان ][ بِسُوْرٍ : ایک دیوار ][ لَّهٗ بَابٌ ۭ: جس کا ایک دروازہ ہوگا ][ بَاطِنُهٗ : اس کا باطن ہوگا ][ فِيْهِ الرَّحْمَةُ : جس میں رحمت ہوگی ][ وَظَاهِرُهٗ : اور اس کا ظاہر ایسا ہوگا ][ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ : جس کے سامنے سے عذاب ہوگا ] نوٹ۔ 2 ـ: آیت کے سیاق وسباق پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روشنی اسی انفاق کے فیض سے حاصل ہوگی جس کی دعوت گزشتہ آیت ۔ 10 ۔ 11 ۔ میں دی گئی ہے ۔ نیز آیت ۔ 9 ۔ میں یہ جو ہے کہ اللہ تعالیٰ آیت بینت اتارتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالے تو یہاں آیت بینت سے اشارہ خاص طور پر ان قرآنی آیات کی طرف ہے جو انفاق کی عظمت اور اہمیت واضح کرنے کے لیے نازل ہوئیں ، کیونکہ اسی انفاق سے نفاق کی جڑ کٹتی ہے اور وہ نور حکمت عطا ہوتا ہے جو اس دنیا کی تاریکیوں میں بھی انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور آخرت میں بھی یہ رہنمائی کرے گا (تدبر قرآن سے ماخوذ) واضح رہے کہ دین کی خاطر بندہ چاہے مال خرچ کرے یا اپنا وقت ۔ علم ، صلاحیت یا ذاتی مثال سے رہنمائی کرے ، سب انفاق میں شامل ہیں ۔ داتی رہنمائی کے انفاق ہونے کی متعلق آراء مختلف ہوسکتی ہیں ۔ لیکن اس کے شفاعت حسنہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اور انفاق کی طرح شفاعت حسنہ بھی انشاء اللہ نور کے حصول کا ذریعہ بنے گی ۔ ذاتی رہنمائی کرنے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک صاحب عمرہ سے واپس آئے تو ان کے دوست نے ان کو مبارک باد دی ۔ انھوں نے کہا اللہ تعالیٰ قبول کرے تو یہ مبارک بادی رسول اللہ ﷺ کے لیے ہے کیونکہ میں تو آپ ﷺ کی طرف سے عمرہ کرنے گیا تھا ۔ ان کے دوست نے کہا کہ اگلے ماہ میں بھی عمرہ کرنے جارہا ہوں لیکن سوچا تھا کہ یہ عمرہ میں اپنے مرحوم والدین کی طرف سے کروں گا ۔ انہوں نے اپنے دوست کو سمجھایا کہ تم عمرہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کرو ۔ اس کے بعد اللہ سے دعا کرو کہ میرے مرحوم والدین اور خاندان کے تمام مرحومین کو اس کا ثواب بخش دے ۔ اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ تمہارے حساب کے ساتھ خاندان کے تمام مرحومین کے حساب میں بھی رسول اللہ ﷺ کی طرف سے عمرہ کرنے ثواب لکھ دیا جائے گا ۔ اس کے بعد ان صاحب کے حلقہ میں تین یا چار افراد اس طرح عمرہ کرچکے ہیں۔ اس طرح یا کسی اور انداز میں ذاتی مثال سے تبلیغ کرنے کا عمل بھی انشاء اللہ میدان حشر میں نور میں اضافے کا سبب بنے گا ۔ (مرتب ) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص قرآن کی ایک آیت بھی تلاوت کرے گا ، تو وہ آیت اس کے لیے قیامت کے روز نور ہوگی ۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا کہ مجھ پر درود بھیجنا پل صراط پر نور کا سبب بنے گا ، ایک اور حدیث میں ہے کہ حج و عمرہ کے احرام سے فارغ ہونے کے لیے جو سرمنڈایا جاتا ہے تو اس میں سے جو بال زمین پر گرتا ہے وہ قیامت کے روز نور ہوگا ۔ میدان حشر میں نور وظلمت کے اسباب سے متعلق بارہ احادیث معارف القرآن کی جلد ہشتم کے صفحہ ۔ 308 ۔ 309 پر دی ہوئی ہیں ۔ ان میں سے صرف تین نقل کی گئی ہیں ۔ نوٹ ۔ 3: ایک حدیث میں ہے کہ پھر تم لوگ قبروں سے میدان حشر کی طرف منتقل کیے جاؤ گے جس میں مختلف مراحل ہوں گے ۔ ایک مرحلہ ایسا آئے گا کہ اللہ کے حکم سے کچھ چہرے سفید اور روشن کردیئے جائیں گے اور کچھ چہرے سیاہ ۔ پھر ایک مرحلہ پر میدان حشر میں جمع ہونے والے سب لوگوں پر جن میں مومن اور کافر سب شامل ہوں گے، ایک شدید ظلمت اور اندھیری طاری ہوجائے گی کسی کو کچھ نظر نہ آئے گا ، اس کے بعد نور تقسیم کیا جائے گا ۔ ہر مومن کو نور عطا کیا جائے گا اور کفار و منافقین کو نور نہ دیا جائے گا ۔ مگر ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ پل صراط کے پاس اللہ تعالیٰ ہر مومن کو نور عطا فرمادیں گے اور ہر منافق کو بھی ۔ مگر جب یہ پل صراط پر پہنچ جائیں گے تو منافقین کا نور سلب کرلیا جائے گا ۔ تفسیر مظہری میں ان دونوں احادیث کی تطبیق اس طرح کی گئی ہے کہ وہ منافقین جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھے ان کو تو شروع ہی سے کفار کی طرح کوئی نور نہیں ملے گا ۔ اور وہ منافقین جو اس امت میں بعد میں پیدا ہوئے جن کو منافقین کا نام اس لیے نہیں دیا جاسکے گا کہ وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا اور اب کسی کے بارے میں یہ حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ دل سے مومن نہیں ، صرف زبان کا اقرار ہے ، یہی وجہ ہے کہ امت میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو منافق کہے لیکن اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے، اس لیے جو لوگ اللہ کے علم میں منافق ہوں گے ، ان کے ساتھ یہ معاملہ ہوگا کہ شروع میں ان کو نور دے دیا جائے گا اور بعد میں سلب کرلیا جائے گا ۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)
Top