Mutaliya-e-Quran - Al-Qalam : 49
لَوْ لَاۤ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ مَذْمُوْمٌ
لَوْلَآ : اگر نہ ہوتی یہ بات اَنْ تَدٰرَكَهٗ : کہ پالیا اس کو نِعْمَةٌ : ایک نعمت نے مِّنْ رَّبِّهٖ : اس کے رب کی طرف سے لَنُبِذَ : البتہ پھینک دیا جاتا بِالْعَرَآءِ : چٹیل میدان میں وَهُوَ : اور وہ مَذْمُوْمٌ : مذموم ہوتا
اگر اس کے رب کی مہربانی اُس کے شامل حال نہ ہو جاتی تو وہ مذموم ہو کر چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتا
[لَوْلَآ اَنْ تَدٰرَكَهٗ : اگر نہ ہوتا کہ آلیا ان کو ][ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ : ایک نعمت نے ان کے رب (کے پاس) سے ][ لَنُبِذَ : تو ضرور وہ پھینکے گئے رہتے ][ بِالْعَرَاۗءِ : اس چٹیل میدان میں ][ وَهُوَ مَذْمُوْمٌ: اس حال میں کہ وہ مذمت کیے ہوئے ہوتے ] نوٹ۔ 2: آیت۔ 49 ۔ کو سورة القافات کی آیت۔ 142 تا 146 کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت حضرت یونس مچھلی کے پیٹ میں ڈالے گئے تھے اس وقت تو وہ ملامت میں مبتلا تھے، لیکن جب انہوں نے اللہ کی تسبیح کی اور اپنے قصور کا اعتراف کرلیا تو اگرچہ وہ مچھلی کے پیٹ سے نکال کر بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینکے گئے تھے، مگر وہ اس وقت مذمت میں مبتلا نہ تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اس جگہ ایک بیلدار درخت اگا دیا، تاکہ اس کے پتے ان پر سایہ کریں اور وہ اس کے پھل سے اپنی بھوک پیاس بھی دور کرسکیں۔ (تفہیم القرآن)
Top