Al-Qurtubi - Al-Qalam : 49
لَوْ لَاۤ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ مَذْمُوْمٌ
لَوْلَآ : اگر نہ ہوتی یہ بات اَنْ تَدٰرَكَهٗ : کہ پالیا اس کو نِعْمَةٌ : ایک نعمت نے مِّنْ رَّبِّهٖ : اس کے رب کی طرف سے لَنُبِذَ : البتہ پھینک دیا جاتا بِالْعَرَآءِ : چٹیل میدان میں وَهُوَ : اور وہ مَذْمُوْمٌ : مذموم ہوتا
اگر تمہارے پروردگار کی مہربانی انکی آوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیے جاتے اور ان کا حال ابتر ہوجاتا
لولا ان تدر کہ نعمۃ من ربہ عام قرأت تدرکہ ہے۔ ابن ہر مز اور حضرت حسن بصری نے تدار کہ پڑھا ہے۔ یہ مضارع کا صیغہ ہے اس کی تاء کو دال میں ادغام کیا گیا ہے یہ حال کی حکایت کی تقدیر پر ہے۔ گویا فرمایا، لولا ان کان یقال فیہ تتدار کہ نعمۃ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود نے تدارکتہ پڑھا ہے یہ متن کی کتابت کے خلفا ہے تدار کہ فعل ماضی ہے مذکر ہے نعمۃ کے معنی پر محمول ہے کیونکہ نعمۃ کی تانیث غیر حقیقی ہے تدار کہ نعمۃ کے لفظ کا اعتبار کرتے ہئے پڑھا ہے۔ نعمۃ کے معنی میں یہاں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی نبوت ہے، یہ ضحاک کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، مراد وہ عبارت ہے جو پہلے گزر چکی، یہ ابن جبیر کا قول ہے (1) ایک قول یہ کیا گیا ہے، مراد آپ کی یہ دعا ہے لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ یہ ابن زید کا قول ہے (2) ایک قول یہ کیا گیا ہے : نعمت سے مراد مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالنا ہے، یہ ابن بحر کا قول ہے۔ ایکق ول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد رب کی رحمت ہے، اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور ان پر نظر شقت فرمائی۔ لنبذبالعرآء وھم مذموم۔ تو انہیں پھینکا جاتا جبکہ وہ مذموم ہوتے لیکن انہیں پھینکا گیا جبکہ وہ بیمار تھے اور مذموم نہیں تھے۔ حضرت ابن عباس کے قول میں مذموم کا معنی ملیم (ملامت کیا گیا) ہے۔ بکر بن عبداللہ نے کہا، اس کا معنی گناہگار ہے (3) ایک قول یہ کیا یا ہے : مذموم کا معنی ہر بھلائی سے دور کئے گئے۔ العراء سے مراد ایسی وسیع زمین ہے جس میں پہاڑ اور درخت نہ ہوں جو اس زمین کو ڈھانپ سکیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو قیامت تک وہ مچھلی کے پیٹ میں ہوتے پھر انہیں قیامت کے مدیان میں مذموم پھینک دیا جاتا اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے۔ فلولا انہ کان من المسحین۔ لتلبث فی بطنہ الی یوم یبعثون۔ (الصافات) ۔
Top