Mutaliya-e-Quran - Ash-Sharh : 5
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاۙ
فَاِنَّ : پس بیشک مَعَ : ساتھ الْعُسْرِ : دشواری يُسْرًا : آسانی
پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے
[فَان مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا : پس یقینا سختی کے ساتھ ایک نرمی ہے ] نوٹ 4: آیات۔ 5 ۔ 6 ۔ سے پہلے جو باتیں کہی گئیں ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ہم نے آپ ﷺ کے لیے آپ ﷺ کا سینہ کھولا۔ آپ ﷺ سے آپ ﷺ کا بوجھ بٹایا۔ آپ ﷺ کے لیے آپ ﷺ کا ذکر بلند کیا۔ لیکن ان آیات میں یہ نہیں کہا کہ آپ ﷺ کی مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بلکہ بات کو عمومی انداز میں کہا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ دراصل آفاقی صداقت (Classical Truth) کا بیان ہے یہ ایک ایسا قاعدہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی رائج تھا۔ البتہ حیات طیبہ کے دوران وہ اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ لیکن اس کے بعد یہ قاعدہ ختم نہیں ہوگیا۔ بلکہ آج بھی ہلکے پیمانے پر جاری ہے۔ اور مومن۔ مسلم۔ کافر۔ دہر یہ سب کی زندگی میں اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ (مرتب) ۔ اب اگر دنیا میں کسی شخص کو عسر کے بعد یسر نصیب نہ ہو تو وہ اس آیت کے منافی نہیں ہے۔ البتہ عادۃُ اللہ اب بھی یہی ہے کہ جو شخص سختی پر صبر کرے اور آسانی میں دیر ہونے سے آس نہ توڑ بیٹھے تو ضرور اللہ تعالیٰ اس کے حق میں آسانی کر دے گا۔ بعض روایات حدیث میں بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ (معارف القرآن) یہاں اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ ایک ہی بات دو مرتبہ فرمائی گئی ہے۔ یہ تکرار محض تاکید کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ یہ عسر اور یسر دنیا میں لازم وملزوم ہیں۔ ایک گھاٹی کسی نے پار کرلی تو وہ یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ بس اب کسی گھاٹی سے اس کو سابقہ نہیں پیش آنا ہے بلکہ دوسری اور تیسری گھاٹی بھی آسکتی ہے۔ چاہیے کہ ان کو عبور کرنے کا حوصلہ بھی قائم رکھے۔ زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ اس جہاں میں ہر مسافر کو نشیب و فراز سے سابقہ پیش آتا ہے اور ان سے گزرنے کے بعد ہی کوئی مسافر منزل مقصود پر پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی معاملہ حق کے راستے پر چلنے والوں سے بھی ہے۔ جو لوگ اس راستہ پر چلنے کا ارادہ کرتے ہیں ان کے لیے یہ نہیں ہوتا کہ راستے کی تمام مشکلات خودبخود دور ہوجائیں، بلکہ ان کو دور کرنے کے لیے خود ان کو جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے یہ ضمانت ضرور ہے کہ اگر وہ راہ کی رکاوٹوں سے ہمت نہیں ہاریں گے تو وہ ان کے لیے ہر مشکل کے بعد آسانی پیدا کرے گا جس سے تازہ دم ہو کر وہ آگے کے سفر کے لیے مزید عزم و حوصلہ حاصل کرلیں گے۔ اس طرح ایک کے بعد دوسری مشکل سے لڑتے اور اس کو سر کرتے ہوئے بالآخر منزل مطلوب پر پہنچ جائیں گے۔ (تدبر قرآن)
Top