Al-Qurtubi - Hud : 112
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْا١ؕ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
فَاسْتَقِمْ : سو تم قائم رہو كَمَآ : جیسے اُمِرْتَ : تمہیں حکم دیا گیا وَمَنْ : اور جو تَابَ : توبہ کی مَعَكَ : تمہارے ساتھ وَلَا تَطْغَوْا : اور سرکشی نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
سو (اے پیغمبر) جیسا تم کو حکم ہوتا ہے (اس پر) تم اور جو لوگ تمہارے ساتھ تائب ہوئے ہیں قائم رہو۔ وہ تمہارے (سب) اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
آیت نمبر 112 قولہ تعالیٰ : فاستقیم کمآامرت نبی کریم ﷺ اور دیگر لوگوں کو خطاب ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ خطاب آپ ﷺ کو ہے اور مراد آپ کی امت ہے۔ یہ سدی کا قول ہے۔ اور ایک قول یہ ہے :إستقم یعنی میں اللہ تعالیٰ سے دین پر قائم رہنے کی گزارش کرتا ہوں اور اس بات کا سوال کرتا ہوں لہٰذا استقم کی سین سوال کی سین ہوگی۔ جس طرح آپ استغفر اللہ کہتے ہیں یعنی میں مغفرت طلب کرتا ہوں۔ دائیں، بائیں کی طرف سے کوئی چیز لیے بغیر صرف ایک ہی جہت میں استمرا اختیار کرنا استقامت کہلاتا ہے، یعنی اللہ کے امر کی بجا آوری پر ثابت قدم رہیے، صحیح مسلم میں حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی سے راویت ہے انہوں نے کہا : یارسول اللہ ! ﷺ مجھے اسلام میں کوئی ایسی بات بتائیے جس کے متعلق میں آپ کے بعد کسی سے نہ پوچھوں ؟ آپ نے فرمایا : قل أمنت باللہ ثم استقم کہ دو کہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر ثابت قدم ہوجا۔ ابومحمد دارمی نے عثمان بن حاضرازدی سے اپنی مسند میں روایت بیان کی ہے اس نے کہا : میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس گیا تو میں نے کہا : مجھے وصیت کیجئے۔ آپ نے فرمایا : ہاں ! اللہ کا تقوی اور استقامت کو لازم پکڑ، اتباع کر اور بدعت اختیار نہ کر۔ ومن تاب معک یعنی آپ بھی ثابت قدم رہیں اور جو آپ کے ساتھ تائب ہو کر آئے ہیں ان سے مراد آپ کے وہ صحابہ ہیں جنہوں نے شرک سے توبہ کی اور ان کے بعد آپ کی امت میں سے جنہوں نے ان کی اتباع کی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ پر کوئی بھی ایسی آیت نازل نہیں ہوئی جو آپ پر اس آیت سے زیادہ سخت اور شدید ہو، اسی وجہ سے آپ ﷺ کے صحابہ نے جب آپ کو عرض کی کہ آپ پر بڑی تیزی سے بڑھاپا آگیا ہے تو آپ نے انہیں فرمایا :” مجھے (سورت) ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے “۔ سورت کے آغاز میں یہ گزرچکا ہے۔ ابوعبیدالرحمن سلمی سے مروی ہے انہوں نے کہا میں نے ابو علی سری کو کہتے ہوئے سنا ہے : میں نے نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا تو عرض کیا : یارسول اللہ ! ﷺ آپ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :” مجھے ہود نے بوڑھا کردیا “۔ آپ نے فرمایا :” ہاں “۔ میں نے آپ کو عرض کیا : اس میں سے کس چیز نے آپ کو بوڑھا کیا ؟ انبیاء کے قصص نے یا امتوں کی ہلاکت نے ؟ آپ نے فرمایا :” نہیں، اللہ کے ارشاد فاستقم کما امرت نے “۔ ولاتطغوا سرکشی سے نہی ہے طغیان، حد کو تجاوز کرنا ہے، اسی سے انالماطغا الماء (الحاقہ :11) ہے جب پانی نے حد سے تجاوز کیا۔ اور ایک قول یہ ہے : اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر بھی جبر نہ کرو۔
Top