Al-Qurtubi - Ar-Ra'd : 15
وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ ظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ۩  ۞
وَلِلّٰهِ : اور اللہ ہی کو يَسْجُدُ : سجدہ کرتا ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْهًا : یا ناخوشی سے وَّظِلٰلُهُمْ : اور ان کے سائے بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام
اور جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہے خوشی سے یا زبردستی سے خدا کے آگے سجدہ کرتی ہے۔ اور ان کے سامنے بھی صبح وشام (سجدے کرتے) ہیں۔
آیت نمبر 15 قالہ تعالیٰ : وللہ یسجد من فی السموت والارض طوعا وکرھا حضرت حسن اور قتادہ وغیرہ نے کہا : مومن خوشی سے سجدہ کرتا ہے اور کافر تلوار سے مجبور ہوکر۔ حضرت قتادہ سے ہی مروی ہے کہ کافر کو جب ایمان کوئی فائدہ نہیں دیتا تو وہ مجبورا سجدہ کرتا ہے۔ زجاج نے کہا : کافر کا سجدہ مجبورا ہوتا ہے اس میں نہ خضوع ہوتا ہے اور نہ ہی عمل کا اثر۔ ابن زید نے کہا : طوعا سے مراد وہ ہے جو اسلام میں رغبت و شوق سے داخل ہوا اور کرھا سے مراد وہ ہے جو تلوار سے ڈر کر اسلام میں داخل ہوا۔ ایک قول یہ ہے : طوعا سے مراد وہ ہے جس کے اسلام کی مدت لمبی ہے اور اس نے اس لمبی عمر کو سجدوں میں مصروف رکھا اور کرھا سے مراد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی ذات کو حقیر اور ناپسندیدہ سمجھتا ہے، تو اس صورت میں آیت مومنوں کے حوالے سے ہی ہے اس اعتبار سے والارض سے مراد بعض من فی الارض ہے۔ قشیری نے کہا : آیت میں دو مسلک ہیں۔ ایک یہ کہ آیت عام ہے اور اس کی مراد مخصوص ہے، مون خوشی سے سجدہ کرتا ہے اور بعض کفار منافقین کی طرح مجبورا اور خوف سے سجدہ کرتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ آیت مومنین کے بارے میں ہے۔ ان میں سے بعض خوشی سے سجدہ کرتے ہیں ان پر سجدہ بھاری نہیں ہوتا اور بعض پر بھاری ہوتا ہے کیونکہ امور تکلیفیہ کا التزام مشقت ہے مگر وہ مشقت کو اخلاص اور ایمان کے ساتھ برداشت کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ حق کو پالیتے ہیں اور اس پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ اور دوسرا مسلک یہ ہے کہ مومن خوشی سے سجدہ کرتا ہے جبکہ کافر کو سجدہ کا حکم ہے اور اس پر اس کا مواخذہ بھی ہوگا۔ دوسرا مسلک اور یہی حق ہے کہ مومن اپنے بدن کے ساتھ خوشی سے سجدہ کرتا ہے اور مومن و کافر ہر مخلوق اس اعتبار سے سجدہ کرتی ہے کہ وہ مخلوق ہے، جس طرح اللہ کا ارشاد ہے : وان من شیء الا یسبح بحمدہ (الاسراء :44) کوئی شے نہیں مگر وہ اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ تو یہ تسبیح دلالۃ ہوتی ہے عبادۃ نہیں۔ وظللھم بالغدو والاصال یعنی مخلوق کے سائے صبح و شام اللہ کو سجدہ کرتے ہیں، کیونکہ یہ (سائے) ان دو وقتوں میں جدا ہوتے ہیں، اور ایک طرف سے دوسری طرف جھکتے ہیں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے جس طرح وہ چاہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرف ہے : اولم یروا ما خلق اللہ من شیء یتفیواظللہ عن الیمین والشمائل سجدا للہ وھم دخرون (النحل) کیا انہوں نے نہیں دیکھا ان اشیاء کی طرف جنہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے کہ بدلتے رہتے ہیں ان کے سائے دائیں سے (بائیں طرف) اور بائیں سے (دائیں طرف) سجدہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو اس حال میں کہ وہ اظہار عجز کر رہے ہیں۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ اور دیگر لوگوں کا قول ہے۔ مجاہد نے کہا : مومن کا سایہ خوشی سے سجدہ کرتا ہے کیونکہ وہ خوش ہوتا ہے جبکہ کافر کا سایہ مجبوراً سجدہ کرتا ہے کیونکہ وہ مجبور ہے۔ ابن انباری نے کہا : سایوں کی بھی عقلیں بنا دی جاتی ہے جن کے ذریعے وہ سجدہ کرتے ہیں اور ان پر خشوع طاری ہوتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کی سمجھ بنا دی ہے یہاں تک کہ وہ مخاطب ہوتے ہیں اور انہیں مخاطب کیا جاتا ہے۔ قشیری نے کہا : اس میں نظر ہے، کیونکہ پہاڑ کی تو آنکھ ہے ممکن ہے زندگی کی تقدیر کی شرط کے ساتھ اس کی عقل بھی ہو جبکہ سائے تو آثار اور اعراض ہیں، ان کے لیے زندگی مقصود نہیں۔ اور سجود جھکنے کے معنی میں ہے، پس سایوں کے سجود سے مراد ان کا ایک طرف سے دوسری طرف جھکنا ہے، سجدت النخلۃ کہا جاتا ہے یعنی کھجور کا درخت جھک گیا۔ الاصال، أصل کی جمع اور أصل، أصیل کی جمع ہے، اس سے مراد عصر سے لے کر غروب آفتاب کے درمیان کا وقت ہوتا ہے۔ پھر أصائل جمع المجمع ہے۔ أبو ذؤیب ہذلی نے کہا : لعمری لأنت البیت اکرم أھلہ وأقعد فی أفیائہ بالأصائل اور ظللھم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ من پر اس کا عطف ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہو اور خبر مخدوف ہو، تقدیر پر عبارت یوں ہو : وظلالھم سجد بالغدو و الاصال۔ الغدو مصدر بھی ہوسکتا ہے اور غداۃ کی جمع بھی ہوسکتا ہے، اور الاصال جمع کے مقابلے میں اس کا آنا اس کی جمع ہونے کی تقویت دیتا ہے۔
Top