Al-Qurtubi - An-Nahl : 62
وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا یَكْرَهُوْنَ وَ تَصِفُ اَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ اَنَّ لَهُمُ الْحُسْنٰى١ؕ لَا جَرَمَ اَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَ اَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ
وَيَجْعَلُوْنَ : اور وہ بناتے (ٹھہراتے ہیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مَا : جو يَكْرَهُوْنَ : وہ اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں وَتَصِفُ : اور بیان کرتی ہیں اَلْسِنَتُهُمُ : ان کی زبانیں الْكَذِبَ : جھوٹ اَنَّ : کہ لَهُمُ : ان کے لیے الْحُسْنٰى : بھلائی لَا جَرَمَ : لازمی بات اَنَّ : کہ لَهُمُ : ان کے لیے النَّارَ : جہنم وَاَنَّهُمْ : اور بیشک وہ مُّفْرَطُوْنَ : آگے بھیجے جائیں گے
اور یہ خدا کے لئے ایسی چیزیں تجویز کرتے ہیں جن کو خود ناپسند کرتے ہیں اور زبان سے جھوٹ بکے جاتے ہیں کہ ان کو (قیامت کے دن) بھلائی (یعنی نجات) ہوگی۔ کچھ شک نہیں کہ ان کیلئے (دوزخ کی) آگ (تیار) ہے اور یہ (دوزخ میں) سب سے آگے بھیجے جائیں گے۔
آیت نمبر 62 قولہ تعالیٰ : ویجعلون للہ ما یکرھون اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے تجویز کرتے ہیں وہ جنہیں وہ اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں یعنی بیٹیاں۔ وتصف السنتھم الکذب یعنی ان کی زبانیں جھوٹ کہتے ہیں۔ ان لھم الحسنی حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : یہ ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کے لئے بیٹے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں ہیں۔ الکذب یہ تصف کا مفعول ہے۔ اور ان، الکذب سے بدل ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے، کیونکہ یہ اس کا بیان ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : الحسنی سے مراد اچھی اور بہترین جزا ہے ؛ یہ زجاج نے کہا ہے۔ حضرت ابن عباس، ابو العالیہ، مجاہد، اور ابن محیصن نے الکذب کاف، ذال اور با کے رفع کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ السنۃ کی صفت ہے اور اسی طرح ولا تقولوا لما تصف السنتکم الکذب ہے (النحل :16) ۔ اور الکذب کذوب کی جمع ہے، مثلا رسول کی جمع رسل، صبور کی صبر، اور شکور کی جمع شکر ہے۔ لا یہ ان کے قول کا رد ہے، اور کلام مکمل ہوگئی، یعنی ایسا نہیں ہے جس طرح تم گمان کرتے ہو۔ جرم ان لھم النار یعنی یہ ثابت شدہ امر ہے کہ ان کے لئے آتش جہنم ہے۔ یہ مکمل بحث پہلے گزر چکی ہے۔ وانھم مفرطون یعنی انہیں آتش جہنم میں چھوڑ دیا جائے گا اور بھلا دیا جائے گا ؛ ابن الاعرابی، ابو عبیدہ، کسائی اور فراء نے یہ کہا ہے، اور یہی سعید بن جبیر اور حضرت مجاہد رحمہما اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔ اور حضرت ابن عباس اور سعید بن جبیر ؓ نے یہ بھی کہا ہے : مبعدون (انہیں دور کردیا جائے گا) حضرت قتادہ اور حسن ؓ نے کہا ہے : انہیں آتش جہنم کی طرف جلدی بھیجا جائے گا۔ اس کی طرف انہیں فوراً آگے بھیج دیا جائے گا۔ اور الفارط وہ ہے جو پانی کی طرف آگے بڑھ جاتا ہے اور اسی سے حضور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : انا فرطکم علی الحوض میں حوض پر تمہارے پیش پیش ہوں گے۔ اور قطامی نے کہا ہے : فاستعجلونا وکانوا من صحابتنا کما تعجل فراط لوراد اور الفراط کا معنی ہے پانی کی طلب اور تلاش میں آگے بڑھنے والے۔ اور الودار کا معنی ہے پیچھے رہنے والے۔ حضرت نافع (رح) نے ورش کی روایت میں مفرطون راء کو کسرہ اور تحفیف کے ساتھ پڑھا ہے، اور یہی حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت ابن عباس ؓ کی قرأت ہے، اور اسکا معنی ہے : گناہوں اور معصیت میں زیادتی کرنے والے، اسراف کرنے والے، یعنی افرطوافیھا (انہوں نے ان میں بہت زیادتی کی) ۔ کہا جاتا ہے : أفرط فلان علی فلان (یہ تب کہا جاتا ہے) جب وہ اس پر بہت زیادتی کرے۔ اور اس نے اس کو اس سے زیادہ برا کہا جتنا اس نے کہا۔ اور ابو جعفر القاری نے مفرطون را کو کسرہ اور تشدید کے ساتھ پڑھا ہے، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو ضائع کرنے والے ہیں، پس یہ واجب میں تفریط کرنے (کمی کرنے) سے ماخوذ ہے۔
Top