Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 62
وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا یَكْرَهُوْنَ وَ تَصِفُ اَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ اَنَّ لَهُمُ الْحُسْنٰى١ؕ لَا جَرَمَ اَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَ اَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ
وَيَجْعَلُوْنَ : اور وہ بناتے (ٹھہراتے ہیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مَا : جو يَكْرَهُوْنَ : وہ اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں وَتَصِفُ : اور بیان کرتی ہیں اَلْسِنَتُهُمُ : ان کی زبانیں الْكَذِبَ : جھوٹ اَنَّ : کہ لَهُمُ : ان کے لیے الْحُسْنٰى : بھلائی لَا جَرَمَ : لازمی بات اَنَّ : کہ لَهُمُ : ان کے لیے النَّارَ : جہنم وَاَنَّهُمْ : اور بیشک وہ مُّفْرَطُوْنَ : آگے بھیجے جائیں گے
اور کرتے ہیں اللہ کے واسطے جس کو اپنا جی نہ چاہے13 اور بیان کرتی ہیں زبانیں ان کی جھوٹ کہ ان کے واسطے خوبی ہے14 آپ ثابت ہے کہ ان کے واسطے آگ ہے اور وہ بڑھائے جا رہے ہیں1
13 یعنی جو چیزیں بری سمجھ کر اپنے لیے پسند نہیں کرتے مثلاً بیٹیاں یا اپنے ملک میں کسی اجنبی کی شرکت یا استہزاء و استخفاف کا معاملہ۔ وہ خداوند قدوس کے لیے ثابت کرتے ہیں۔ 14 یعنی باوجود ایسی گستاخیوں کے زبان پر یہ جھوٹا دعویٰ ہے کہ ہم تو دنیا میں بھی بھلی چیزوں کے لائق ہیں اور اگر آخرت وغیرہ کے قصے سچے ہوئے تو وہاں بھی خوب چین اڑائیں گے۔ (وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّـتْهُ لَيَقُوْلَنَّ ھٰذَا لِيْ ۙ وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَاۗىِٕمَةً ۙ وَّلَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّيْٓ اِنَّ لِيْ عِنْدَهٗ لَــلْحُسْنٰى) 41 ۔ فصلت :50) 1 یعنی ان گستاخیوں کے ساتھ ایسی باطل آرزوئیں رکھنا ہی اس کی دلیل ہے کہ ان کے لیے کوئی خوبی اور بھلائی تو کیا ہوتی، البتہ دوزخ تیار ہے جس کی طرف وہ بڑھائے جا رہے ہیں اور جہاں پہنچ کر گویا بالکل بھلا دیے جائیں گے۔ یعنی ابدا لآباد تک کبھی مہربانی کی نظر ان پر نہ ہوگی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ ان کو فرمایا جو ناکارہ چیزیں اللہ کے نام دیں اور اس پر یقین کریں کہ ہم کو بہشت ملے گی۔ حالانکہ وہ روز بروز دوزخ کی طرف بڑھتے ہیں۔
Top