Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Nahl : 66
وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً١ؕ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ
وَاِنَّ
: اور بیشک
لَكُمْ
: تمہارے لیے
فِي
: میں
الْاَنْعَامِ
: چوپائے
لَعِبْرَةً
: البتہ عبرت
نُسْقِيْكُمْ
: ہم پلاتے ہیں تم کو
مِّمَّا
: اس سے جو
فِيْ
: میں
بُطُوْنِهٖ
: ان کے پیٹ (جمع)
مِنْ
: سے
بَيْنِ
: درمیان
فَرْثٍ
: گوبر
وَّدَمٍ
: اور خون
لَّبَنًا
: دودھ
خَالِصًا
: خالص
سَآئِغًا
: خوشگوار
لِّلشّٰرِبِيْنَ
: پینے والوں کے لیے
اور تمہارے لئے چارپایوں میں بھی (مقام) عبرت (وغور) ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے اس سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے خوشگوار ہے۔
آیت نمبر
66
اس میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
: قولہ تعالیٰ : وان لکم فی الانعام لعبرۃ اس کا بیان سورة الانعام میں گزر چکا ہے، اور یہاں چوپاؤں کی چار قسمیں مراد ہیں : اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری۔ لعبرۃ یعنی ان میں اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی وحدانیت اور اس کی عظمت پر دلیل ہے۔ اور العبرۃ دراصل ایک شے کو دوسری شے کے ساتھ تشبیہ دینا ہے اور اس کی مثل قرار دینا ہے تاکہ اس کی حقیقت بطریق مشاکلہ پہچان لی جائے۔ اور اسی سے فاعتبروا (پس عبرت حاصل کرو) ہے۔ اور ابوبکر وراق نے کہا ہے : مویشیوں میں عبرت ان کا اپنے مالکوں کے لئے مسخر ہونا اور ان کے لئے ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا ہے، اور تیرا اپنے رب کی سرکشی اختیار کرنا اور ہر شے میں اس کی مخالفت کرنا ہے، اور عظیم ترین عبرت اور سبق یہ ہے کہ وہ اس سے برأت کا اظہار کرے جو گنہگار کو گناہ پر ابھارتی ہے۔ معئلہ نمبر
2
: قولہ تعالیٰ : نسقیکم اہل مدینہ، ابن عامر اور ابوبکر کی روایت میں عاصم کی قرأت (نون کے فتحہ) کے ساتھ ہے اور یہ سقی یسقی سے ماخوذ ہے۔ اور باقیوں نے اور حفص نے حضرت عاصم سے (نون کے ضمہ) کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ أسقی یسقی سے ماخوذ ہے، اور یہی کو فیوں اور اہل مکہ کی قرأت ہے۔ کہا گیا ہے : یہ دونوں لغتیں ہیں۔ اور لبید نے کہا ہے : سقی قومی بنی مجد وأسقی نمیرا والقبائل من ھلال اور یہ بھی کہا گیا ہے : جو شے تیرے ہاتھ میں ہو اور اسے کسی کے منہ میں ڈالے تو اس کے لئے کہا جاتا ہے : سقیتہ (میں نے اسے پلایا) ۔ اور جب تو اس کے لئے گھاٹ بنائے یا اسے پانی پیش کرے کہ وہ خود اپنے منہ سے اسے پی لے یا وہ کھیتی کو لگائے تو کہا جائے گا : أسقیتہ (میں نے اسے سیراب کیا) ؛ یہ ابن عزیز نے کہا ہے، اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور ایک جماعت نے تسقیکم تا کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ ضعیف ہے، مراد چوپائے ہیں۔ اور اسے یا کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، یعنی یسقیکم اللہ عزوجل (اللہ تعالیٰ تمہیں پلاتا ہے) ۔ اور قراء سابقہ دونوں قرأتوں پر ہیں، پس نون کا فتحہ قریش کی لغت ہے اور اس کا ضمہ حمیر کی لغت ہے۔ مسئلہ نمبر
3
: قولہ تعالیٰ : مما فی بطونہ لوگوں نے قول باری تعالیٰ : مما فی بطونہ میں ضمیر کے بارے اختلاف کیا ہے کہ کس کی طرف لوٹ رہی ہےَ تو کہا گیا ہے کہ یہ اپنے ماقبل کی طرف لوٹ رہی ہے اور وہ جمع مونث ہے۔ سیبویہ نے کہا ہے : عرب الانعام کے بارے خبر واحد کے ساتھ بھی خبر دیتے ہیں۔ ابن عربی نے کہا ہے : میرا خیال ہے انہوں نے اسی آیت کی وجہ سے اس پر اعتماد کیا ہے، اور یہ آپ کے منصب کے موافق نہیں ہے اور نہ اس کا ادراک آپ کے لائق اور مناسب ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : جب جمع کا لفظ اسم جنس ہو تو اسے مذکر اور مونث دونوں طرح لایا جاسکتا ہے پس کہا جائے گا : ھو الأنعام اور ہی الأنعام، لہٰذا مذکر ضمیر کا لوٹنا جائز ہوا۔ اور یہ زجاج نے کہا ہے۔ اور کسائی نے کہا ہے : اس کا معنی ہے مما فی بطون ما ذکرنا (اس سے جو پیتوں میں سے جسے ہم نے ذکر کیا ہے پس ضمیر مذکور کی طرف لوٹ رہی ہوگی۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : انہ تذکرۃ۔ فمن شاء ذکرہ۔ (المدثر) (یہ نصیحت ہے سو جس کا جی چاہے اسے قبول کرلے) ۔ اور شاعر نے کہا ہے : مثل الفراخ نتقت حواصلہ اس میں بھی مذکر ضمیر لوٹائی گئی ہے۔ اور اس کی مثالیں کثیر ہیں۔ اور کسائی نے کہا ہے : مما فی بطونہ یعنی اس سے جو ان میں سے بعض کے پیٹوں میں ہے، کیونکہ مذکر جانوروں کا دودھ نہیں ہوتا، اور یہ وہی ہے جس پر ابو عبیدہ نے اسے محمول کیا ہے۔ اور فراء نے کہا ہے : الأنعام اور النعم دونوں ایک ہی (معنی میں) ہیں، اور النعم مذکر ذکر کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے عرب کہتے ہیں : ھذا نعم وارد (یہ جانور قریب پہنچنے والے ہیں) پس یہ ضمیر اس لفظ نعم کی طرف لوٹ رہی ہے جو بمعنی الانعام ہے۔ ابن عربی نے کہا ہے : بلاشبہ مذکر ضمیر جمع کے معنی کی طرف، اور مونث ضمیر جماعت کے معنی کی طرف لوٹتی ہے، پس یہاں اسے لفظ جمع کے اعتبار سے مذکر کیا ہے، اور سورة المومنون میں لفظ جماعت کے اعتبار سے اسے مونث ذکر کیا ہے پس فرمایا : نسقیکم مما فی بطونہ اور اس تاویل سے معنی خوب اچھی طرح درست اور صحیح ہوجاتا ہے۔ اور لفظ جماعت کے اعتبار سے مونث ذکر کرنا اور لفظ جمع کے اعتبار سے مذکر ذکر کرنا یبرین کے صحراؤں اور فلسطین کے چٹیل میدانوں سے زیادہ ہے۔ مسئلہ نمبر
4
: بعض أجل علماء نے اور وہ قاضی اسماعیل ہیں نے اس ضمیر کے لوٹانے سے یہ استدلال کیا ہے کہ نر کا دودھ تحریم کا فائدہ دیتا ہے، اور کہا ہے : بلاشبہ اسے مذکر لایا گیا ہے، کیونکہ یہ مذکر جانور کی طرف لوٹ رہی ہے، کیونکہ مذکر کے لئے دودھ شمار کیا گیا ہے، اسی لئے حضور نبی مکرم ﷺ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ نر کا دودھ حرمت ثابت کردیتا ہے جس وقت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ابو القعیس کے بھائی افلح کی حدیث میں اس کا انکار کیا فللمرأۃ السقی وللرجل اللقاح (پس عورت کے لئے سیراب ہونا ہے اور مرد کے لئے مادہ منویہ ڈالنا ہے) پس اس میں ان دونوں کے درمیان اشتراک جاری ہے۔ اور لبن فحل کی تحریم کے بارے بحث سورة النساء میں گزر چکی ہے۔ والحمدللہ۔ مسئلہ نمبر
5
: قولہ تعالیٰ : من بین فرث ودم لمنا خالصا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ نکال کر اپنی عظیم قدرت پر آگاہ فرمایا ہے۔ اور الفرث : وہ گوبر ہے جو اوجھ کی طرف اتر آتا ہے پس جب وہ خارج ہوجائے تو اسے فرث نہیں کہا جاتا ہے : أفرثت الکرش جب تو اسے نکال دے جو کچھ اس میں ہے۔ اور اس کا معنی ہے کہ طعام (چارے) میں سے کچھ وہ ہوتا ہے جو اوجھ میں ہوتا ہے اور اس سے کچھ خون بن جاتا ہے، پھر دودھ خون سے خالص ہوجاتا ہے، پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ یہ دودھ اس کے اور خون کے درمیان سے رگوں سے نکلتا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : بیشک جانور چارہ کھاتے ہیں اور جب وہ اس کی اوجھ میں قرار پکڑ جائے تو وہ اسے پکا دیتی ہے پس اس کا نچلا حصہ گوبر ہے، اس کا درمیانہ حصہ دودھ، اور اس کا اوپر والا حصہ خون ہوتا ہے، اور جگر اور کلیجہ کو ان اصناف پر غالب اور مسلط کیا گیا ہے، پس وہ خون کو تقسیم کرتا ہے، اسے الگ کرتا ہے اور اسے رگوں میں چلاتا ہے، اور وہ دودھ کو کھیری میں پہنچاتا ہے۔ اور گوبر اسی طرح باقی رہ جاتا ہے جیسا کہ وہ اوجھ میں تھا ؛ حکمۃ بالغۃ فما تغن النذر۔ (القمر) ( خبریں) سراسر حکمت ہیں پس ڈرنے والوں نے کوئی فائدہ نہ پہنچایا) خالصا مراد یہ ہے کہ وہ اسے خون کی سرخی اور گوبر کی گندگی سے پاک صاف کردیتا ہے حالانکہ اس نے دونوں کو ایک برتن میں جمع کر رکھا ہے۔ اور ابن بحر نے کہا ہے : خالصا بیاضہ اس کی سفیدی کو خالص کرتا ہے۔ نابغہ نے کہا ہے : بخالصۃ الأردان خضر المناکب مراد آستینوں کی سفیدی ہے۔ اور یہ قدرت حاصل نہیں ہوسکتی مگر اسے ہی جو ہر شے میں مصلحت اور فوائد قائم رکھنے والا ہو۔ مسئلہ نمبر
6
: نقاش نے کہا ہے : اس میں اس پر دلیل موجود ہے کہ منی نجس نہیں ہے، اور یہ ان کے سوا کئی دوسروں نے بھی کہا ہے اور استدلال کرتے ہوئے کہا ہے : جس طرح دودھ گوبر اور خون کے درمیان سے نکلتا ہے اور وہ لذیذ اور خالص ہوتا ہے اسی طرح یہ جائز ہے کہ پیشاب کے راستے سے نکلنے کے باوجود طاہر اور پاک ہو۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : بیشک یہ بہت بڑی جہالت ہے اور انتہائی شنیع عمل میں شروع ہوتا ہے، دودھ طاہر کے بارے میں تو اس نعمت و احسان ہونے کی خبر آئی ہے جو قدرت سے صادر ہوتا ہے تاکہ وہ عبرت ہوجائے، پس یہ سب خلوص اور لذت کے وصف کا تقاضا کرتا ہے اور منی اس حالت میں نہیں ہے کہ اسے اس کے ساتھ ملایا جائے یا اس پر قیاس کیا جائے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس کے معارض آتا ہے اگر یہ کہہ دیا جائے کہ کون سا احسان اس منی کے نکلنے سے عظیم تر اور بلند ہے جس سے معززومکرم انسان پیدا ہوتا ہے، تحقیق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یخرج من بین الصلب والترآئب۔ (الطارق) (جو (مردو زن کی) پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے) اور فرمایا : واللہ جعل لکم من انفسکم ازواجا وجعل لکم من ازواجکم بنین وحفدۃ (النحل :
72
) (اور اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمائیں تمہارے لئے تمہاری جنس سے عورتیں اور پیدا فرمائے تمہارے لئے تمہاری بیویں سے بیٹے اور پوتے) ۔ اور یہ احسان کی عنایت اور انتہا ہے، پھر اگر کہا جائے : بیشک یہ پیشاب کے راستے نکلنے کے سبب ناپاک اور پلید ہوجاتی ہے، تو ہم کہیں گے ؛ یہ وہی ہے جس کا ہم نے ارادہ کیا ہے۔ پس نجاست ایک امر عارض ہے اور اس کی اصل پاک اور طاہر ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک اس کے نکلنے کا راستہ پیشاب کے راستہ کے سوا ہے اور خاص کر عورت میں، کیونکہ اس میں ذکر کو داخل کرنے کا راستہ اور بچے کا راستہ پیشاب کے راستہ کے سوا ہے جیسا کہ علماء نے کہا ہے۔ اور سورة البقرہ میں یہ پہلے گزر چکا ہے۔ پھر اگر کہا جائے : چونکہ اس کی اصل خون ہے اور وہ ناپاک اور نجس ہے، تو ہم کہیں گے : یہ اعتراض کستوری کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے، کیونکہ اس کی اصل خون ہے اور وہ پاک اور طاہر ہے۔ اور جنہوں نے اس کی طہارت کا قول کیا ہے وہ امام شافعی، امام احمد، اسحاق اور ابو ثور وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ ہیں، اس کی وجہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث ہے، انہوں نے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے اپنے ناخن کے ساتھ اسے کھرچ ڈالتی تھی درآنحالیکہ وہ خشک ہوتی۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : پس اگر وہ نہ بھی کھرچی جاسکے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اپنے کپڑے سے منی کھرچ ڈالتے تھے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : وہ نخامہ (ناک سے بہنے والا مادہ) کی مثل ہے تو اسے اذخر (گھاس) کے ساتھ پھیلالے اور پھر پکڑے کے ساتھ اسے صاف کرلے، پونچھ ڈالے۔ پھر اگر یہ کہا جائے : تحقیق حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی دھو ڈالتی تھی پھر آپ اسی کپڑے میں نماز کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور میں اس میں دھونے کے اثر (اور نشان) دیکھ رہی ہوتی تھی۔ تو ہم کہیں گے : اس میں یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ آپ اسے گندگی سمجھ کر دھو ڈالتی تھیں جیسا کہ دیگر وہ اشیاء جو کپڑے سے زائل کی جاتی ہیں نہ کہ نجاست کی وجہ سے، اور اس طرح ان احادیث کے درمیان تطبیق ہوسکتی ہے۔ واللہ اعلم۔ امام مالک (رح)، ان کے اصحاب، اور امام اور زاعی (رح) نے کہا ہے : وہ نجس اور پلید ہے۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : کپڑے سے احتلام کو دھونا امر واجب ہے اور ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے۔ اور یہی علمائے کوفہ کو بھی قول ہے اور حضرت عمر بن خطاب، حضرت ابن مسعود اور حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت کی جاتی ہے کہ وہ اسے اپنے کپڑوں سے دھوتے تھے۔ اور اس میں حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے اختلاف کیا گیا ہے۔ منی کی نجاست اور اس کی طہارت کے بارے میں انہیں دو قولوں پر تابعین بھی ہیں۔ مسئلہ نمبر
7
: اس آیت میں اس پر دلیل موجود ہے کہ دودھ سے پینے وغیرہ کا نفع اٹھانا جائز ہے، لیکن جہاں تک مردار کے دودھ کا تعلق ہے تو اس سے انتفاع جائز نہیں، کیونکہ وہ پاک مائع ہے جو ناپاک ترین میں پڑی ہوئی ہے، اور وہ اس طرح کہ مردار کی کھیری نجس اور ناپاک ہے اور دودھ پاک ہے پس جب اسے دوھیا گیا تو وہ اسی طرح ہوگیا گویا اسے ناپاک برتن طاہر ہے زندہ ہو یا مردہ تو وہ طاہر ہے۔ اور جنہوں نے کہا ہے : انسان مرنے کے سبب نجس ہوجاتا ہے تو ان کے نزدیک وہ نجس ہے۔ دونوں قولوں کے مطابق حرمت (رضاعت) ثابت ہوجاتی ہے ؛ کیونکہ بچہ اس سے اسی طرح غذا حاصل کرتا ہے جیسے زندہ کے دودھ سے غذا حاصل کرتا ہے اور وہ اس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” رضاع وہ ہے جو گوشت پیدا کرے اور ہڈیوں کو بڑھائے “۔ اور آپ نے اس میں کوئی تخصیص نہیں کی) ، تفصیل سورة النساء میں گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر
8
: قولہ تعالیٰ : سآیغا للشربین یعنی لذیذ، خوش ذائقہ اور پینے والوں کے لئے اتنا آسان اور سکون بخش کہ پیتے وقت گلے میں ذرا ٹکتا نہیں۔ کہا جاتا ہے : ساغ الشراب یسوغ سوغا یعنی جس کا حلق میں داخل ہوناآسان اور سہل ہو، اور أساغہ شار بہ (اس نے اسے پینے والے کے لئے آسان بنا دیا) ، اور سغتہ أنا أسیغہ وأسوغہ، یہ متعدی بھی ہوتا ہے اور غیر متعدی بھی، اور عمدہ أسغتہ إساغۃ ہے کہا جاتا ہے : أسغ لی غصتی یعنی مجھے مہلت دے اور میرے لئے جلدی نہ کر اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یتجرعہ ولا یکاد یسیغہ (ابراہیم :
17
) (وہ بمشکل ایک ایک گھونٹ بھرے گا اور حلق سے نیچے نہ اتار سکے گا۔ اور السوغ (دین کے کسرہ کے ساتھ) وہ جس کے ساتھ تیرا غصہ اتر جائے۔ کہا جاتا ہے : الماء سواغ الغصص (پانی غصے کو ٹھنڈا کردینے والا ہے) اور اسی سے کمیت کا قول ہے : فکانت سواغا ان جئزت بغمۃ (پس یہ حلق کے پھندے کو دور کرنے والا شے ہے اگر اسے غصہ کے ساتھ پھندا لگ جائے) اور روایت ہے کہ دودھ کے ساتھ کبھی بھی کسی کا گلا نہیں گھٹا، اور یہ حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے۔ مسئلہ نمبر
9
: اس آیت میں میٹھی شے کے استعمال اور لذیذ کھانوں کے تناول کرنے پر لیل موجود ہے، اور یہ نہیں کہا جائے گا : بیشک یہ زہد کو ختم کردیتا ہے اور اسے دور کردیتا ہے، لیکن جب جزوی طور پر ہو اور بغیر اسراف اور کثرت کے ہو۔ یہ معنی سورة المائدہ وغیرہ میں پہلے گزر چکا ہے۔ اور صحیح روایت میں ہے کہ حضرت انس ؓ نے بیان کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے پیالے کے ساتھ یہ تمام مشروبات پلائے ہیں شہد، نبیذ، دودھ اور پانی۔ اور بعض قراء نے فالوذج (آٹے، پانی اور شہد سے بنا ہوا حلوہ) کھانے اور کھانے کے ساتھ دودھ پینے کو مکروہ قرار دیا ہے، اور عام علماء نے اسے مباح قرار دیا ہے۔ اور حسن سے روایت کی گئی ہے کہ وہ ایک دستر خوان پر تھے اور ان کے ساتھ مالک بن دینار بھی تھے، پس فالوذج لایا گیا تو انہوں نے اسے کھانے سے انکار کردیا تو حسن نے انہیں کہا : کھاؤ ! کیونکہ تم پر ٹھنڈے پانی میں اس سے زیادہ محاسبہ ہے۔ مسئلہ نمبر
10
: ابو داؤد وغیرہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دودھ لایا گیا تو آپ نے اسے نوش فرمایا، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی کھانا کھانے لگے تو اسے چاہئے کہ یہ کہے : اللھم بارک لنا فیہ وأطعنا خیرا منہ (اے اللہ ! ہمارے لئے اسمیں برکت عطا فرما اور ہمیں اس سے بہتر کھلا) اور جب دودھ پلایا جائے تو یہ کہنا چاہئے اللھم بارک لنا فیہ وزدنا منہ (اے اللہ ! ہمارے لئے اس میں برکھ رکھ دے اور ہمیں اس سے زیادہ عطا فرما) کیونکہ دودھ کے سوا کوئی شے نہیں ہے جسے کھانے پینے کا بدل بنایا جاسکے “۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : ایسا کیے نہیں ہوسکتا جب کہ یہ وہ قوت اور طاقت ہے جو مفاسد سے خالی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی اجسام مضبوط اور طاقتور بنتے ہیں۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) کیلئے اس امت کے ہدایت پر ہونے کی علامت قرار دیا ہے جو تمام امتوں سے بہترین امت ہے، پس صحیح میں فرمایا : ” میرے پاس حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) ایک برتن میں شراب اور ایک برتن میں دودھ لے کر آئے تو میں نے دودھ کو پسند کیا تو جبرائیل امین (علیہ السلام) نے مجھے کہا، آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے بلاشبہ اگر آپ شراب کو پسند کرلیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی “۔ پھر دعا میں اس کی زیادتی کی التجاء یہ خوشحالی، خیرات کے ظہور، اور برکتوں کے کثیر ہونے کی علامت ہے، پس یہ سراپا برکت ہی برکت ہے۔
Top