Al-Qurtubi - Al-Kahf : 84
اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ سَبَبًاۙ
اِنَّا مَكَّنَّا : بیشک ہم نے قدرت دی لَهٗ : اس کو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دیا مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے سَبَبًا : سامان
ہم نے اس کو زمین میں بڑی دسترس دی تھی اور ہر طرح کا سامان عطا کیا تھا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واتینہ من کل شیء سببا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس کا مطلب ہے ہر چیز کا علم عطا فرمایا جس کام کا ارادہ کرتے علم اس کا سبب بنتا۔ حسن نے کہا : جہاں کا ارادہ کرتے وہاں پہنچنا مراد ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کا مطلب ہے ہر وہ چیز بخشی جس کے ساتھ مخلوق کو ضرورت ہوتی ہے۔ بعض نھے فرمایا : ہر وہ چیز بخشی جس کے ساتھ بادشاہ مدد حاصل کرتے ہیں، شہروں کی فتح، دشمنوں پر غلبہ وغیرہ۔ السبب کا اصل معنی رسی ہے پھر استعارۃً ہر اس چیز کے لیے استعمال کیا گیا جس کے ذریعے کسی چیز تک پہنچا جاتا ہے۔ فاتبع سببا۔ ابن عامر، عاصم، حمزہ اور کسائی نے فاتبع ہمزہ قطعی کے ساتھ پڑھا ہے۔ اہل مدینہ اور ابو عمرو نے فاتبع سببا ہمز وصلی کے ساتھ پڑھا ہے، یعنی جو اسبباب اسے دیے گئے تھے اس کو استعمال کیا۔ اخفش نے کہا : تبعتہ واتبعتہ ایک معنی میں ہیں جیسے دفتہ اور اردفتہ ایک معنی میں ہیں، اسی سے یہ ارشاد بھی ہے : الا من خطف الخطفۃ فاتبعہ شھاب ثاقب۔ (الصافات) اسی سے کلام میں الاتباع ہے جیسے حسن بسن اور قبیح شقیح۔ ابو عبیدہ نے اہل کوفہ کی قرأت کو پسند کیا فرمایا : کیونکہ یہ سیر (چلنے) سے ہے۔ ابو عبیدہ اور اصمعی نے حکایت کیا ہے کہ کہا جاتا ہے : تبعہ واتبعہ جب کوئی کسی کے پیچھے چلے اور اس کو پہنچ نہ پائے اور ابو عبیدہ نے کہا : اس کی مثل ہے : فاتبعوھم مشرقین۔ (الشعرائ) نحاس نے کہا : یہ تفریق ہے اگرچہ اس کو اصمعی نے بیان کیا ہے مگر بغیر علت اور دلیل کے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاتبعوھم مشرقین۔ (الشعرائ) حدیث میں نہیں ہے کہ وہ ان کو ملے تھے۔ حدیث میں جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھی دریا سے نکل گئے اور فرعون اور اس کے ساتھی دریا میں داخل ہوئے تو دریا ان کے اوپر مل گیا۔ اس میں حق یہ ہے کہ تبع، اتبع اور اتبع سب لغات ہم معنی ہیں، یہ السیر کے معنی میں ہیں۔ اس کے ساتھ لاحق ہونا ہے اور لاحق نہ ہونا دونوں جائز ہیں۔ حتیٰ اذا بلغ مغرب الشمس وجدھا تغرب فی عین حمئۃ ابن عاصم، حمزہ اور کسائی نے حامیۃ پڑھا ہے، جس کا معنی ہے سیاہ مٹی۔ تو کہتا ہے : حمات البئرحما (میم کی تسکین کے ساتھ) تو اس کا معنی ہے کنویں کی مٹی زیادہ ہوگئی اور حامیۃ بھی جائز ہے۔ اور یہ الحماۃ سے ہوگا ہمزہ میں تخفیف کی گئی اور یاء سے بدلا گیا ہوگا۔ دونوں قرأتوں کو کبھی جمع کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے : وہ مٹی گرم تھی اور سیاہی والی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو نے کہا (2): نبی کریم ﷺ نے سورج کی طرف دیکھا جب وہ غروب ہو رہا تھا فرمایا : نار اللہ الحامہ لولا یزعھا من امر اللہ لا حرقت ما علی الارض (اللہ تعالیٰ کی گرم آگ سے، اگر اسے اللہ کا امر نہ روکتا تو یہ جو کچھ زمین پر ہے اسے جلا دیتی) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ابی نے مجھے یہ اسی طرح پڑھایا جس طرح انہیں نبی پاک ﷺ نے پڑھایا تھا۔ فی عین حمئۃ (1) ۔ اور حضرت معاویہ نے کہا : یہ حامیۃ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص نے کہا : میں امیرالمومنین کے ساتھ تھا پس انہوں نے کعب کو اپنا حکم بنایا انہوں نے کہا : اے کعب ! تم یہ تورات میں کیسے پاتے ہو ؟ انہوں نے کہا : میں اسے پاتا ہوں کہ یہ سیاہ چشمے میں غروب ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس کی موافقت کی۔ شاعر نے کہا : وہ تبع الیمانی ہے۔ قد کان ذوالقرنین قبلی مسلما ملکا تدین لہ الملوک وتسجد (2) بلغ المغارب والمشارق یبتغی اسباب امر من حکیم مرشد فریٰ مغیب الشمس عند غروبھا فی عین ذی خلب وثاط حرمد الخلب سے مراد مٹی ہے۔ الثاط سے مراد سیاہ مٹی ہے۔ الحرمد سے مراد بھی سیاہ ہے۔ قفال نے کہا : بعض علماء نے فرمایا اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ سورج کے مغرب و مشرق تک پہنچا حتیٰ کہ اس نے اس کے جرم کو چھوا کیونکہ وہ آسمان کے ساتھ زمین کے اردگرد گھومتا ہے بغیر اس کے کہ وہ زمین سے ملے، یہ اس سے ببہت بڑا ہے کہ وہ زمین کے چشموں میں سے کسی چشمہ میں داخل ہو بلکہ یہ زمین سے کئی گنا بڑا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ مغرب کی جہت کی آخری آبادی اور مشرق کی جہت کی آخری آبادی۔ پس اسے آنکھ سے ایسے نظر آیا کہ وہ سیاہ چشمہ میں داخل ہو رہا ہے جیسے ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ زمین میں داخل ہو رہا ہے، اسی وجہ سے فرمایا : وجدھا تطلع علی قوم لم نجعل لھم نجعل لھم من دونھا ستراً ۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ ان پر طلوع ہوتا تھا تو وہ انہیں چھوتا تھا اور ان سے ملا ہوتا تھا بلکہ یہ مراد ہے کہ پہلے ان پر طلوع ہوتا تھا۔ قتبی نے کہا : یہ بھی جائز ہے کہ یہ چشمہ سمندر سے ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ سورج اس کے پیچھے یا اس کے ساتھ یا اس کے پاس غروب ہوتا ہو، پس صفت کے حرف کو موصوف کے قائم مقام رکھا گیا ہو۔ واللہ اعلم۔ ووجد عندھا قوماً یعنی اس چشمہ کے پاس یا چشمہ کی انتہا کے پاس۔ یہ اہل جابرس تھے انہیں سریانی زبان میں جر جیسا کہا جاتا ہے، اس چشمہ پر قوم ثمود کی نسل سے کچھ لوگ موجود تھے یہ ان کے باقی ماندہ لوگ تھے جو حضرت صالح (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے۔ سہیلی نے ذکر کیا ہے : وہب بن منبہ نے کہا ذوالقرنین روم کی بوڑھیوں میں سے ایک بوڑھی کا بیٹا تھا جس کی ذوالقرنین کے علاوہ کوئی اولاد نہ تھی، اس کا نام اسکندر تھا جب وہ بالغ ہوا تو وہ نیک بندہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے ذوالقرنین کے علاوہ کوئی اولاد نہ تھی، اس کا نام اسکندر تھا جب وہ بالغ ہوا تو وہ نیک بندہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے ذوالقرنین ! میں تجھے زمین کی امتوں کی طرف بھیجنے والا ہوں، ان امتوں کی زبانیں مختلف ہیں وہ ساری زمین کی امتیں ہیں اور وہ کئی اقسام پر ہیں۔ دو امتیں ہیں جس کے درمیان ساری زمین کا طول ہے۔ دو امتیں ایسی ہیں جن کے درمیان ساری زمین کا عرض ہے اور کچھ امتیں زمین کے وسط میں ہیں ان میں سے جن، انس اور یاج و ماجوج ہیں اور وہ دو امتیں جن کے درمیان زمین کا طول ہے ان میں سے ایک امت سورج کے غروب ہونے کی جگہ کے پاس ہے اسے ناسک کہا جاتا ہے اور دوسری امت سورج کے طلوع ہونے کی جگہ کے پاس ہے اسے منسلک کہا جاتا ہے۔ اور وہ دو امتیں جن کے درمیان زمین کا عرض ہے ان میں سے ایک زمین کے دائیں قطر میں ہے اسے باویل کہا جاتا ہے اور دوسری امت زمین کے بائیں قطر میں ہے اسے تاویل کہا جاتا ہے۔ ذوالقرنین نے کہا : اے اللہ ! تو نے مجھے ایک عظیم کام کی طرف بلایا ہے جس پر صرف تو ہی قادر ہے، تو مجھے ان امتوں کے بارے بتا کہ میں کس قوت کے ساتھ ان پر زیادتی کروں اور کس صبر کے ساتھ میں انہیں برداشت کروں اور کس زبان کے ساتھ میں ان سے کلام کروں، میں کیسے ان کی زبان سمجھوں گا جب کہ میرے پاس قوت نہیں ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں تجھ پر بوجھ ڈال رہا ہوں اس کے ساتھ میں تجھے کامیاب کروں گا تیرا سینہ تیرے لیے کھول دوں گا۔ تو ہر چیز کو سنے گا اور تیرے لیے تیرے فہم کو پختہ کروں گا تو ہر چیز کو سمجھ لے گا اور تجھ میں ہیبت دوں گا کوئی چیز تجھے نہیں ڈرائے گی اور میں تیرے لیے نور اور ظلمت مسخر کروں گا، پس وہ تیرے لشکروں میں سے لشکر ہوں گے، نور تیرے آگے سے راہنمائی کرے گا اور پیچھے سے تاریکی تیری حفاظت کرے گی۔ جب اسے یہ کہا گیا تو وہ اپنے متعین کو ساتھ لیکر چلا پس پہلے وہ اس امت کی طرف چلا جو سورج کے غروب ہونے کی جگہ کے پاس تھی کیونکہ وہ قریب ترین امت تھی اور وہ ناسک امتتھی وہ اتنے زیادہ تھے کہ ان کو شمار نہیں کرسکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ اور ایسی قوت تھی کہ اس کی طاقت نہیں رکھتا مگر اللہ اور ان کی مختلف زبانیں تھیں اور مختلف خواہشات۔ تو ظلمت کے ساتھ ان پر حملہ کیا ان کے اردگرد تاریکی کے تین لشکر لگائے جنہوں نے انہیں ہر طرف سے گھیر لیا حتیٰ کہ تاریک کی نے انہیں ایک مکان میں جمع کردیا پھر وہ ان پرنور کے ساتھ داخل ہوا پھر انہیں اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت کی طرف بلایا۔ بعض ان میں سے ایمان لے آئے اور بعض نے انکار کیا، پھر منکرین پر ظلمت کو داخل کیا جس نے انہیں ہر طرف سے گھیر لیا حتیٰ کہ وہ ان کے مونہوں، ناکوں، آنکھوں اور گھروں میں داخل ہوگئی اور انہیں ہر طرف سے گھیر لیا پس وہ حیران ہوگئے اور گھومنے لگے اور ہلاکت کا خوف کرنے لگے۔ پس وہ ایک آواز کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر ایمان لے آئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان سے تاریکی ختم کردی اور انہیں سختی سے پکڑ لیا اور وہ دعوت الٰہیہ میں داخل ہوگئے۔ پس انہوں نے اہل مغرب سے ایک لشکر بنایا اور انہیں ایک لشکر بنایا پھر وہ ان کی قیادت کرتا ہوا چلا تاریکی ان کے پیچھے چلتی تھی اور پیچھے سے حفاظت کرتی تھی، نور آگے سے قیادت کرتا تھا اور راہنمائی کرتا تھا پھر وہ چلا زمین کی دائیں جانب کی طرف وہ اس امت کا ارادہ کرتا تھا جو زمین کی دائیں جانب تھی اور وہ امت ہاویل تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ، دل، عقل اور فکر کو مسخر کردیا تھا وہ جب بھی کوئی کام کرتا تھا تو غلطی نہیں کرتا تھا جب وہ کسی حوض یادر یا پر آتے تھے تو چھوٹی چھوٹی تختیوں سے جوتیوں کی مثل کشتیاں بناتا پھر انہیں ایک ساعت میں منظم کردیتا پھر جتنے لوگ ساتھ ہوتے تھے ان میں سوار کردیتا جب وہ دریائوں اور انہار کو طے کرلیتا تو ان کشتیوں کو توڑ دیتا اور ہر شخص کو ایک تختہ دے دیتا پس وہ ان کو اٹھانے پر کوئی بوجھ محسوس نہ کرتا، پس وہ ہاویل تک پہنچا اس نے ان کے ساتھ بھی اسی طرح کیا جس طرح اس نے ناسک قوم کے ساتھ کیا تھا وہ ایمان لے آئے پھر ان سے فارغ ہوا تو لشکرزمین کی دوسری طرف چلا حتیٰ کہ منسک امت تک پہنچا جو سورج کے طلوع ہونے کی جگہ کے پاس تھی پھر اس نے اس میں بھی عملل کیا اور ان سے اسی طرح لشکر تیار کیا جس طرح پہلی امت میں کیا تھا۔ پھر وہ زمین کی بائیں جانب کی طرف پلٹا وہ تاویل قوم کا ارادہ کرتا تھا یہ وہ امت تھی جو ہاویل کے مقابل تھی ان کے درمیان زمین کا عرض تھا۔ اس نے اس میں بھی ایسا ہی جیسے پہلی قوم میں کیا تھا۔ پھر ان امتوں کی طرف پلٹا جو زمین کے وسط میں تھیں یعنی جن، انس اور یاجوج ماجوج جب وہ راستہ میں تھا جو مشرقی جانب ترکوں کے اختتام سے ملی ہوئی جگہ ہے تو اسے انسانوں کے ایک نیک گروہ نے کہا : اے ذوالقرنین ! ان دو پہاڑوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے جو بیشمار ہے ان میں انسان سے مشابہت نہیں ہے وہ جانوروں کے مشابہ ہیں، گھاس کھاتے ہیں اور جانوروں اور وحشیوں کو اس طرح چیرتے پھاڑتے ہیں جس طرح درندے چیرتے پھاڑتے ہیں وہ زمین کے حشرات سانپ، بچھو، چھپکلی اور ہری ذی روح کو کھاتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کوئی مخلوق ایسی نہیں جو سال میں اتنی بڑھتی ہو جتنا کہ وہ بڑھتے ہیں۔ اگر وقت زیادہ گزر گیا تو وہ زمین کو بھر دیں گے اور لوگوں کو زمین سے نکال دیں گے کیا ہم آپ کے لیے خراج مقرر کریں، اس بناء پر تو ہمارے اور ان کے درمیان دیوار بنا دے، پھر حدیث مکمل ذکر کی۔ آئندہ یاجوج و ماجوج اور ترک کا ذکر آئے گا کہ وہ ان کی ایک قوم ہے اور وہ بیان کفایت کرے گا۔
Top