Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 15
اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَسْتَهْزِئُ : مذاق کرے گا / مذاق کرتا ہے بِهِمْ : ساتھ ان کے وَ : اور يَمُدُّھُمْ : وہ ڈھیل دے رہا ہے ان کو فِىْ طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی میں يَعْمَھُوْنَ : وہ بھٹک رہے ہیں/ اندھے بنے پھرتے ہیں
اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے، وہ ان کی رسی دراز کیے جاتا ہے، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں
[ اَللّٰهُ يَسْتَهْزِئُ :: اللہ مذاق کرتا ہے ] [ بِهِمْ : ان سے ] [ وَ : اس حال میں کہ ] [ يَمُدُّھُمْ : وہ ڈھیل دیتا ہے ان کو ] [ فِىْ طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی میں ] [ يَعْمَھُوْنَ : وہ لوگ بھٹکتے ہیں ] م د د [ مددا : (ن) مدد دینا ] [ مدا : دراز کرنا۔ مہلت دینا [ اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ : کیا آپ نے دیکھا نہیں اپنے رب کو کہ اس نے کیسے دراز کیا سائے کو ] [ كَلَّا ۭ سَنَكْـتُبُ مَا يَقُوْلُ وَنَمُدُّ لَهٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا : ہم لکھ لیں گے جو وہ کہتا ہے اور ہم دراز کریں گے اس کے لیے عذاب جیسا کہ دراز کرنے کا حق ہے ] [ مددُ : مصدر کے علاوہ اسم ذات بھی ہے ۔ مدد ۔ [ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا : اور اگر ہم لے آئیں اس کے جیسا بطور مدد کے ] [ مدۃ : اسم ذات ہے معین عرصہ یعنی دراز کیا ہوا زمانہ ۔ مدت ۔ [ فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ : تو تم لوگ پورا کرو ان سے کیا ہوا وعدہ ان کی مدت تک ] [ مداد : اسم ذات ہے۔ روشنائی ۔ [ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ : اگر ہوتا سمندر روشنائی میرے رب کے فرمانوں کے لیے تو ختم ہوتا سمندر قبل اس کے کہ ختم ہوتے میرے رب کے فرمان ] [ ممدود : اسم المفعول ہے ۔ دراز کیا ہوا ۔ بڑھایا ہوا۔ [ وَّجَعَلْتُ لَهٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا : اور میں نے بنایا اس کے لیے بڑھایا ہوا مال ] [ لا تمد : فعل نہی ہے ۔ تو دراز مت کر ] [ لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ : تم ہرگز درازمت کرو اپنی دونوں آنکھوں کو یعنی آنکھ اٹھا کر بھی مت دیکھو جو ہم نے برتنے کے لیے دیا ] [ امدادا : (افعال) مدد کرنا [ اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ وَّبَنِيْنَ : اس نے مدد کی تمہاری چوپایوں سے اور بیٹوں سے ] [ ممد : اسم الفاعل ہے ۔ مدد کرنے والا۔ [ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ : کہ میں مدد کرنے والا ہوں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے ] [ تمدیدا : (تفعیل) ۔ کسی چیز کو پھیلانا ۔ [ ممدد : اسم المفعول ہے۔ پھیلایا ہوا ۔ [ فِيْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ : پھیلائے ہوئے ستون میں ] ط غ ی [ طغیا : حد سے گزرنا۔ سرکشی کرنا ۔ [ اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰي : آپ جائیں فرعون کی طرف بیشک اس نے سرکشی کی ] [ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى: بیشک انسان سرکشی کرتا ہے ] [ طاغ : اسم الفاعل ہے ۔ سرکشی کرنے والا۔ [ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ : بلکہ وہ لوگ سرکشی کرنے والی قوم ہیں ] [ لا تطغ : فعل نہی ہے ۔ تو سرکشی مت کر۔ حد سے تجاوز مت کر۔ [ اَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيْزَانِ : کہ تم لوگ حد سے تجاوز مت کرو ترازو میں یعنی تول میں ] [ طغیان : فعلان کے وزن پر اسم مبالغہ ہے۔ حد سے بہت زیادہ تجاوز ۔ بہت زیادہ سرکشی ۔ [ فَنَذَرُ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ : تو ہم چھوڑ دیتے ہیں ان لوگوں کو جو امید نہیں رکھتے ہماری ملاقات کی اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں ] [ طاغوت : سرکشی کا ذریعہ۔ واحد اور جمع دونوں کے لیے آتا ہے۔ [ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ : اور ہم نے بھیجا ہے ہر امت میں ایک رول کہ تم لوگ عبادت کرو اللہ کی اور تم لوگ بچو سرکشی کے ذریعوں سے ] [ اطغاء : (افعال) سرکشی پر اکسانا، ابھارنا۔ [ رَبَّنَا مَآ اَطْغَيْتُهٗ وَلٰكِنْ كَانَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ : اے ہمارے رب میں نے سرکشی پر نہیں اکسایا اس کو بلکہ وہ تھا دور کی گمراہی میں ] ع م ھ [ عمھا : (ف ۔ س) عمھا ۔ فقدان بصیرت کی وجہ سے بھٹکنا ۔ حیران ہونا۔ طغیان کی مثال میں دی گئی آیت نمبر 10، 11 ۔] ترکیب : لفظ اللہ مبتدا ہے اوريَسْتَهْزِئُ بِهِمْ جملہ فعلیہ اس کی خبر ہے۔ يَمُدُّھُمْ جملہ فعلیہ ہے يَعْمَھُوْنَ بھی جملہ فعلیہ ہے ۔ لیکن یہ گزشتہ دونوں جملوں کے مفعول ھم کا حال ہے۔ فِىْ طُغْيَانِهِمْ کو یمدھم کا متعلق فعل بھی کہا جاسکتا ہے اور يَعْمَھُوْنَ کا بھی ۔ کیونکہ دونوں کی گنجائش موجود ہے اس لیے آیت دونوں مفہوم درست تسلیم کیے جائیں گے۔ نوٹ 1: بعض جملوں میں فاعل یا مفعول کی حالت کا بیان ہوتا ہے ۔ اسے حال کہتے ہیں جیسے جاء زید ضاحکا ۔ (زید ہنستے ہوئے آیا) اس میں ضاحکا زید یعنی فاعل کا حال ہے۔ حال کے لیے کبھی پورا جملہ آتا ہے جیسے آیت زیر مطالعہ میں یعمھون ہے۔ اور کبھی کوئی اسم آتا ہے ۔ جیسے ضاحکا ہے۔ کوئی اسم جب حال کے طور پر آتا ہے تو وہ ہمیشہ حالت نصب میں ہوتا ہے۔ نوٹ 2: آیت زیر مطالعہ کی ترکیب میں بتایا گیا ہے کہ فِىْ طُغْيَانِهِمْ کو يَمُدُّھُمْ اور يَعْمَھُوْنَ ، دونوں سے متعلق ماننے کی گنجائش ہے۔ اس سے مفہوم میں جو فرق پڑتا ہے اسے سمجھ لیں۔ فی طغیانھم کو اگر یمدھم کے ساتھ مانیں تو مطلب ہوگا کہ اللہ ان کو ان کی سرکشی میں ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ بھٹکتے رہیں اور اگر اسے ہم یعمھون کے ساتھ مانیں تو مطلب ہوگا کہ اللہ ان کو ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔ اب اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مذکورہ بالا ایک فرق کے باوجود اصل بات میں کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا پھر بھی ہم نے یہ وضاحت ایک مقصد سے کی ہے اس مقام پر یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ گرامر کی رو سے قرآن مجید کی کچھ آیات کے ایک سے زیادہ مطلب ممکن ہوتے ہیں ایسی صورت میں ہم کسی ایک مطلب کو ترجیح دے سکتے ہیں اور اس کے دلائل بیان کرسکتے ہیں لیکن دوسرے مطلب کو غلط قرار دینا درست نہیں ہے علم میں اضافہ کے ساتھ آپ کے ذہن میں وسعت آنی چاہیے ورنہ علم ضائع ہوجائے گا۔ نوٹ 3: لفظ عمۃ اور عمی کا فرق سمجھ لیں دونوں کا بنیادی لغوی مفہوم ہے آنکھوں کا بینائی سے محروم ہونا۔ لیکن عمی زیادہ تر ظاہری آنکھوں کے نابینا ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے اسی لیے اندھے کو اعمی کہتے ہیں ۔ اس کی جمع عمی ہے جبکہ دل کی آنکھوں کے نابینا ہونے کے لیے زیادہ تر عمہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور بصیرت کے فقدان کا لازمی نتیجہ چونکہ حیرانی اور سرگردانی ہے اس لیے عمہ ان معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
Top