Al-Qurtubi - Al-Baqara : 58
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ١ؕ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاِذْ قُلْنَا : اور جب ہم نے کہا ادْخُلُوْا : تم داخل ہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : بستی فَكُلُوْا : پھر کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ شِئْتُمْ : جہاں سے تم چاہو رَغَدًا : با فراغت وَادْخُلُوْا : اور تم داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : بخش دے نَغْفِرْ : ہم بخش دیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطَايَاكُمْ : تمہاری خطائیں وَسَنَزِيْدُ : اور ہم عنقریب زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِیْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور جب ہم نے ان سے کہا کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ اور اس میں جہاں سے چاہو خوب کھاؤ (پیو) اور (دیکھنا) دروازے میں داخل ہونا تو سجدہ کرنا اور حطۃ کہنا ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے
آیت نمبر 58 اس میں نو مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذ قلنا ادخلوا ھذہ القریۃ، قلنا سے الف کو حذف کیا گیا ہے اس کے سکون اور اس کے بعد دال کے سکون کی وجہ سے۔ اور وہ الف جس کے ساتھ ابتدا کی گئی ہے دال سے پہلے وہ الف وصل ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ھذہ القریۃ یعنی شہر۔ شہر کو قریۃ اس لئے کہتے ہیں کیونکہ اس میں اجتماع ہوتا ہے۔ اسی سے ہے : قریت الماء فی الحوض میں نے حوض میں پانی جمع کیا اس پانی کا نام قرئ ہوتا ہے، اسی طرح جس کے ساتھ مہمان نوازی کی جائے اسے قرئ کہتے ہیں۔ یہ جوہری کا قول ہے۔ المقراۃ، حوض کے لئے بولا جاتا ہے۔ القری، پانی کی گزرگاہ کے لئے اور القرا پیٹھ کے لئے۔ اسی سے یہ مصرعہ ہے : لاحق بطنٍ بقرأ سمین المقاری : بڑے پیالے کہا۔ کہا : عظام المقاری ضیفھم لا یفزع المقاری کا واحد مقراۃ ہے۔ ان تمام الفاظ کا معنی جمع کرنا ہے۔ القریۃ (قاف کے کسرہ کے ساتھ) یمن کی لغت ہے۔ اس کی تعیین میں اختلاف ہے۔ جمہور علماء نے کہا : یہ بیت المقدس ہے۔ بعض نے کہا : بیت المقدس میں سے اریحا ہے۔ عمر بن شیبہ نے کہا : یہ بادشاہوں کی رہائش گاہ تھی (1) ۔ ابن کیسان نے کہا : شام کا شہر ہے۔ ضحاک نے کہا : الرملہ، اردن، فلسطین اور تدمر ہے۔ یہ دوسری نعمت ہے۔ ان کے لئے شہر میں داخل ہونا مباح کردیا اور ان سے تیہ کی سرگردانی ختم کردی۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فکلوا یہ امر اباحت کے لئے ہے۔ رغدًا کثیر اور واسع، یہ مصدر محذوف کی صفت ہے یعنی اکلاً رغداً ۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ رغدًا حال ہو جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ وہ زمین بڑی بابرکت اور زیادہ غلہ دینے والی تھی اس لئے فرمایا : رغداً (2) مسئلہ نمبر 4: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وادخلوا الباب سجدًا، باب کی جمع ابواب ہے اور اس کی جمع البوبۃ بھی بناتے ہیں۔ شاعر نے کہا : ھتاک اخبیتہ ولاج أبوبۃ یخلط بالبر منہ الجد واللینا اگر اسے مفرد ذکر کے تو پھر جائز نہیں۔ اس کی مثل نبی کریم ﷺ کا قول ہے : مرحباً بالقوم۔۔۔ او بالوفد۔۔۔ خبر خذایا ولا ندامیٰ (1) ۔۔۔۔ تبوبت بواباً یعنی میں نے دربان بنایا۔ ابواب مبوبۃ جیسے کہتے ہیں اصناف مصنفۃ۔۔۔ ھذا شیء من بابتک۔ یہ تمہارے لئے مناسب ہے۔ سجدہ کا معنی گزر چکا ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ الحمد للہ۔ وہ دروازہ جس سے انہیں داخل ہونے کا حکم دیا گیا تھا وہ بیت المقدس میں تھا۔ آج وہ باب حطہ کے نام سے مشہور ہے۔ مجاہد وغیرہ سے یہ مروی ہے۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد اس قبہ کا دروازہ ہے جس کی طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل نماز پڑھتے تھے۔ سجدًا حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس کا مطلب رکوع کی حالت میں جھکتے ہوئے۔ بعض نے فرمایا : اس کا معنی ہے : تواضع کرتے ہوئے، کوئی متعین ہیئت مراد نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقولوا اس کا عطف ادخلوا پر ہے۔ حطۃ ٌ جمہور کی قراءت مرفوع ہے اس بنا پر کہ مبتدا محذوف ہے۔ یعنی مسئلتنا حطۃ ٌ یا اس کا یہ اعراب حکایۃٌ ہے اور اخفش نے کہا : حطہ کو منصوب بھی پڑھا گیا ہے اس تقدیر پر احطط عنا ذنوبنا حطۃ ً (ہمارے گناہ معاف فرما دے۔ ) نحاس نے کہا : حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ انہیں کہا گیا کہ تم لا الہ الا اللہ کہو (2) ۔ ایک اور حدیث ان سے مروی ہے کہ انہیں کہا گیا : قولوا مغفرۃً نصب کی تفسیر یعنی قولوا شیئاً یحط ذنوبکم تم ایسی شے کہو جو تمہارے گناہ معاف کر دے۔ جس طرح کہا جاتا ہے : قل خیراً ۔ ائمہ قراء اس پر رفع ہی پڑھتے ہیں یہ لغت کے اعتبار سے اولیٰ ہے۔ اس کی وجہ وہ ہے جو عربوں سے بدل کر معنی میں حکایت کیا گیا ہے۔ احمد بن یحییٰ نے کہا : کہا جاتا ہے بدلتہ یعنی میں نے اسے تبدیل کیا اور میں نے اس کی شخصیت کو زائل نہیں کیا ابدلتہ یعنی میں نے اس شخص اور عین کو بدل دیا۔ جیسا کہ شاعر نے کہا : عذل الامیر للامیر المبدل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قال الذین لا یرجون لقأءنا ائت بقران غیر ھذأ او بدلہ (یونس :15) (اور کہنے لگتے ہیں وہ جو توقع نہیں رکھتے ہم سے ملنے کی کہ لے آئیے (دوسرا) قرآن اس (قرآن) کے علاوہ یا ردوبدل کر دیجئے ) ۔ حضرت ابن مسعود کی حدیث ہے، انہوں نے کہا حطۃ ٌ یہ رفع کی بنا پر تفسیر ہے۔ یہ تمام نحاس کے اقوال ہیں۔ حسن اور عکرمۃ نے کہا : حطۃ ٌ کا معنی حط ذنوبنا ہے۔ انہیں یہ کہے گا حکم دیا گیا لا الہ الا اللہ کہو تاکہ اس کی وجہ سے ان کے گناہ گر جائیں۔ ابن جبیر نے کہا : اس کا معنی استغفار ہے (3) ۔ ابان بن تغلب نے کہا : اس کا مطلب تو یہ ہے۔ شاعر نے کہا : فاز بالحطۃ التی جعل اللہ بھا ذنب عبدہ مغفوراً اس نے ایسی توبہ پائی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کے گناہوں کو معاف فرمایا۔ ابن الفارس نے “ الجمل ” میں کہا کہ حطۃ یہ ایسا کلمہ ہے جس کا بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔ اگر وہ یہ کہتے تو ان کے گناہ معاف ہوجاتے۔ جوہری نے بھی “ الصحاح ” میں یہی کہا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ احتمال ہے کہ انہیں بعینہ یہی لفظ کہنے کا مکلف کیا گیا ہو، حدیث سے بھی ظاہر ہے۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بنی اسرائیل کو کہا گیا : دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو (1) اور حطۃ ٌ کہو تمہارے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ تو انہوں نے اس حکم کو بدل ڈالا وہ دروازے سے اپنی سرینیں گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور انہوں نے کہا : حبۃٌ فی شعرۃ یعنی (جو میں نے دانہ ) ۔ یہ حدیث بخاری نے بھی نقل کی ہے۔ فرمایا : انہوں نے حکم کو بدل ڈالا۔ انہوں نے کہا : حطۃ حبۃ فی شعرۃ اور صحیحین کے علاوہ میں ہے : حنطۃ فی شعر۔ اور کہا گیا ہے : انہوں نے کہا : ھطا سمھاثا۔ یہ عبرانی لفظ ہے اس کی تفسیر سرخ گندم ہے۔ یہ ابن قتیبہ نے حکایت کیا ہے اور یہ ہر وی نے سدی اور مجاہد سے حکایت کیا ہے۔ ان کا مقصد ہے اس کے خلاف کرنا تھا جو اللہ نے انہیں حکم دیا تھا۔ پس انہوں نے نافرمانی کی، سرکشی کی اور استہزاء کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں عذاب کے ساتھ سزا دی۔ ابن زید نے کہا : یہ عذاب طاعون تھا ان کے ستر ہزار آدمی ہلاک ہوگئے تھے۔ روایت ہے کہ دروازہ چھوٹا بنایا گیا تھا تاکہ وہ جھکتے ہوئے داخل ہوں تو وہ اپنی سرینیں گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے۔ مسئلہ نمبر 6: بعض علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ منصوص علیہا اقوال کو شریعت میں تبدیل کرنا، اس سے خالی نہیں ہوگا کہ اس لفظ کا یا اس کے معنی کا مکلف بنایا گیا ہوگا۔ اگر اس لفظ کا مکلف بنایا گیا ہو تو اس کو تبدیل کرنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم کو تبدیل کرنے والے کی مذمت کی ہے، اور اگر معنی کا مکلف بنایا گیا ہو تو اس کو ایسی چیز سے تبدیل کرنا جائز ہوگا جو اس معنی کو ادا کرے، اسے ایسی چیز سے تبدیل کرنا جائز نہ ہوگا جو اس معنی سے ہی اسے خارج کردے۔ (2) علماء کا اس معنی میں اختلاف ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم سے حکایت کیا گیا ہے کہ عالم کے لئے خطاب کے مواقع پر حدیث بالمعنی کا نقل کرنا جائز ہے لیکن مکمل طور پر معنی کے ساتھ مطابقت ہو، یہ جمہور کا قول ہے، بہت سے علماء نے الفاظ کو بدلنے سے منع کیا ہے۔ ان میں سے ابن سیرین، قاسم بن محمد اور رجا بن حیوہ ہیں۔ مجاہد نے کہا : حدیث میں اگر تو چاہے تو کمی کر لیکن اس میں اضافہ نہ کر۔ حضرت مالک بن انس رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں تا اور یا میں بھی سختی کرتے تھے۔ اس بنا پر ائمہ حدیث کی ایک جماعت لفظ کو تبدیل کرنا بھی جائز قرار نہیں دیتی حتیٰ کہ وہ غلط سن لیتے تھے اور اس کو جانتے تھے لیکن اسے بدلتے نہیں تھے۔ ابو مجلز نے قیس بن عباد سے روایت کیا ہے، فرمایا : حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا : جس نے کوئی حدیث سنی پھر اس نے اسے اسی طرح بیان کیا جس طرح اس نے سنی تھی تو وہ سلامت رہا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو اور حضرت زید بن ارقم سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ اس طرح تقدیم وتاخیر، کمی بیشی میں اختلاف ہے کیونکہ بعض علماء معنی کا اعتبار کرتے ہیں بعض لفظ کا اعتبار کرتے ہیں بعض اس میں سختی کرتے ہیں اور لفظ کو نہیں چھوڑتے۔ یہ دین میں احوط، اتقی اور اولیٰ ہے لیکن اکثر علماء کی سیرت سے معلوم ہے وہ واقعات کو مختلف الفاظ میں بیان کرتے تھے۔ اور یہ نہیں تھا مگر اس لئے کہ وہ اپنی توجہ معانی پر رکھتے تھے اور وہ احادیث پر تکرار اور احادیث کے لکھنے کا التزام نہیں کرتے تھے۔ حضرت واثلہ بن اسقع سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : جو کچھ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ہم نے تمہاری طرف اسے نقل کیا، تمہارے لئے معنی کافی ہے۔ قتادہ نے حضرت زرارہ بن اوفی سے کہا : میں نبی کریم ﷺ کے کئی صحابہ سے ملا، انہوں نے مجھے الفاظ مختلف بیان کیے لیکن معنی ایک تھا۔ نخعی، حسن اور شعبی حدیث بالمعنی بیان کرتے تھے۔ حسن نے کہا : جب تو معنی صحیح بیان کرے تو تیرے لئے کافی ہے۔ سفیان ثوری نے کہا : جب میں تمہیں کہوں کہ میں تمہیں اسی طرح بیان کرتا ہوں جس طرح میں نے سنا تو میری تصدیق نہ کرو وہ معنی ہے۔ وکیع نے کہا : اگر معنی میں وسعت نہ ہوگی تو لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔ علماء کا عجمیوں کے لئے ان کی زبان میں شریعت کو نقل کرنے پر اور ان کے لئے ترجمہ کرنے پر اجماع ہے۔ یہ نقل بالمعنی ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایسا ہی کیا ہے جو اس نے گزشتہ قوموں کی خبریں بیان کی ہیں۔ پس اس نے قصص بیان کئے۔ بعض قصص کو مختلف جگہوں پر مختلف الفاظ میں بیان فرمایا جبکہ معنی ایک ہے۔ ان قصص کو ان کی زبان میں عربی زبان کی طرف منتقل کیا اور وہ تقدیم وتاخیر، حذف، الغا، کمی بیشی میں ان کے مخالف ہیں۔ جب عربی کو عجمی زبان میں بدلنا جائز ہے تو عربی میں بدلنا بدرجہ اولیٰ جائز ہے اسی معنی سے حسن اور امام شافعی نے حجت پکڑی ہے۔ یہ اس بات میں صحیح ہے۔ اگر کہا جائے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اسے شاداب رکھے جس نے میری بات کو سنا پھر اسے آگے پہنچایا جس طرح اس کو سنا تھا (1) ۔ اور نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے ایک شخص کو اپنے بستر پر سونے کے وقت کی دعا سکھائی۔ آمنت بکتابک الذی أنزلت ونبیک الذی ارسلت (2) ۔ اس شخص نے دوبارہ یہ الفاظ پڑھے تو اس نے کہا : ورسولک الذی ارسلت۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ونبیک الذی ارسلت کہو۔ روایت بالمعنی کے عدم جواز کے قائل علماء کہتے ہیں : کیا آپ نے ملاحظہ نہیں کیا کہ نبی کریم ﷺ نے جسے دعا سکھائی اسے لفظ کی مخالفت کی اجازت نہ دی اور فرمایا : اسی طرح ادا کرو جس طرح سنا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فأدا ھا کما سمعھا کے ارشاد میں مراد اس کا حکم ہے اس کا لفظ نہیں ہے کیونکہ لفظ کا اعتبار نہیں اور تیری رہنمائی کرتا ہے یہ اصول کہ خطاب سے مراد اس کا حکم ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : فرب حامل فقہ غیر فقیہ ورب حامل فقہ الی من ھوا فقتہ منہ یعنی بہت سے فقہ حاصل کرنے والے فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے فقہ حاصل کرنے والے اس کی طرف پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے۔ پھر یہ حدیث بعینہ مختلف الفاظ کے ساتھ منقول ہے جبکہ معنی ایک ہے اگرچہ تمام الفاظ کا مختلف اوقات میں نبی کریم ﷺ سے صادر ہونا ممکن ہے لیکن اغلب یہی ہے کہ یہ ایک حدیث ہے جو مختلف الفاظ سے نقل کی گئی ہے یہ جواز کی واضح دلیل ہے۔ رہا نبی کریم ﷺ کا اس شخص کو رسولک کے لفظ سے نبیک کے لفظ کی طرف لوٹانا، اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کا لفظ زیادہ مدح کا باعث تھا ان دونوں صفات میں ہر صفت کا خاص موقع محل ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ رسول کا اسم تمام پر واقع ہوتا ہے اور نبی کا اسم صرف انبیاء کرام کے لئے بولا جاتا ہے۔ رسولوں کو انبیاء سے فضیلت دی گئی ہے کیونکہ وہ نبوت و رسالت کو جمع کرتے ہیں۔ جب ونبیک فرمایا تو ایسی نعت ذکر فرمائی جو زیادہ مدح کا باعث تھی پھر اسے الذی ارسلت فرما کر رسالت کے ساتھ مقید فرمایا۔۔۔۔ پس رسولک کے قول سے نبیک کے قول کی طرف اگر اسے لوٹایا ہے تو یہ اس لئے ہے تاکہ نبوت و رسالت کو جمع کرے۔ یہ کلام کہنا پسندیدہ نہیں ہے کہ تو کہے : ھذا رسول فلان الذی ارسلہ ھذا قتیل زیدالذی قتلہ، کیونکہ ان عبارات میں معنی کا تکرار ہے کیونکہ بعد والی کلام پہلے معنی کو ہی مفید ہے۔ یہ کہنا بہتر ہے : ھذا رسول عبد اللہ الذی ارسلہ الی عمرو وھذا قتیل زید الذی قتلہ بالامس اوفی وقعۃ کذا۔ یعنی یہ عبد اللہ کا پیغام رساں ہے جسے اس نے عمرو کی طرف بھیجا ہے یہ زید کا مقتول ہے جسے اس نے کل قتل کیا تھا یا فلاں واقعہ میں قتل کیا تھا۔ اگر کہا جائے کہ جب پہلے راوی کے لئے رسول کریم ﷺ کے الفاظ بدلنا جائز ہے تو دوسرے راوی کے لئے راوی کے الفاظ بدلنا بھی جائز ہوگا اور یہ باریک فرق اور خفا کی وجہ سے حدیث کو کلیۃً ختم کرنے کی طرف پہنچا دے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ روایت بالمعنی کا جواز معنی کی مطابقت اور مساوات کے ساتھ مشروط ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، اگر معنی سے مطابقت نہ ہو تو جائز نہیں ہے۔ ابن عربی نے کہا : اس مسئلہ میں اختلاف صحابہ اور تابعین کے زمانہ کی طرف نظیر کرنے سے متصور ہوتا ہے کیونکہ وہ مادری زبان کی معرفت میں برابر تھے۔ رہا بعد والے لوگوں کا حکم ہم اس میں شک نہیں کرتے کہ یہ جائز نہیں ہے کیونکہ طبائع بدل چکی ہے، مفہوم مختلف ہوچکے ہیں، عادتیں تبدیل ہوچکی ہیں یہی حق ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ابن عربی نے ایک انوکھی بات کی ہے کیونکہ جب جواز معنی کی مطابقت کے ساتھ مشروط ہے تو پھر صحابہ، تابعین اور دوسرے لوگوں کے درمیان فرق نہ رہا۔ اسی وجہ سے اصولیین اور محدثین میں سے کسی نے یہ تفریق نہیں کی۔ ہاں اگر ابن عربی کہتے کہ ان کے زمانہ میں مطابقت بہت بعید ہے تو یہ بہتر ہوتا۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 7: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : نغفرلکم خطیکم نافع نے یا مضموم کے ساتھ پڑھا ہے اور ابن عامر نے تا مضموم کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ مجاہد کی قراءت ہے باقی قراء نے نون کے ساتھ پڑھا ہے اور نون پر نصب پڑھی ہے یہ زیادہ ظاہر ہے کیونکہ اس سے پہلے واذ قلنا ادخلوا ہے۔ پس نغفر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دینے پر جاری ہے، تقدیر کلام اس طرح ہوگی : قلنا ادخلوا الباب سجداً نغفر۔ نیز بعد میں بھی سنزید نون کے ساتھ آرہا ہے۔ خطیکم یہ اکثر کے قول کے مطابق ہے۔ یہ اپنے باب پر ہے اور جن علماء نے تغفرتا کے ساتھ پڑھا ہے ان کی وجہ یہ ہے کہ لفظ خطیکم مونث ہے اس لئے صیغہ بھی مؤنث ہوگا، کیونکہ یہ خطیئۃٌ کی جمع مکسر ہے اور یا پڑھنے کی وجہ سے جب فعل اور فاعل کے درمیان فاصلہ آگیا تو فعل کا مذکر کرنا جائز ہوتا ہے جیسا کہ پیچھے فتلقیٰ ادم من ربہ کلمتٍ (البقرہ :37) میں گزرا ہے یا اور تا بہتر ہیں، اگرچہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دینے کا ذکر ہے واذ قلنا میں کیونکہ یہ تو معلوم ہے کہ گناہوں کو بخشنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، پس نون سے استغنا کیا اور فعل کو معاف شدہ خطاؤں کی طرف لوٹایا۔ مسئلہ نمبر 8: خطایا جو کہ خطیئۃٌ کی جمع ہے اس کی اصل میں اختلاف ہے۔ خطیئۃٌ ہمزہ کے ساتھ ہے۔ خلیل نے کہا : خطایا اصل میں خطایئی تھا پھر قلب کیا گیا اور کہا گیا : خطائیی یعنی ہمزہ پہلے یا بعد میں پھر یا کو الف سے بدلا گیا خطاء اہو گیا جب دو الف جمع ہوئے جن کے درمیان ہمزہ ہے تو ہمزہ الف کی جنس سے بدل گیا پھر گویا تین الف جمع ہوگئے پھر ہمزہ کو یا سے بدلا گیا تو ہوگیا خطایا۔ سیبویہ کا مذہب یہ ہے کہ اصل خطایئی ہے پھر یا کو ہمزہ بنایا گیا جس طرح مداین میں یا کو ہمزہ بنایا گیا تو خطائیی ہوگیا۔ پھر ایک کلمہ میں دو ہمزے جمع نہیں ہوتے۔ پس دوسرے ہمزہ کو یا سے بدلا گیا تو خطائی ہوگیا پھر پہلی صورت کی طرح عمل کیا گیا۔ فراء نے کہا : خطایا جمع خطیہ (بغیر ہمزہ کے) ہے۔ جیسے تو کہتا ہو : ھدیۃ وھدایا۔ فراء نے کہا : اگر خطایا، خطیئۃٌ (مہموزہ) جمع ہوتا تو تو خطاء کہتا۔ کسائی نے کہا : اگر اس کی جمع مہموزہ ہو تو ایک ہمزہ دوسرے ہمزہ میں ادغام ہوجائے گا جیسے تو کہتا ہے : دواب۔ مسئلہ نمبر 9: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وسنزید المحسنین یعنی جنہوں نے بچھڑے کی عبادت نہیں کی ان کے احسان میں ہم اضافہ کردیں گے۔ کہا جاتا ہے : دوسرے دن کے لئے من وسلویٰ جمع کرنے کی خطائیں معاف کردیں گے اور جس نے دوسرے دن کے لئے من وسلویٰ جمع نہیں کیا ان کے احسان میں اضافہ کردیں گے۔ کہا جاتا ہے : جو گنہگار ہے اس کی خطائیں معاف کردیں گے اور جو محسن ہے اس کے احسان میں اضافہ کردیں گے۔ یعنی ہم ان کے پاس سابقہ احسان پر احسان کا اضافہ کردیں گے۔ محسنین، احسن سے اسم فاعل ہے۔ المحسن وہ ہوتا ہے جس کا توحید کا عقدہ صحیح ہو اور اپنے آپ کو چلانے میں خوبصورت ہو اور اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہو، مسلمانوں سے اپنے شر کو روکے۔ حدیث جبریل میں ہے، احسان کیا ہے ؟ فرمایا : تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ جبریل نے کہا : آپ نے سچ فرمایا (1) ۔ اس حدیث کو مسلم نے نقل کیا ہے۔
Top