Al-Qurtubi - Al-Baqara : 59
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۠   ۧ
فَبَدَّلَ : پھر بدل ڈالا الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا قَوْلًا : بات غَيْرَ الَّذِیْ : دوسری وہ جو کہ قِیْلَ لَهُمْ : کہی گئی انہیں فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا عَلَى : پر الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا رِجْزًا :عذاب مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے بِمَا : کیونکہ کَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا تھا بدل کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا، پس ہم نے (ان) ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا کیونکہ نافرمانیاں کئے جاتے تھے
آیت نمبر 59 اس میں چار مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فبدل الذین ظلموا قولاً ، الذین محل رفع میں ہے یعنی ان میں سے ظالموں نے بدلا اور بات سے جو انہیں کہا گیا تھا۔ یہ اس طرح ہے کہ انہیں کہا گیا تھا کہ تم کہو : حطۃ ٌ تو انہوں نے کہا حنطۃ جس طرح کہ پہلے گزر چکا ہے۔ انہوں نے ایک حرف کلام سے زیادہ کردیا۔ پس وہ مصیبت سے دو چار ہوئے، اس میں یہ آگاہی دی کہ دین میں زیادتی اور شریعت میں اپنی ایجاد عظیم خطرہ اور شدید نقصان کا باعث ہے۔ یہ ایک کلمہ کی تبدیلی کی وجہ سے ہوا جو توبہ سے تعبیر تھا وہ ایسے بڑے عذاب کا موجب بنا پھر تمہارا کیا خیال ہے جو معبود کی صفات میں تبدیلی کرتے ہیں۔ یہ قول کی تبدیلی کی سزا تھی حالانکہ قول، عمل سے کم ہوتا ہے، تو جو فعل میں تبدیلی کرتے ہیں ان کا کیا حشر ہوگا۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فبدل، بدل اور ابدل کا معنی پہلے گزر چکا ہے۔ عسی ربنا ان یبدلنا دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ جوہری نے کہا : ابدلت الشیء غیرہ۔ تو نے کسی چیز کو دوسری چیز سے بدل ڈالا۔ بدلہ اللہ من الخوف امناً ، اللہ تعالیٰ نے اس کے خوف کو امن سے بدل دیا، تبدیل الشیء کسی چیز کو تبدیل کرنا اگرچہ اس کا بدل نہ بھی لایا جائے۔ استبدل الشیء بغیرہ وتبدلہ بہ۔ جب ایک چیز کی جگہ دوسری چیز بدل دے، المبادلہ کا معنی تبادلہ کرنا۔ الابدال، ایسے نیک لوگوں کو کہتے ہیں جن سے دنیا خالی نہیں ہوتی۔ جب ان میں سے کوئی ایک فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے کو ابدال بنا دیتا ہے۔ ابن درید نے کہا، واحد، بدیل ہے اور البدیل کا معنی بدل ہے۔ بدل الشیء غیرہ کسی چیز کو دوسری چیز سے بدلنا۔ کہا جاتا ہے : بدل، بدل۔ یہ دونوں لغتیں ہیں۔ جیسے شبہٌ، شبہٌ۔ مثلٌ، اور مثلٌ۔ نکلٌ، اور نکلٌ۔ ابو عبید نے کہا : ان چار حروف کے علاوہ فعلٌ اور فعل نہیں سنا گیا۔ البدل اس تکلیف کو بھی کہتے ہیں جو دونوں ہاتھوں اور پیروں میں ہوتی ہے۔ بدل، یبدل بدلاً بھی استعمال ہوتا ہے مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فانزلنا علی الذین ظلموا معاملہ کی بڑائی کی وجہ سے ظلموا کے لفظ کو مکرر ذکر کیا ضمیر ذکر نہیں فرمائی۔ تکرار دو قسموں پر ہوتا ہے کلام کے مکمل ہونے کے بعد استعمال ہوتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے اور فویل للذین یکتبون الکتب بایدیھم (البقرہ : 79) پھر بعد میں فرمایا قلیلاً فویل لھم مما کتبت ایدیھم (البقرہ :79) مما کتبوا نہیں فرمایا۔ ویل کا لفظ ان کے فعل کی تغلیظ کے لئے دوبارہ ذکر فرمایا۔ اسی سے خنساء کا قول ہے : تعرقنی الدھر نھسًا وحزاً واؤ جعنی الدھر قرعاً وغمزاً یعنی زمانہ نے مجھے بڑی بڑی مصیبتوں اور چھوٹی چھوٹی تکلیفوں سے دو چار کیا۔ دوسری قسم کی تکرار کی یہ ہوتی ہے کہ ضمیر کی جگہ پر کلام کے مکمل ہونے سے پہلے اسم ظاہر کا تکرار کیا جاتا ہے جیسے الحأقۃ۔ ما الحأقۃ۔ (الحاقہ) القارعۃ۔ ما القارعۃ۔ (القارعہ) اگر تعظیم وتفخیم کا ارادہ نہ کیا جاتا تو قیاس کا تقاضا یہ تھا الحاقۃ ما ھی، القارعۃ ماھی۔ اس کی مثل ہے فاصحب المیمنۃ ما اصحب المیمنۃ۔ (الواقعہ) واصحب المشئمۃ ما اصحب المشئمۃ۔ (الواقعہ) اصحب المیمنۃ کو ان کے بڑے ثواب کو پانے کی وجہ سے اظہار شان کے لئے مقرر ذکر کیا اور اصحب المشئمۃ کو ان کے عذاب الیم کے پانے کی وجہ سے مکررذکر کیا ہے۔ اسی قسم سے شاعر کا قول ہے : لیت الغراب غداۃ ینعب دائباً کان الغراب مقطع الاوداج اس شعر میں شاعر نے الغراب کو دو دفعہ ذکر کیا۔ عدی بن زید نے دونوں معانی کو جمع کیا ہے۔ اس نے کہا : لا اری الموت یسبق الموت شیء نغض الموت ذا الغنی والفقیرا شاعر نے موت کے لفظ کو تین مرتبہ ذکر کیا۔ یہ پہلی قسم سے ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : الاحبذا ھندٌ وارض بھا ھند وھند اتی من دونھا النأی والبعد اس میں شاعر نے محبوب کی عظمت شان کے لئے اس کا تین دفعہ ذکر کیا۔ مسئلہ نمبر 4: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : رجزاً جمہور کی قرأت رجزاً را کے کسرہ کے ساتھ ہے اور ابن محیصن نے را کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ الرجذ کا معنی عذاب ہے اور سین کے ساتھ رجس ہو تو اس کا معنی بدبو اور گندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فزادتھم رجساً الیٰ رجسھم (توبہ : 125) یعنی بدبو کو ان کی بدبو کی طرف زیادہ کردیا۔ یہ کسائی کا قول ہے۔ فراء نے کہا : الرجذ سے الرجس ایک چیز ہے۔ ابو عبید نے کہا : جیسے کہا جاتا ہے السدغ، الذدغ اسی طرح رجس اور رجز ہم معنی ہیں۔ فراء نے کہا : بعض نے کہا الرجز (را کے ضمہ کے ساتھ) ایک بت کا نام ہے جس کی وہ عبادت کرتے تھے۔ اس کے ساتھ بھی اس ارشاد میں پڑھا گیا ہے : الرجز فاھجر۔ اور الرجز (را اور جیم کے فتحہ کے ساتھ) یہ شعر کی ایک قسم ہے۔ خلیل نے شعر ہونے کا انکار کیا ہے۔ یہ الرجز سے مشتق ہے جو اونٹ کے پیچھے حصہ کو لاحق کرتی ہے جب اسے لاحق ہوتی ہے تو اس کی رانیں کا نپنے لگتی ہیں۔ بما کانوا یفسقون یعنی یفسقھم۔ الفسق کا معنی نکلنا ہے۔ یہ پیچھے گزر چکا ہے۔ ابن وثاب اور نخعی نے یفسقون سین کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔
Top