Al-Qurtubi - Al-Baqara : 75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
اَفَتَطْمَعُوْنَ : کیا پھر تم توقع رکھتے ہو اَنْ : کہ يُؤْمِنُوْا : مان لیں گے لَكُمْ : تمہاری لئے وَقَدْ کَانَ : اور تھا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان سے يَسْمَعُوْنَ : وہ سنتے تھے کَلَامَ اللہِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر يُحَرِّفُوْنَهُ : وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جو عَقَلُوْهُ : انہوں نے سمجھ لیا وَهُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
(مومنو ! ) کیا تم امید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے (دین کے) قائل ہوجائیں گے (حالانکہ) ان میں سے کچھ لوگ کلام خدا (یعنی تورات) کو سنتے پھر اس کے بعد سمجھ لینے کے اس کو جان بوجھ کر بدل دیتے رہے ہیں ؟
آیت نمبر 75 اس میں چار مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : افتطمعون ان یؤمنوا لکم یہ استفہام ہے اس میں انکار کا معنی ہے۔ گویا مومنوں کو یہود کے اس ٹولہ کے ایمان سے مایوس کرنا ہے یعنی اگر انہوں نے کفر کیا ہے تو ان کے لئے اس میں پہلے مثال موجود ہے۔ خطاب نبی کریم ﷺ کے اصحاب کو ہے۔ یہ واقعہ اس طرح ہے کہ انصار یہود کے اسلام قبول کرنے کے حریص تھے کیونکہ ان کے درمیان حلف اور معاہدہ تھا (3) ۔ بعض نے فرمایا : خطاب صرف نبی کریم ﷺ کو ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے، یعنی آپ پریشان نہ ہوں اس پر کہ وہ آپ کو جھٹلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو بتا دیا کہ یہ ان برے لوگوں میں سے ہیں جو گزر چکے ہیں۔ ان محل نصب میں ہے یعنی فی ان یومنوا۔ یومنوا ان کے ساتھ منصوب ہے۔ اسی وجہ سے نون کو اس سے حذف کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے : طمع فیہ طمعا وطما عیۃ (مخفف) فھو طمع، بروزن فعل۔ اطعمہ فیہ غیرہ، تعجب میں کہا جاتا ہے : طمع الرجل میم کے ضمہ کے ساتھ یعنی وہ زیادہ لالچ والا ہوگیا۔ الطمع لشکر کی خوراک کو بھی کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : امرھم الامیر باطماعھم یعنی امیر نے لشکر کے رزق کا حکم دیا امرأۃ مطماع ایسی عورت جو لالچ کرتی ہے لیکن غلبہ نہیں پاتی۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقد کان فریقٌ منھم۔ الفرق اسم جمع ہے لفظاً اس کا واحد نہیں ہے اور اس کی جمع قلت افرقۃٌ اور جمع کثرت افرقاء ہے۔ یسمعون، کان کی خبر ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ خبر منھم ہو اور یسمعون فریق کی صفت ہو۔ اس میں بعد ہے۔ کلم اللہ۔ یہ جماعت کی قراءت ہے۔ اعمش نے کلم اللہ پڑھا ہے یعنی کلمہ کی جمع (1) ۔ سیبوبہ نے کہا : میں جانتا ہوں کہ ربیعہ کے کچھ لوگ منھم کو میم کے کسرہ کی اتباع میں ھاء کو کسرہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور ان کے نزدیک درمیان میں ساکن اس اتباع سے روکنے والا نہیں۔ کلم اللہ، یسمعون کا مفعول ہے اور اس سے مراد ستر افراد ہیں جنہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے چنا تھا۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کلام سنا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی نہ کی۔ انہوں نے اپنی قوم کے سامنے اپنی باتوں کو بدل ڈالا۔ یہ ربیع اور ابن اسحاق کا قول ہے اور اس قول میں ضعف ہے (2) ۔ اور جنہوں نے کہا کہ ستر آدمیوں نے وہ سنا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سنا تھا۔ اس نے غلطی کی ہے۔ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلت اور کلام کرنے کے ساتھ ان کی خصوصیت کو ختم کردیا ہے (3) ۔ سدی وغیرہ نے کہا : وہ سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، ان کے اذہان مختلط ہوگئے۔ انہوں نے امید رکھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کلام سنیں گے اور وہ ان کے لئے لوٹائیں گے۔ جب وہ فارغ ہوئے اور باہر نکلے تو ایک گروہ نے اللہ کے کلام کو بدل ڈالا جو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے سنا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان احدٌ من المشرکین استجارک فاجرہ حتی یسمع کلم اللہ (توبہ :6) (اگر کوئی شخص مشرکوں میں سے پناہ طلب کرے آپ سے تو پناہ دیجئے اسے تاکہ وہ سنے اللہ کا کلام) ۔ اگر یہ کہا جائے کہ کلبی نے ابو صالح سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اپنے رب سے سوال کریں کہ وہ انہیں اپنا کلام سنائے۔ پس انہوں نے برق کی آواز کی طرح آواز سنی انی انا اللہ لا الہ الا اللہ الحی القیوم اخرجتکم من مصر بید رفیعۃ وذراع شدیدۃ، من اللہ ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو حی، قیوم ہے میں نے تمہیں مصر سے نکالا بلند ہاتھوں اور سخت بازوؤں کے ساتھ۔ میں کہتا ہوں : یہ حدیث باطل ہے صحیح نہیں ہے۔ یہ ابن مروان نے کلبی سے روایت کی ہے اور وہ دونوں ضعیف ہیں قابل حجت نہیں ہے۔ تمام اولاد آدم سے کلام کے ساتھ صرف موسیٰ (علیہ السلام) کو خاص کیا گیا تھا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے کلام کی ہے اور انہیں بھی اپنا کلام سنایا ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ان پر فضیلت نہ رہی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور اس کا فرمانا حق ہے۔ انی اصطفیتک علی الناس برسلتی وبکلامی (اعراف :144) یہ زیادہ واضح قول ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو کیسے پہچانا جبکہ انہوں نے اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کا خطاب نہیں سنا تھا بعض علماء نے فرمایا آپ نے کلام سنا جس میں حروف اور آوازیں نہ تھیں۔ اور نہ اس میں تقطیع تھی نہ نفس۔ اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جان گئے کہ یہ بشر کا کلام نہیں ہے یہ رب العالمین کا کلام ہے۔ بعض دوسرے علماء نے فرمایا : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا کلام سنا جو کسی جہت سے نہیں تھا، اور انسان کا کلام تو چھ جہتوں میں سے کسی جہت سے سنا جاتا ہے، تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جان گئے کہ یہ بشر کا کلام نہیں ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : آپ کا پورا جسم قوت سماعت بن گیا حتیٰ کہ اس کے ساتھ آپ نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تو آپ جان گئے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ بعض نے فرمایا : معجزہ نے دلالت کی کہ جو انہوں نے سنا ہے وہ اللہ کا کلام ہے۔ اور یہ اس طرح ہے کہ انہیں کہا گیا : اپنا عصا ڈالو تو انہوں نے عصا ڈال دیا وہ بہت بڑا سانپ بن گیا تو یہ صدق حال پر ان کے علامت تھا۔ اور وہ جس نے انہیں کہا انی انا ربک وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ بعض نے فرمایا : انہوں نے اپنے دل میں کوئی بات چھپائی ہوئی تھی جس پر صرف علام الغیوب ہی واقف ہو سکتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب میں اس پوشیدہ بات کی خبر دی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جان گئے جو اس سے مخاطب ہے اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ مزید بیان سورة القصص میں نودی من شاطئ الواد الایمن فی البقعۃ المبرکۃ من الشجرۃ (القصص :30) کے تحت آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 4: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم یحرفونہ مجاہد اور اور سدی نے کہا : اس سے مراد یہود کے علماء ہیں جو تورات میں تحریف کرتے تھے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرتے تھے اپنی خواہشات کے مطابق (1) ۔ من بعد ما عقلوہ یعنی پہچاننے اور جاننے کے بعد۔ یہ ان کو توبیخ ہے یعنی یہ یہود، ان کے آباء و اجداد برائی اور عناد کا اظہار کرتے ہوئے گزر گئے یہ ان کے طریقوں پر ہیں پھر تم کیسے ان کے ایمان کی طمع کرتے ہو۔ یہ کلام دلالت کرتا ہے کہ حق جاننے والا معاند، ہدایت سے دور ہوتا ہے کیونکہ وہ وعدہ اور وعید کو جان چکا ہوتا ہے لیکن پھر بھی اسے یہ علم اپنے عناد سے نہیں روکتا۔
Top