Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 95
وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ
وَحَرٰمٌ : اور حرام عَلٰي قَرْيَةٍ : بستی پر اَهْلَكْنٰهَآ : جسے ہم نے ہلاک کردیا اَنَّهُمْ : کہ وہ لَا يَرْجِعُوْنَ : لوٹ کر نہیں آئیں گے
اور جس بستی (والوں) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ (وہ دنیا کی طرف رجوع کریں) وہ رجوع نہیں کریں گے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وحرم علی قریۃ اھلکنھا انھم لا یرجعون۔ حضرت زید بن ثابت اور اہل مدینہ کی قرأت و حرام ہے یہ ابو عبید اور ابو حاتم کا اختیار ہے۔ اہل کوفہ کی قرات وحرم ہے یہ حضرت علی، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ یہ دونوں لغتیں ہیں جیسے حل و حلال اور حضرت ابن عبب اس اور حضرت سعید بن جبیر ؓ سے وحرم حا اور میم کے فتحہ اور را کے کسرہ کے ساتھ مروی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ، عکرمہ اور ابوالعالیہ سے وحرم را کے ضمہ اور میم کے فتحہ کے ساتھ مروی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے و حرم، وحرم بھی مروی ہے۔ عکرمہ سے بھی و حرم مروی ہے۔ قتادہ اور مطر وراق سے و حرم مروی ہے یہ نو قرأتیں ہیں۔ سلمی نے علی قریۃ أھلک تھا پڑھا ہے۔ لا یرجعون میں جو (لا) ہے اس کے بارے میں اختالف ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ صلہ (زائدہ) ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے، یہی ابو عبید کا اختیار ہے یعنی اس بستی پر ہلاکت کے بعد لوٹنا ناممکن ہے جس کو ہم نے ہلاک کردیا۔ بعض نے فرمایا : یہ صلہ نہیں ہے یہ ثابتۃ ہے۔ اس صورت میں حرام بمعنی واجب ہوگا یعنی اس دیہات پر واجب ہے جیسے خنساء نے کہا تھا : و ان حراما لا أری الدھر با کیا علی شجوہ الابکیت علی صخر وہ اپنے بھائی کے بارے میں یہ کہہ رہی ہے اس قول پر لاثابتہ ہے۔ نحاس نے کہا : یہ آیت مشکل ہے اور سب سے بہتر جو کہا گیا ہے وہ وہ ہے جو ابن عینیہ، ابن علیہ، ھشیم، ابن ادریس، محمد بن فضیل، سلیمان بن حیان اور معلی نے داود بن ابی ہند سے اور انہوں نے عکرمہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے تحت روایت کیا ہے۔ وحرم علی قریۃ اھلکنھا فرمایا واجب ہے کہ وہ نہیں لوٹیں گے فرمایا : وہ توبہ نہیں کریں گے۔ ابو جعفر نے کہا : اس کا اشتقاق لغت میں بڑا واضح ہے اس کی شرح یہ ہے کہ حرم الشئی کا معنی ہے اس چیز سے منع کیا گیا ہے اور روکا گیا ہے جیسا کہ أحل کا معنی ہے مباح کیا گیا اور اس سے روکا نہیں گیا جب حراما اور حرم بمعنی واجب ہوگا تو اس کے معنی ہوگا اس سے نکلنا تنگ کیا گیا ہے اور منع کیا گیا ہے یہ ممنوع کے باب سے ہوگا۔ رہا ابو عبید کا قول کے لازائدہ ہے اس کو ایک جماعت نے رد کا ک ہے کیونکہ ایسے مقامات پر لازائدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسی صورت میں جہاں اشکال ہو اگر یہ زائدہ ہوتا و تو یہ تاویل بعید بھی ہوتی کیونکہ اگر یہ مراد و حرام علی قریۃ اھلکنا ھا أن یرجعو الی الدین تو یہ ایسی چیز ہے جس میں کوئی فائدہ نہیں اگر تو بہ کا ارادہ کیا ہے تو توبہ تو حرام نہیں کی گئی۔ بعض علماء نے فرمایا : کلام میں اضمار ہے یعنی حرام علی قریۃ حکمنا باستصالھا او بالختم علی قلوبھا ان یتقبل منھم عمل لانھم لا یرجعون ای لا یتوبون یعنی اس بستی پر حرام ہے جس کے تباہ کرنے کا ہم نے فیصلہ کرلیا ہے یا ان کے دلوں پر مہر لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے ان سے کوئی عمل قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ توبہ نہیں کریں گے۔ زجاج اور بو علی کا قول ہے اور لا غیر زائدہ ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول معنی ہے۔
Top