Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 224
وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَؕ
وَالشُّعَرَآءُ
: اور شاعر (جمع
يَتَّبِعُهُمُ
: ان کی پیروی کرتے ہیں
الْغَاوٗنَ
: گمراہ لوگ
اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں
(والشعر یتبعہم الغاون۔۔۔۔۔ ) مسئلہ نمبر
1
:۔ الشعراء۔ یہ شاعر کی جمع ہے جس طرح جاہل کی جمع جہلاء ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس سے مراد کفار ہیں ان کی جنوں اور انسانوں میں گمراہ لوگ پیروی کرتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : الغاون سے مراد حق سے بھٹکے ہوئے ہیں اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ شعراء بھی گمراہ ہیں کیونکہ اگر وہ گمراہ نہ ہوتے تو ان کے پیروکار گمراہ نہ ہوتے ہم سورة نور میں بیان کرچکے ہیں کہ کن اشعار کو پڑھنا جائز ہے، کن کو پڑھنا مکروہ ہے اور کن کو پڑھنا حرام ہے۔ امام مسلم نے عمرو بن شرید سے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا پوچھا :“۔ کیا تیرے پاس امیہ بن صلت کا شعر “ میں نے عرض کی : جی ہاں۔ فرمایا :” کچھ کہو “۔ میں نے ایک شعر پڑھا۔ فرمایا :” کچھ اور پڑھو “۔ میں نے ایک اور شعر پڑھا۔ فرمایا :” کچھ اور کہو “ یہاں تک کہ میں نے سو اشعار پڑھے (
1
) ۔ یہی اس سند سے صحیح ہے۔ امام مسلم کے ایک راوی نے یوں روایت کی ہے عمر و بن شرید اپنے باپ سے، اس میں وہم ہے کیونکہ شرید کو ہی رسول اللہ ﷺ نے سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا ابو شرید کا نام سوید تھا۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ اشعار کو یاد کیا جائے اور ان کو ملحوظ رکھا جائے جب وہ حکمتوں اور مستحسن معانی کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہوں۔ وہ معانی شرعی طور پر مستحسن ہوں یا طبعی طور پر مستحسن ہوں۔ نبی کریم ﷺ امیہ بن ابی صلت کے اشعار اکثر سنا کرتے تھے کیونکہ وہ حکیم تھا۔ کیا نبی کریم ﷺ کا ارشاد نہیں دیکھا :” قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت مسلمان ہوجاتا “۔ رہے وہ اشعار جو اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی حمد اور اس کی ثناء کو اپنے ضمن میں لیے ہوتے ہیں تو وہ مندوب ہوتے ہیں۔ جس طرح کسی کہنے والا کا قول ہے : الحمد للہ العلی المنان ظار الثرید فی رئوس العیدان یارسول اللہ ﷺ کا ذکر اور مدح ہو جس طرح حضرت عباس ؓ کے اشعار ہیں۔ من قبلھا طبت فی الظلال وفی مستودع حیث یخصف الورق ثم ھبطت البلاد لا بشر اندت ولا مضفۃ ولا علق پھر تو شہروں کی طرف اترانہ تو بشر ہے، نہ مضغہ ہے اور نہ ہی علق ہے۔ بل نطفۃ ترکب السفین وقد الجم نسرا واھلہ الغرق تنقل من صالب الی رحم اذا مضی عالم بدا طبق تو پشت سے رحم کی طرف منتقل ہوتا ہے جب ایک عالم ( زمانہ) گزر جاتا ہے تو دوسرا زمانہ ظاہر ہوجاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اسے فرمایا : لا یفض اللہ فاک اللہ تعالیٰ تیرے دانت سلامت رکھے۔ یا شاعر نبی کریم ﷺ کا دفاع کرے جس طرح حضرت حسان کا قول : ھجوک محمداً فاجیت عنہ وعند اللہ فی ذلک الجزا تو نے حضرت محمد ﷺ کی ہجو کی تو میں نے آپ کی طرف سے جواب دیا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس بارے میں جزا ہے۔ یہ وہ اشعار ہیں جن کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں ذکر کیا یہ سیرت میں مکمل ہیں۔ یا نبی کریم ﷺ پر درود پڑھا جائے۔ جس طرح زیاد بن اسلم نے روایت کی۔ ایک رات حضرت عمر ؓ نگہبانی کے لیے نکلے تو آپ نے ایک گھر میں چراغ دیکھا کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عورت اون دھنک رہی تھی اور کہہ رہی تھی : علی محمد صلاۃ الابرار صلی علیہ الطبیون الاخیار
1
؎۔ صحیح مسلم، کتاب الشعر، جلد
2
، صفحہ
239
قد کنت قواما بکا بالا سحار یالیت شعری والمنایا اطوار ھل یجمعنی وحبیبی الدار حضرت محمد ﷺ پر ابرار کا درود ہو آپ کے پاکیزہ اور نیک لوگوں کا درود ہو آپ قیام کرنے والے تھے سحری کے وقت رونے والے تھے کاش میں جانتاجب کہ موتیں پے در پے واقع ہونے والی ہیں۔ کیا دار مجھے اور میرے حبیب کو جمع کرے گا۔ مراد نبی کریم ﷺ ہیں۔ حضرت عمر ؓ بیٹھ کر رونے لگے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کا ذکر اور ان کی مدح کرنا۔ محمد بن سابق نے کتنا اچھا کیا جب کہا : انی رضیت علیا للھدی علما کما رضیت عتیقا صاحب الغار وقد رضیت ابا حفص و شیعتہ وما رضیت بقتل الشیخ فی الدار کل الصحابۃ عندی قدوۃ علم فھل علی بھذا القول من عار ان کنت تعلم انی لا احبھم الا من اجلک فاعتقی من النار میں حضرت علی ؓ پر راضی ہوں وہ ہدایت کے نشان ہیں جس طرح میں عتیق پر راضی ہوں جو صاحب غار ہیں ابو حفص اور ان کے حمایتوں پر راضی ہوں میں حضرت عثمان ؓ کے گھر میں قتل پر راضی نہیں۔ میرے نزدیک تمام صحابہ مقتدیٰ ہیں۔ کیا ایسے قول کی وجہ سے مجھ پر کوئی شرمندگی ہو سکتی ہے ؟ اے میرے رب ! اگر تو جانتا ہے کہ میں ان سے صرف تیری وجہ سے محبت کرتا ہوں تو مجھے آگ کے عذاب سے نجات عطاء فرما۔ ایک اور نے اشعار کہے اور خوب کہے : حب النبی رسول اللہ مفترض وحب اصحابہ نور ببرھان من کان یعلم ان اللہ خالقہ لایرمین ابابکر ببھتان ولا ابا حفص الفاروق صاحبہ ولا الخلیفۃ عثمان بن عفان ولا ابا حفص الفاروق صاحبہ ولا الخلیفۃ عثمان بن عفان امام علی فشھور فضائلہ والبیت لا یستوی الا بارکان نبی جو رسول اللہ ﷺ ہیں ان کی محبت فرض ہے اور آپ کے صحابہ کی محبت نور ہے جس کے ساتھ برہان ہے جو یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی خالق ہے وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ پر بہتان نہیں لگائے گا۔ وہ ابو حفص فاروق جو حضور ﷺ کے صحابی ہیں پر اور نہ خلیفہ عثمان بن عفان پر بہتان لگائے گا۔ جہاں تک حضرت علی ؓ کا تعلق ہے تو ان کے فضائل مشہور ہیں اور گھر ارکان کے ساتھ ہی مکمل ہوتا ہے۔ ابن عربی نے کہا : جہاں تک تشبیہات میں استعارات کا تعلق ہے تو ان اشعار میں اس کی اجازت ہے اگرچہ تو اس میں مستغرق ہوجائے اور معتاد طریقہ سے تجاوز کر جائے۔ اسی وجہ سے وہ فرشتہ جو خوابوں پر مقرر ہے وہ مثالیں بیان کرتا ہے۔ حضرت کعب بن زہیر نے نبی کریم ﷺ کی تعریف کی : بانت سعاد فقلبی متبول متیم اثرما لم یفد مکبول وما سعاد غداۃ البین اد رحلوا الا اغن غضیض الطرف مکحول تجلوعوارض ذی ظلم اذا ابتست کا نہ منھل بالراح معلول سعاد جدا ہوگئی تو میرا دل اس کے پیچھے اس کی محبت کی وجہ سے بیمار، ذلیل اور قید ہے جس کا فدیہ نہیں دیا گیا جب انہوں نے کوچ کیا تو جدائی کی صحیح سعاد نہیں تھی مگر گنگنانے والی، آنکھیں جھکی ہوئی جن میں سرمہ لگاہو جب وہ مسکراتی تو تر چمکدار دانتوں کو ظاہر کرتی گویا وہ ایسا گھاٹ ہے جس سے کوچ کرتے وقت دوسری دفعہ پانی لیا گیا ہو۔ اس قصیدہ میں ہر طرح کے استعارات اور تشبہات آتی ہیں نبی کریم ﷺ اسے سنتے اور اس نے ریق ( لعاب) کو راح ( شراب) سے جو تشبیہ دی اس کو ناپسند نہیں کیا حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ اشعار کہے : فقدنا الوحی اذ ولیت عنا وودعنا من اللہ الکلام سوی ما قد ترکت لنا رھنیا توارثہ القراطیس الکرام فقد اور ثتنا میراث صدق علیک بہ التحیۃ والسلام جب آپ نے ہم سے رخ انوار پھیرا تو وحی ہم سے مفقود ہوگئی اللہ تعالیٰ کی جانب سے کلام نے ہمیں الوداع کیا سوائے اس چیز کے جو آپ نے ہمارے لیے قابل ضمانت چھوڑی جسے معزز صحیفے محفوظ کیے ہوئے ہیں تحقیق آپ نے ہمیں سچائی کی میراث عطاء کی اس وجہ سے آپ پر صلوٰۃ وسلام ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ اسے سنتے اور حضرت ابوبکر صدیق اسے پڑھتے کیا اس سے بہتر تقلید کی کوئی صورت ہو سکتی ہے ؟ ابو عمر نے کہا : اہل علم اور اہل دانش میں سے کوئی بھی اچھے شعر کو ناپسند نہیں کرتا کبار صحابہ، اہل علم، مقتدیٰ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں مگر اس نے شعر کہا : اس کو سنا اس میں جو حکمت یا مباح امر تھا اس میں کوئی فحش بات نہ تھی اور نہ ہی کسی مسلم کیل یے اذیت کا تصور تھا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا۔ جب وہ اس طرح ہو یعنی وہ فحش ہو یا اذیت ہو وہ شعر اور اس جیسی نثر دونوں برابر ہیں۔ اس کا سننا اور اس کا قول کرنا حلال نہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے روایت نقل کی ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا : اصدق کلمۃ او اشعر کلمۃ قال تھا العرب قول لبید الاکل شیء ما خلا اللہ باطل (
1
) سب سے جا کلہ ہو عربوں نے کہا وہ لبید کا قول ہے : خبر دار اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے باطل ہے۔ امام مسلم نے اسے نقل کیا اور یہ اضافہ کیا ” قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت مسلمان ہوجاتا “۔ ابن سیرین سے مروی ہے کہ انہوں نے شعر پڑھا تو پاس بیٹھنے والے لوگوں میں سے ایک نے کہا : اے ابوبکر تیری مثل آدمی شعر کہتا ہے۔ فرمایا : تو ہلاک ہو یا الکع۔ شعر بھی ایک کلام ہے قوافی کے علاوہ دوسرے کلاموں کے مخالف نہیں۔ ان میں سے اچھا اچھا ہے قبیح قبیح ہے۔ وہ شعر کا باہم ذکر کیا کرتے تھے۔ کہا میں نے حضرت ابن عمر کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا : یحب الخمر من مال الدامی ویکرہ ان یفارقہ الغلوس
1
؎۔ صحیح مسلم، کتاب الشعر، جلد
2
، صفحہ
239
وہ مجلس کے مال سے شراب پسند کرتا ہے اور یہ ناپسند کرتا ہے کہ عکوس اس سے جدا ہوا۔ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود جو مدینہ طیبہ کے دس فقہاء میں ایک، پھر سات شعراء میں سے ایک تھے وہ بہت عمدہ شاعر اور اس میں مقدم تھے۔ زبیر بن بکار جو قاضی تھے ان کی اشعار کے بارے میں کتاب ہے۔ اس کی ایک خوبصورت بیوی تھی جس کا نام عشمہ تھا کسی وجہ سے قاضی اس پر ناراض ہوئے اور اسے طلاق دے دی قاضی کے اپنی بیوی کے بارے میں بیشمار اشعار ہیں ان میں سے یہ بھی ہیں : تغلغل حب عثمۃ فی فوادی فبادیہ مع الخافی یسیر تغلغل حیث لم یبلغ شراب ولا حزن ولم یبلغ سرور اکاد اذا ذکرت العھد منھا اطیر لو ان انسانا یطیر عشمہ کی محبت میرے دل میں موجزن ہے اس کا ظاہر اس کے باطن کے ساتھ چل رہا ہے۔ وہ وہاں تک نفوذ کرگئی ہے۔ جاں شراب نہیں پہنچتی نہ جہاں تک حزن ہے اور نہ ہی سرور پہنچا ہے جب میں اس کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کو یاد کرتا ہوں تو قریب ہے کہ میں اڑنے لگوں اگر انسان اڑتا۔ ابن شہاب نے کہا : میں نے کہا تو اس فضل و شرف میں ہوتے ہوئے شعر کہتا ہے ؟ اس نے جواب دیا : جس کے سینے میں تکلیف ہو جب وہ تھوکتا ہے تو اسے آرام آجاتا ہے۔ مسئلہ نمبر
2
:۔ جہاں تک مذموم شعر کا تعلق ہے تو اس کا سماع حلال نہیں اور اس کا کہنے والا ملامت کیا گیا ہوتا ہے۔ وہ باطل بات کہتا ہے یہاں تک کہ لوگوں میں سے جو سب سے بزدل ہوتا ہے اسے عشرہ پر فضلیت دیتا ہے۔ اور دنیا جہاں کے بخیل کو حاتم پر فضلیت دیتا ہے، وہ بری پر بہتان لگاتا ہے۔ متقی پر فسق کی تہمت لگاتا ہے۔ ایک کام کسی نے کیا نہیں ہوتا تو وہ افراط سے کام لیتا ہے مقصد نفس کو تسلی دینے کی رغبت رکھنا اور قبول کو تحسین کرنا۔ جس طرح فرزدق سے مروی ہے کہ سلیمان بن عبد الملک نے اس کا قول سنا : فبتن بجانبی مصرعات وبت افض اغلاق الختام اس شعر میں عورتوں سے خواہش نفس پوری کرنے کا ذکر ہے۔ سلیمان بن عبد الملک نے کہا : تجھ پر حد واجب ہوچکی۔ فرزدق نے عرض کی : اے امیر المومنین ! اللہ تعالیٰ نے مجھ سے حد کو ساقط کردیا ہے۔ فرمایا :” وانھم یقولون مالا یفعلون۔ “ روایت بیان کی گئی ہے کہ نعمان بن عدی بن نضلہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کا عامل تھا۔ اس نے یہ اشعار کہے : من مبلغ الحسناء ان حلیلھا بمیسان یسقی فی زجاج وحنتم اذا شئت غنثنی دھاقین قریۃ ورقاصۃ تحدو علی کل منسم فان کنت ندمان فبالا کبر اسقنی ولا تسقنی بالا صغر المتثلم لعل امیر المومنین یسوہ تنادمنا باجوسق المتھدم ان اشعار میں شراب پینے کا ذکر ہے اور ساتھ ہی عورتوں کا تذکرہ ہے۔ یہ خبر حضرت عمر ؓ تک پہنچی تو آپ نے اسے حاضری کا حکم دیا۔ کہا : اللہ کی قسم ! یہ چیز مجھے پریشان کرتی ہے۔ اس نے عرض کی : اے امیر المومنین ! جو کچھ آپ نے کہا : اس میں سے میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ تو فضول کلام تھا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوٗنَ ۔ طاَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُْوْنَ ۔ وَاَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ ۔ “ حضرت عمر ؓ نے اسے فرمایا : جہاں تک تیرے عذر کا تعلق ہے اس نے تجھ سے حد کو ساقط کردیا ہے مگر تو میرا کبھی عامل نہیں بنے گا تو نے کہہ دیا جو کہہ دیا۔ زبیر بن کبیر نے ذکر کیا اور کہا : مصعب بن عثمان نے مجھے خبر دی کہ حضرت عمر بن عبد العزیز جب خلیفہ بنے سوائے عمر بن ابی ربیعہ اور احوص کے کسی کو پریشانی نہ تھی آپ نے مدینہ طیبہ کے عامل کو خط لکھا : تو عمر اور احوص کے شر اور خبث کو پہنچانتا ہے، جب تیرے پاس میرا یہ خط آئے ان دونوں کو گرفتار کرو اور دونوں کو میرے پاس بھیج دو جب عامل کے پاس خط پہنچا تو اس نے دونوں کو آپ کے پاس بھجوا دیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز، عمر بن ابی ربیعہ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا : فلم ار کالتجمیر منظر ناظر ولا کلیالی الحج افلتن ذاھوی وکم مال عینیہ من شئی غیرہ اذا راح نحو الجمرۃ البیض کالدمی خبردار اگر تو حج کا ارادہ کرتا تو تو کسی اور چیز کی طرف نہ دیکھتا جب ان دنوں میں لوگ تجھ سے چھٹکارا نہیں پاتے تو کب چھٹکارا پاتے ہوں گے پھر اس کو جلا وطن ہوجانے کا حکم دیا۔ اس نے عرض کی : اے امیر المومنین ! کیا اس سے بہتر صورت بھی ہے ؟ فرمایا : وہ کیا ہے ؟ عرض کی : میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں دوبارہ اس قسم کے اشعار نہیں کہوں گا۔ اور کبھی بھی اشعار میں عورتوں کا ذکر نہیں کروں گا۔ میں نئے سرے سے توبہ کرتا ہوں۔ پوچھا : تو ایسا کرے گا ؟ عرض کی : ہاں۔ اس کی توبہ پر اللہ تعالیٰ کے نام کا واسطہ دیا اور اس کو چھوڑ دیا۔ پھر احوص کو بلایا فرمایا : اللہ بینی و بین قبمھا یفر منی بھا واتبع بلکہ اللہ اس کے قیم اور تیرے درمیان ہے۔ پھر اس کی جلا وطنی کا حکم دیا۔ اس کے متعلق انصار میں سے چندافراد نے گفتگو کی فرمایا : اللہ کی قسم ! جب تک حکومت میرے پاس ہے میں اس کو واپس نہیں آنے دوں گا، کیونکہ یہ اعلانیہ فاسق ہے۔ یہ مذموم شعرکا حکم ہے اور اس شعر کو کہنے والے کا حکم ہے۔ اس کا سننا اور مسجد وغیرہ میں پڑھنا حلال نہیں، جس طرح قبیح کلام کو نثر کی صورت میں پڑھنا جائز نہیں۔ اسماعیل بن عیاش نے عبد اللہ بن عون سے وہ محمد بن سیرین سے وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں حسن الشعر کسحن الکلام و قبیعہ کقبیک الکلام۔ اچھا شعر اچھی کلام کی طرح ہے اور قبیح شعر قبیح کلام کی طرح ہے۔ اسے اسماعیل نے عبد اللہ شامی سے روایت کیا ہے اہل شام سے اس کی حدیث صحیح ہے جو یحییٰ بن معین اور دوسرے علماء نے کہا ہے۔ عبد اللہ بن عمرو بن عاصم نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اشعربمنزلۃ الکلام حسنہ کحسن الکلام و قبیہ کفیح الکلام (
1
) شعر کلام کے قائم مقام ہے اچھا شعر اچھی کلام کی طرح اور قبیح شعر قبیح کلام کی طرح ہے۔ مسئلہ نمبر
3
:۔ امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” تم میں سے کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جائے یہاں تک کہ وہ پیٹ کو کھا جائے اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے “۔ صحیح میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہا : اس اثناء میں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہے تھے کہ ایک شاعر شعر کہتے ہوئے سامنے آگیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” شیطان کو پکڑ لو یا فرمایا :” شیطان کو قابو کرلو “۔ کسی آدمی کا پیٹ پیپ سے بھر جائے وہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے “۔ (
2
) ہمارے علماء نے کہا : نبی کریم ﷺ نے یہ معاملہ شاعر کے ساتھ اس وقت کیا جب اس کے احوال کو جانا۔ شاید یہ شاعر وہ تھا جس کے بارے میں معروف تھا کہ اس نے شعر کو کمائی کا ذریعہ بنا دیا ہے جب اسے کوئی مال دیا جاتاتو وہ مدح میں افراط سے کام لیتا اور جب اسے مال نہ دیا جاتا تو وہ ہجو اور مذمت میں زیادتی کرتاوہ لوگوں کو ان کے اموال اور عزتوں میں اذیتیں دیا کرتا تھا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں جس کی یہ حالت ہو تو جتنا مال وہ شعر کے ذریعے کماتا وہ حرام ہے اس قسم کے جو اشعار کہے وہ اس پر حرام ہیں ان کو سننا حلال نہیں بلکہ ان کا انکار واجب ہے جس کو اس کی زبان سے خوف ہو اور اس کے لیے انکار بھی ممکن نہ ہو تو جہاں تک طاقت رکھے وہ اس کے ساتھ نرمی کرے اور جس قدر ممکن ہوا اپنا بچائو کرے ابتداء ً اسے کچھ نہ دے کیونکہ یہ معصیت پر مدد بنتی ہے۔ اگر وہ کوئی صورت پائے تو عزت بچانے کی نیت کرتے ہوئے اسے مال دے، بندے نے عزت بچانے کے لئے جو مال دیا وہ اس کے حق میں صدقہ کے طور پر لکھ دیا جائے گا۔ میں کہتا ہوں : حضور ﷺ کے فرمان میں قبیح سے مراد وہ مادہ ہے جس میں خون کی آمیزش ہوتی ہے۔ اسی بارے میں یہ کہا جاتا ہے قاح الجرح یقیح و تفیح و قتیح۔ ” یریہ “ اصمعی نے کہا : یہ دری سے مشتق ہے یہ رمی کی مثل ہے اس سے مراد ہے ان یدری جو فہ اس سے یہ لفظ ذکر کیا جاتا ہے رجل موری۔ یہ لفظ مشدد ہے مہجوز نہیں۔ صحاح میں ہے وری القیح جو فہ یریہ وریا۔ جب وہ اسے کھا جائے۔ یزیدی نے یہ شعر پڑھا : قالت لہ وریا اذا تنحنحا اس کی تاویل میں جو کچھ کہا گیا ہے یہ حدیث ان سب میں اچھی ہے : بیشک وہ شخص جس پر شعر کا غلبہ ہو اور اس کا سینہ اس سے بھر جائے اسکے علاوہ اس میں کوئی علم نہ ہو اور نہ ہی ذکر میں سے کوئی چیز ہو۔ اس ( شعر) کے ساتھ وہ باطل میں ہی ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے اور اسے راستے پر چلتا ہے جس کی تعریف نہیں کی جاسکتی۔ جس طرح بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہو، لچر گفتگو کرتا ہو، غیبت کرتا ہو اور قبیح قول کرتا ہو جس پر شغر کا غلبہ ہو تو اس کو یہ مذموم اور کمینے اوصاف لازم ہوتے ہیں کیونکہ ادبی عادت یہی ہے، یہی وہ معنی ہے جس کی طرف امام بخاری نے اپنی صحیح میں ارشارہ کیا ہے جب اس حدیث کا باب یہ ذکر کیا باب مایکرہ ان یکون الغالب علی الانسان الشعر اس کی تاویل میں یہ قول کیا گیا ہے اس سے وہ اشعار مراد ہیں جن میں نبی کریم ﷺ اور دوسرے لوگوں کی ہجو کی گئی ہو۔ یہ کوئی چیز نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کی تھوڑی ہجو کی گئی ہو وہ کفر اور مذموم ہے اسی طرح نبی کریم ﷺ کے علاوہ کی ہجو وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہو وہ بھی مذموم ہے اسی وجہ سے کثیر کی تخصیص کوئی معنی نہیں رکھتی۔
1
؎۔ الادب المفرد للخباری
2
؎۔ صحیح مسلم، کتاب الشعر، باب تحریم اللعب بالتنرد شیر، جلد
2
، صفحہ
240
مسئلہ نمبر
4
:۔ امام شافعی نے کہا : شعر کلام کی نوح ہے اچھا شعر اچھی کلام کی طرح اور قبیح شعر قبیح کلام کی طرح ہے یعنی شعر بالذات مکروہ نہیں وہ متعلقات کی وجہ سے مکروہ ہے جب کہ عربوں کے ہاں اس کا بڑا مقام تھا۔ ان میں سے پہلے لوگوں نے کہا : وجرح اللسان کجرح الید زبان کا زخم ہاتھ کے زخم کی طرح ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس شعر کے بارے میں فرمایا جس میں حضرت حسان نے مشرکوں کو جواب دیا تھا : انہ لا سرع فیھم من رشق النبل۔ یہ شعران میں تیرے مارنے سے زیادہ تیزی سے اثر کرے گا۔ امام مسلم نے اسے نقل کیا ہے۔ امام ترمذی نے اسے حضرت ابن عباس سے روایت کیا اور اسے صحیح قرار دیا کہ نبی کریم ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے جب عمرۃ القضاء کا مرحلہ تھا جب کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ آپ کے سامنے چل رہے تھے اور کہہ رہے تھے : خلوا بنی اکلفار عن سبیلہ الیوم نضربکم علی تنزیلہ ضربا یزیل الھام عن مقیلہ ویذھل الخلیل عن خلیلہ اے کفار کی اولاد ! آپ کا راستہ خالی کر دو آج ہم قرآن کے حکم کے مطابق تم پر ایسا وار کریں گے جو کھوپڑی کو تن سے جدا کر دے گا اور دوست کو دوست سے غافل کر دے گا۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : اے ابن رواحہ ! اللہ تعالیٰ کے حرم میں اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے ! رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اے عمر ! اس کو چھوڑ دو یہ ان میں تیر کے وار سے زیادہ تیزی سے اثر کرنے والا ہے “۔ (
1
) مسئلہ نمبر
5
:۔ والشعر اء یتعہم الغاون جتنا میں جانتا ہوں قراء نے الشعراء کے رفع میں کوئی اختلاف نہیں کیا۔ فعل مضمر کے ساتھ نصب دینا بھی جائز ہے جس کی تفسیر یتعہم فعل بیان کرتا ہے۔ عیسیٰ بن عمر نے اس کے ساتھ قرأت کی ہے۔ ابو عبید نے کہا : ان پر غالب نصب کا پسندیدہ ہونا ہے اس نے پڑھائو ” والسارق والسارقعۃ “ ( المائدہ :
38
) حمالۃ الحطب۔ (الہب) سورة انزلنھا ( النور :
1
) نافع، شیبہ، حسن بصری اور سلمی نے پڑھا یتبعھم یعنی اسے مخفف پڑھا۔ باقی قراء نے یتبعھم پڑھا ہے۔ ضحاک نے کہا : دو آدمیوں نے باہم ہجو کی ایک انصاری تھا اور ایک مہاجر تھا دونوں نے یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کیا ہر ایک کے ساتھ اس کی قوم کے بیوقوف بھی تھے تو یہ آیت نازل ہوئی : یہی حضرت ابن عباس ؓ نے کہا (
2
) ان سے ایک قول یہ بھی مروی ہے : مراد وہ لوگ ہیں جو آگے اشعار روایت کرتے ہیں۔ علی بن طلحہ نے ان سے روایت نقل کی ہے : مراد وہ کفار ہیں جن کی جنوں اور انسانوں میں سے گمراہ اتباع کرتے ہیں۔ ہم نے اس کا ذکر کیا ہے۔ غضیف نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی جو آدمی اسلام میں ہجو کا آغاز کر اس کی زبان کاٹ دو ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :” جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو ابلیس غم سے چیخا اس کی ذریت اس کے پاس جمع ہوئی اس دن کے بعد تم اس چیز سے مایوس ہو جائو کہ تم حضرت محمد ﷺ کی امت میں شرک کا رواج دے سکو گے بلکہ اس مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں شعر کو عام کر دو “۔
1
؎۔ جامع ترمذی، کتاب لی الادب، باب ماء جا فی انشاء الشعر، جلد
2
، صفحہ
107
۔
2
؎۔ المحرر الوجیز، جلد
4
، صفحہ
232
مسئلہ نمبر
6
:۔ الم ترانھم فی کل وادیھیون وہ ہر لغو بات میں داخل ہوجاتے ہیں اور حق کے طرقہ کی پیروی نہیں کرتے کیونکہ جو آدمی حق کی اتباع کرے اور اسے علم ہو کہ جو وہ کہے گا وہ اس پر لکھا جائے گا تو وہ حق پر قائم ہوجاتا ہے وہ آوارہ جدھر منہ آئے ادھر نہیں چلا جاتا جو کچھ کہے اس کی پرواہ نہ کرے۔ یہ آیت عبد اللہ بن زبعری، مسافح بن عبد مناف اور امیہ بنی ابی صلت کے حق میں نازل ہوئی۔ وانھم یقولون مالا یفعلون ان میں سے اکثر جھوٹ بولتے ہیں، یعنی وہ اپنی گفتگو کے ذریعے کم اور خیر پر رہنمائی کرتے ہیں اور وہ کرتے نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آیت ابی عزہ جمحی کے حق میں نازل ہوئی۔ جب اس نے کہا : الا ابلغا عنی النبی محمدا بانک حق والملئک حمید ولکن اذا ذکرت بدرا واھلہ تاوہ منی اعظم و جلود خبردار تم دونوں حضرت محمد ﷺ جو نبی ہیں کو پہنچا دو کہ آپ حق پر ہیں اور مالک حمد کے لائق ہے لیکن جب مجھے بدر اور اس میں قتل ہونے والے لوگ یاد آتے ہیں تو میری ہڈیاں اور جلد اوہ اوہ کرتے ہیں۔ پھر مومنوں کے شعر کو اس حکم سے خارج کیا۔ مومن شعراء یہ ہیں حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد اللہ رواحہ، کعب بن مالک اور کعب بن ہیر۔ اسی طرح وہ تمام شعراء جو ان کی طرح سچی بات کرتے۔ فرمایا : الا الذین امنوا وعملوالصلحت وذکرو اللہ کثیرا یعنی اپنی گفتگو میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرتے۔ وانتصروا من بعد ماظلموایہ انتقام بھی حق کے ساتھ ہوتا اور اللہ تعالیٰ نے جو اس کی حدود بیان کیں اگر اس نے اس سے تجاوز کیا تو اس نے باطل طریقہ سے انتقام لیا۔ ابو الحسن مبرد نے کہا : جب سورة ” الشعرائ “ نازل ہوئی تو حضرت حسان، حضرت کعب بن مالک اور حضرت ابن رواحہ روتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، عرض کی : اے اللہ کے نبی ! اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ وہ برتر ذات جانتی ہے کہ ہم شعراء ہیں ؟ فرمایا :” اس کے بعد والا حصہ پڑھو ” الا الذین امنوا وعملوالصلحت “ تم وہ ہو جو اس کا مصداق ہیں ” وانتصروا من بعد ما ظلمو “ تم مشرکوں کو رد کرنے والے تھے “۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” بدلو لو اور حق بات ہی کہو اور آباء اور امہات کا ذکر نہ کرو “۔ حضرت حسان نے ابو سفیان کے بارے میں کہا : ھجوت محمدا فاجیت عنہ وعنداللہ فی ذاک جزاء وان ابی والدتی و عرضی لعرض محمد منکم وقاء اتشتہ ولست لہ بکف فشتر کما لخیر کما الفداء لسانی صارم لا عیب فیہ و بحری لا تکدرہ الدلا تو نے حضرت محمد ﷺ کی ہجو کی اور میں نے آپ کی طرف سے جواب دیا جب کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں جزاء ہے۔ میرا والد، میری والدہ اور میری عزت حضرت محمد ﷺ کی عزت کے سامنے ڈھال ہے کیا تو آپ کو برا بھلا کہتا ہے جب کہ تو آپ کا ہم پلہ نہیں، تم میں سے برا تم میں سے اچھے پر قربان، میری زبان تلوا رہے اس میں کوئی عیب نہیں اور میرے سمندر کو ڈول گدلا نہیں کرتے۔ حضرت کعب نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ تعالیٰ نے شعر کے بارے میں حکم نازل کیا جس کو آپ جانتے ہیں آپ کی کیا رائے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” مومن اپنی جان، تلوار اور زبان سے جہاد کرتا ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! گویا تم اپنی زبان سے تیر برسا رہے ہو “۔ حضرت کعب نے کہا : جاءت سخینۃ (
1
) کی تغالب ربھا ولیغلبن مغالب الغلاب قریش آئے تاکہ اپنے رب سے غلبہ میں مقابلہ کریں غلبہ پانے والوں میں سے غالب ہی غالب قرار دیا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اے کعب ! اللہ تعالیٰ نے تیرے اس قول پر تیری تعریف کی ہے “۔ ضحاک نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے اس آیت والشعرء یتبعہم الغاون کو الا الذین امنوا وعملوالصلحت کے ساتھ منسوخ قرار دیا۔ مہدوی نے کہا : صحیح میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ الا الذین استثناء ہے۔ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون جو آدمی ظلم کے ساتھ انتقام لے اس کے لیے اس میں دھمکی ہے۔ شریح نے کہا عنقریب ظالم جان لیں گے وہ اللہ تعالیٰ سے کیسے خلاصی پائیں گے۔ ظالم عقاب کا انتظار کرتا ہے اور مظلوم نصرت کا انتظار کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے پڑھا ای منقلت ینقلتون، یعنی یہ لفظ فاء اور تاء دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے دونوں کا معنی ایک ہے۔ ثعلبی نے اسے ذکر کیا ای منقلب ینقلبون کا معنی ہے کس پناہ کی وہ پناہ لیں گے۔ کون سی لوٹنے کی جگہ کی طرف وہ لوٹیں گے کیونکہ ان کا ٹھکانہ آگ ہے اور وہ سب سے قبیح ٹھکانہ ہے، ان کا لوٹنا عقاب کی طرف ہے اور وہ سب سے بری لوٹنے کی جگہ ہے۔ منقلب اور مرجع میں فرق یہ ہے کہ منقلب اسے کہتے ہیں کہ جس میں وہ ہو اس کی ضد کی طرف منتقل ہونا۔ مرجع ایک حال جس میں وہ ہے اس سے اس حال کی طرف لوٹ جانا جس پر وہ پہلے تھا ہر مرجع منقلب تو ہے مگر ہر منقلب مرجع نہیں کیونکہ ای اور دوسرے کلمات استفہام میں ما قبل عمل نہیں کرتا جو نحویوں نے ذکر کیا ہے۔ نحاس نے کہا : اصل بات یہ ہے کہ استفہام ایک معنی ہے اور اس کا مقابل ایک اور معنی ہے اگر اس میں ما قبل عمل کرے تو بعض معانی میں داخل ہوجائیں۔
1
؎۔ یہ کھانا ہے جو آٹے اور گھی سے بنایا جاتا ہے یہ کھانا گرم ہوتا ہے قریش اس کے شیدائی تھے اس لیے قریش کو وہی نام دیا جو اس کھانے کا تھا۔ مترجم۔
Top