Al-Qurtubi - An-Naml : 45
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ : اور تحقیق ہم نے بھیجا اِلٰى : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح اَنِ : کہ اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو فَاِذَا : پس ناگہاں هُمْ : وہ فَرِيْقٰنِ : دو فریق ہوگئے يَخْتَصِمُوْنَ : باہم جھگڑنے لگے وہ
اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ خدا کی عبادت کرو تو دو فریق ہو کر آپس میں جھگڑنے لگے
ولقد ارسلنا الی ثمود اخاھم صلحاً ان اعبدوا للہ اس کا معنی گزر چکا ہے فاذا ھم فریقین یختصمون مجاہد نے کہا : یعنی مومن اور کافر۔ کیا خصوصیت وہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا اتعلمون ان صلحاً مرسل من ریۃ قالوا انا بمآء ارسل بہ مئومنون۔ قال الذین استکبروآ ان بالذی امنتم بہ کفرون۔ (الاعراف) ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان کا جھگڑا یہ تھا کہ ہر فرقہ نے کہا : ہم حق پر ہیں تم حق پر نہیں۔ قالیقوم لم تستعجلون بالسیئۃ قبل الحسنۃ مجاہد نے کہا : سیئۃ سے مراد عذاب اور حسنۃ سے مراد رحمت ہے۔ معنی ہے تم اس ایمان میں کیوں تاخیر کرتے ہو جو تمہاری طرف ثواب کھینچ کر لاتا ہی اور کفر کو پہلے لاتے ہو جو عذاب کو لازم کرتا ہے کفار ان کار کی زیادتی کی وجہ سے کہتے ہیں : ہمارے اوپر عذاب لے آئو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تم ایسے کام کیوں کرتے ہو جن کے باعث تم عتاب کے مستحق بنتے ہو اس کا مطلب یہ نہیں تم جلد عذاب کے آنے کی تلاش کرتے ہو۔ لولا تستغفرون اللہ تم شرک سے اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کیوں نہیں کرتے ؟ لعلکم ترحمون تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ قالوا اطیرنا بک وبمن معک ہم نے فال بد لیا۔ شوم کا معنی نحوست ہے۔ بدفالی سے بڑھ کر کوئی چیز رائے اور تدبیر کو نقصان پہنچانے والی نہیں۔ جو آدمی یہ گمان کرتا ہے کہ گائے کا ڈکارنا اور کوئے کا کائیں کائیں کرنا قضا کو لوٹا سکتا یا مقدور چیز کو دور کرسکتا ہے تو جاہل ہے۔ شاعر نے کہا : طیرۃ الدھر لا تردد قضائ فاعذر الدھر لاتشبیہ بلوم امی یوم یخصہ بسعود والمنایا ینزلنا فی کل یوم لیس یوم الا وفیہ سعود ونحوش تجری لقوم فقوم زمانہ کی بدفالی قضا کو لوٹا نہیں سکتی زمانہ سے معذرت کرلے تو اسے ملامت کے ساتھ تشبیہ نہ دے۔ کون سا دن ہے جو اسے سعادی مندی کے ساتھ خاص کرتا ہے جب کہ موتیں ہر دننازل ہوتی ہیں۔ کوئی دن نہیں ہے مگر اس میں سعادت مندی ہوتی ہے اور نحوست قوم کے لئے یکے بعد دیرگے واقع ہوتی ہے۔ عرب سب سے زیادہ فال پکڑنے والے تھے جب وہ سفر کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے جب وہ دائیں جابن اڑتا تو و وہ باعث برکت ہوتا اور اگر وہ بائیں جانب اڑتا تو یہ بدبختی کی علامت ہوتا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے نہی کی ہے۔ فرمایا : پرندوں کو اپنے گھونسلوں میں رہنے دو ۔ “ (1) اس کی وضاحت سورة مائدہ میں گزر چکی ہے۔ قال طیرکم عند اللہ تمہارا شگون تم تک پہنچنے والا ہے۔ بل انتم قوم تفتون تمہارا امحتان لیا جائے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تمہیں تمہارے گناہوں کا عذاب دیا جائے گا۔
Top