Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 39
فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ هُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ١ۙ اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ
فَنَادَتْهُ
: تو آواز دی اس کو
الْمَلٰٓئِكَةُ
: فرشتہ (جمع)
وَھُوَ
: اور وہ
قَآئِمٌ
: کھڑے ہوئے
يُّصَلِّيْ
: نماز پڑھنے
فِي
: میں
الْمِحْرَابِ
: محراب (حجرہ)
اَنَّ اللّٰهَ
: کہ اللہ
يُبَشِّرُكَ
: تمہیں خوشخبری دیتا ہے
بِيَحْيٰى
: یحییٰ کی
مُصَدِّقًا
: تصدیق کرنیوالا
بِكَلِمَةٍ
: حکم
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَسَيِّدًا
: اور سردار
وَّحَصُوْرًا
: اور نفس کو قابو رکھنے والا
وَّنَبِيًّا
: اور نبی
مِّنَ
: سے
الصّٰلِحِيْنَ
: نیکو کار (جمع)
وہ ابھی عبادت گاہ میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے کہ فرشتوں نے آواز دی کہ (زکریا) خدا تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو خدا کے فیض (یعنی عیسیٰ ) کی تصدیق کریں گے اور سردار ہوں گے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھے والے اور (خدا کے پیغمبر (یعنی) نیکو کاروں میں ہوں گے
آیت نمبر :
39
۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فنادتہ الملئکۃ “۔ حمزہ اور کسائی نے فنادہ مذکر ہونے کی بنا پر الف کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ دونوں اس میں امالہ کرتے ہیں کیونکہ یہ (الف) اصل میں یا ہے۔ اور یہ بھی کہ یہ چوتھی جگہ ہے اور حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی قرات الف کے ساتھ ہی ہے اور یہی ابو عبیدہ کی پسند ہے۔ اور جریر نے مغیرہ کے واسطہ سے ابراہیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : حضرت عبداللہ ؓ پورے قرآن میں ملائکہ کو مذکر قرار دیتے ہیں۔ ابو عبید نے کہا ہے : ہم انہیں جانتے ہیں کہ انہوں نے اسے مشرکین کے خلاف اختیار کیا ہے کیونکہ مشرکین نے کہا : ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ نحاس نے کہا ہے : یہ ایسا استدلال ہے جس سے کوئی شے حاصل نہیں کی جاسکتی کیونکہ عرب کہتے ہیں : قالت الرجال اور قال الرجال اور اسی طرح النساء کے ساتھ بھی کرتے ہیں (یعنی مذکر ومونث دونوں طرح استعمال کرلیتے ہیں۔ ) اور ان پر قرآن کریم سے استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے، اور اگر یہ جائز ہے کہ ان کے خلاف قرآن کریم سے اس طرح حجت لائی جائے تو پھر یہ بھی جائز ہے کہ ان کے خلاف قرآن کریم سے اس طرح حجت لائی جائے تو پھر یہ بھی جائز ہے کہ وہ اس قول باری تعالیٰ سے استدلال کریں : (آیت) ” واذ قالت الملئکۃ “۔ البتہ ان کے خلاف اس ارشاد میں حجت ہے : (آیت) ” اشھدوا خلقھم “۔ یعنی انہوں نے مشاہدہ نہیں کیا۔ پس وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ مونث ہیں، تحقیق یہ معلوم ہوگیا کہ یہ ظن اور محض خواہش ہے۔ اور رہا ” فناداہ “ تو یہ جمع کے مذکر ہونے کی بنا پر جائز ہے اور نادتہ جماعت کے مونث ہونے کی بنا پر جائز ہے۔ مکی نے کہا ہے : الملائکۃ ذوالعقول میں سے جمع مکسر ہے اور یہ تانیث میں قائم مقام غیر ذوی العقول کے ہے آپ کہتے ہیں : ھی الرجال وھی الجذوع وھی الجمال وقالت الاعراب، اور اسے یہ ارشاد اور تقویت دیتا ہے۔ (آیت) ” واذ قالت الملئکۃ اور دوسری جگہ مذکور ہے : (آیت) ” والملائکۃ باسطوا ایدیھم “ اور اسی طرح اجماع ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” والملائکۃ یدخلون علیھم من کل باب “۔ پس اس جمع کو مذکر ومونث دونوں طرح لانا اچھا ہے اور سدی نے کہا ہے : اکیلے حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے انہیں ندادی۔ (ناداہ جبرائیل وحدہ) اور اسی طرح حضرت ابن مسعود ؓ کی قرات میں ہے اور قرآن کریم میں ہے : (آیت) ” ینزل الملائکۃ بالروح من امرہ “۔ مراد جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ اور روح سے مراد وحی ہے۔ اور عربی میں یہ جائز ہے کہ واحد کے بارے میں جمع کے لفظ ساتھ خبر دی جائے اور قرآن کریم میں آیا ہے : (آیت) ” الذین قال لھم الناس “۔ الناس سے مراد نعیم بن مسعود ہے، جیسا کہ آگے آئئے گا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے تمام ملائکہ نے ندا دی اور یہی زیادہ ظاہر ہے۔ یعنی ندا ان کی جانب سے آئی۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” وھو قآئم یصلی فی المحراب ان اللہ یبشرک “۔ اس میں، (آیت) ” وھو قائم “۔ مبتدا اور خبر ہے، اور ’ یصلی “ محل رفع میں ہے اور اگر چاہے تو ضمیر سے حال ہونے کی بنا پر محل نصب میں رکھ لے، (آیت) ” ان اللہ “ اصل میں بان اللہ ہے۔ حمزہ اور کسائی نے ” ان “ پڑھا ہے یعنی قالت ان اللہ، پس ندا بمعنی قول ہے۔ (آیت) ” یبشرک تشدید کے ساتھ اہل مدینہ کی قرات ہے۔ اور حمزہ نے ” یبشرک مخفف پڑھا ہے اسی طرح حمید بن قیس مکی نے کہا ہے مگر یہ کہ انہوں نے شین کو کسرہ یا ضمہ اور با کو تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے، اخفش نے کہا ہے : یہ تینوں لغات ایک معنی میں ہیں۔ پہلی کی دلیل اور یہ ایک جماعت کی قرات ہے کہ اس مادہ سے جو بھی فعل ماضی یا امر کا صیغہ قرآن کریم میں ہے وہ تثقیل کے ساتھ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فبشر عبادی، فبشرہ بمغفرۃ، فبشرنا ھا باسحاق، قالوا بشرناک بالحق “۔ اور ہی دوسری تو وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قرات ہے اور وہ بشر یبشر سے ہے اور وہ اہل تہامہ کی لغت ہے، اور اسی سے شاعر کا قول بھی ہے : بشرت عیالی اذ رایت صحیفۃ اتتک من الحجاج یتلی کتابھا۔ اس میں محل استشہاد بشرت ہے۔ اور دوسرے نے کہا : واذا رایت الباھشین الی الندی عبرا اکفھم بقاع ممحل : فاعنھم وابشرمابشروا بہ واذا ھم نزلوا بضنک فانزل :۔ اس میں محل استشہاد بما بشروا بہ ہے۔ اور جہاں تک تیسری قرات کا تعلق ہے تو وہ ابشر یبشرا بشارا سے ہے۔ شاعر نے کہا : یا امر عمرو ابشری بالبشری موت ذریع وجراد عظلی۔ اس میں محل استشہاد ابشری ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” بیحی پہلی کتاب میں ان کا نام حیا تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ سارہ کا نام یسارہ تھا، اور عربی میں اس کی تفسیر لاتلد (وہ بچے نہ جنے گی) ہے، پس جب انہیں اسحاق کی بشارت دی گئی تو انہیں کہا گیا : سارہ اور انہیں یہ نام حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے دیا، تو انہوں نے کہا : اے ابراہیم (علیہ السلام) میرے نام سے ایک حرف کیوں کم کردیا گیا ہے ؟ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہی جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا تو انہوں نے کہا : ” بلاشبہ یہ حرف ان کے اس بیٹے کے نام میں زائد کردیا گیا ہے جو افضل انبیاء میں سے ہے اس کا نام حی ہے اور اس کا نام یحی رکھ دیا گیا ہے۔ “ نقاش نے اسے ذکر کیا ہے اور حضرت نے کہا ہے : ان کا نام یحییٰ رکھا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان اور نبوت کے ساتھ پیدا فرمایا (اور زندہ رکھا) اور بعض نے کہا ہے : ان کا نام یحی رکھا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب لوگوں کو ہدایت کے ساتھ احیا عطا فرمایا اور مقاتل نے کہا ہے : ان کا اسم اللہ تعالیٰ کے اسم حی سے مشتق ہے پس یحی نام رکھ دیا گیا ہے، اور یہ قول بھی ہے : کیونکہ ان کے سبب اللہ تعالیٰ نے انکی ماں کی رحم کو زندہ کردیا۔ (آیت) ” مصدقا بکلمۃ من اللہ “۔ اکثر مفسرین کے قول کے مطابق کلمۃ من اللہ سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمہ اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے، پس وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے، ابو السمال العدوی نے ” بکلمۃ “ تمام قرآن میں کاف کو مکسور اور لام کو ساکن پڑھا ہے، اور یہ فصیح لغت ہے جیسا کہ کتف اور فخذ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام کلمہ اس لئے ہے کیونکہ لوگ ان سے اسی طرح ہدایت پاتے تھے جس طرح اللہ تعالیٰ کے کلام سے ہدایت اور راہنمائی پاتے تھے۔ اور ابو عبید نے کہا ہے : (آیت) ” بکلمۃ من اللہ “ معنی ہے بکتاب من اللہ (یعنی جو تصدیق کرنے والا ہوگا اللہ تعالیٰ کی کتاب کی) فرمایا : اور عرب کہتے ہیں انشدنی کلمۃ ای قصیدۃ اس نے میرے سامنے قصیدہ پڑھا، جیسا کہ روایت ہے کہ الحویدرہ کا حضرت حسان ؓ کے پاس ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : لعن اللہ کلمتہ یعنی قصیدتہ “۔ (اللہ تعالیٰ اس نے قصیدہ پر لعنت کرے) اور اس کے علاوہ بھی کئی اقوال کہے گئے ہیں۔ پہلا قول زیادہ مشہور ہے اور اکثر علماء اسی پر ہیں اور یحی (علیہ السلام) وہ پہلے فرد ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ایمان لائے اور ان کی تصدیق کی، اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تین سال بڑے تھے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چھ مہینے بڑے تھے اور دونوں خالہ زاد بھائی تھے۔ پس جب حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کی شہادت سنی تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اٹھے اور انہیں اپنے ساتھ ملا لای اور وہ ایک کپڑے میں (لپٹے) پڑے تھے اور علامہ طبری نے ذکر کیا ہے کہ حضرت مریم (علیہ السلام) جب حضرت عسیٰ (علیہ السلام) سے حاملہ ہوئیں تو اسی وقت ان کی بہن حضرت یحییٰ (علیہ السلام) سے حاملہ تھی، تو وہ اپنی بہن کی ملاقات کے لئے آئی اور کہا : اے مریم ! کیا تجھے معلوم ہوا ہے کہ میں حاملہ ہوں ؟ تو حضرت مریم (علیہا السلام) نے اسے کہا : کیا تو نے محسوس کیا ہے میں حاملہ ہوں ؟ تو اس نے آپ کو کہا : جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے پا رہی ہوں کہ وہ اسے سجدہ کر رہا ہے جو تیرے پیٹ میں ہے، اسی وجہ سے یہ روایت کیا گیا کہ انہوں نے اپنے جنین کو محسوس کیا کہ وہ اپنا سر حضرت مریم کے پیٹ کی طرف جھکا رہا ہے، سدی نے کہا ہے : پس اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” مصدقا بکلمۃ من اللہ “۔ اور مصدقا “ حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ ” وسیدا “ اس کے معنی السید (سردار) وہ جو اپنی قوم کا سردار ہوتا ہے، اور اس کے قول پر (کسی کام کی) انتہا ہوجاتی ہے اور اس کی اصل ” سیود “ ہے کہا جاتا ہے : فلان اسود من فلان۔ یہ افعل کے وزن پر صیغہ اسم تفضیل ہے اور السیادۃ سے بنایا گیا ہے اور اسی میں اس پر دلیل موجود ہے کہ انسان کا نام سید رکھنا جائز ہے جیسا کہ یہ جائز ہوتا ہے کہ اس کا نام عزیز یا کریم رکھا جائے۔ (
1
) (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث نمبر
3812
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اسی طرح حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے بنی قریضہ (٭) (تفسیر میں الفاظ یہی ہیں جبکہ اصل میں یہ ارشاد حضرت سعد بن معاذ کے حق میں انصار کو ہے) کو فرمایا : (اپنے سردار کے لئے کھڑے ہو) اور بخاری ومسلم میں ہے (
2
) (ایضا کتاب الصلح، حدیث نمبر
2505
۔ ضیاء القرآن پبلی کیشنز) کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت امام حسن ؓ کے بارے فرمایا : ان ابنی ھذا سید ولعل اللہ یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین “۔ (بلاشبہ میرا یہ بیٹا سید (سردار) ہے اللہ تعالیٰ اس کے سبب مسلمانوں کے دو بہت بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا) اور پھر اسی طرح ہوا، کیونکہ جب حضرت علی ؓ شہید ہوئے تو چالیس ہزار سے زائد لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور بہت سے ان میں سے تھے جو انکے باپ سے پیچھے رہ گئے تھے اور ان میں سے تھے جنہوں نے ان کی بیعت توڑ دی تھی، آپ تقریبا سات ماہ تک عراق اور اس کے بعد خراسان میں خلیفہ رہے، پھر آپ اہل حجاز اور اہل عراق کا لشکر ساتھ لے کر حضرت امیر معاویہ ؓ کی طرف چلے اور حضرت امیر معاویہ ؓ اہل شام کو لے کر آپ کی طرف چلے، پس جب دونوں لشکر ایک جگہ آمنے سامنے ہوئے وہ انبار کی اطراف میں عراق کی زمین میں سے مسکن کہلاتی ہے، تو امام حسن ؓ نے جنگ کو ناپسند کیا، کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ دونوں گروہوں میں سے کوئی ایک غالب نہیں آسکتا یہاں تک کہ دوسرے کا اکثر حصہ ہلاک ہوجائے، پس مسلمان ہلاک ہوں گے، تو آپ نے ان شرائط پر معاملہ حضرت امیر معاویہ ؓ کے سپرد کردیا جو شرائط آپ نے ان پر عائد کی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ امیر معاویہ ؓ کے بعد امارت (حکمرانی) آپ کی ہوگی، پس امیر معاویہ ؓ نے ان تمام کا التزام کیا، پس حضور نبی مکرم ﷺ کا فرمان سچا ثابت ہوا ان ابنی ھذا سید بلاشبہ میرا یہ بیٹا سردار ہے، اور اس سے بڑا سردار کوئی نہیں ہو سکتا جسے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول سردار بنائے، حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے، کہ ” وسیدا “ کا مفہوم ہے کہ وہ علم و عبادت میں سردار ہیں، ابن جبیر اور ضحاک نے کہا ہے : علم اور تقوی میں سردار ہیں۔ مجاہد (رح) نے کہا ہے : السید سے مراد کریم سخی ہے۔ ابن زید نے کہا ہے : وہ جس پر غصہ غالب نہ آتا ہو۔ اور زجاج نے کہا ہے : سید وہ ہے جو اپنے ساتھیوں پر خیر اور نیکی کے کام میں فوقیت رکھتا ہو۔ اور یہ لفظ (تمام) کو جامع ہے، اور کسائی نے کہا ہے : السید کا معنی دو سال کی بھیڑ بھی ہے۔ اور حدیث میں ہے : ثنی من الضان خیر من السید المعز، بھیڑوں میں دوندی دو برس کی بھیڑ سے بہتر اور افضل ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے : سواء علیہ شاۃ عام دئت لہ لیذبحھا للضیف ام شاہ سید۔ (آیت) ” وحصورا “ یہ اصل ہے الحصر سے ماخوذ ہے اور اس کا معنی ہے روکنا، قید کرنا، حصرنی الشیء واحصرنی جب کوئی شے مجھے روک لے۔ جیسا کہ ابن میادہ نے کہا ہے : وما ھجر لیلی ان تکون تباعدت علیک ولا ان احصرتک شغول : اور ناقۃ حصور : صیقۃ الاحلیل یعنی جس اونٹنی کے تھنوں (یاپیشاب) کا سوراخ تنگ ہو۔ اور حصوروہ ہوتا ہے جو عورتوں کے پاس نہ آسکتا ہو (یعنی جماع کے قابل نہ ہو) گویا کہ اسے ان سے روک دیا گیا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے : رجل وحصور وحصیر جب کہ وہ اپنی بخشش اور عطا کو روک لے اور وہ کچھ نہ نکالے جو کچھ اس کے ہم نشین نکال رہے ہیں کہا جاتا ہے : شرب القوم فحصر علیہم فلان ای بخل، (قوم نے شراب پی تو ان پر فلاں نے پابندی لگا دی، یعنی اس نے ان کے ساتھ بخل کیا۔ ) یہ ابو عمرو سے منقول ہے۔ اخطل نے کہا ہے : وشارب مربح بالک اس نادمنی لا بالحصور ولا فیھا بسوار۔ اور قرآن کریم میں ہے (آیت) ” وجعلنا جھنم للکافرین حصیرا “۔ یعنی جہنم کو ہم نے کافروں کے لئے قید خانہ بنایا ہے اور الحصیر سے مراد ملک ہے کیونکہ اسے روک لیا جاتا ہے۔ اور لبید نے کہا ہے : وقمامم غلب الرقاب کا نھم جن لدی باب الحصیر قیام : اس میں باب الحصیر سے مراد ملک ہے۔ پس حضرت یحی (علیہ السلام) حصور تھے یہ بروزن فعول بمعنی مفعول ہے یعنی آپ عورتوں کے ساتھ مباشرت نہ کرسکتے تھے، گویا کہ انہیں اس سے روک لیا گیا جو کچھ مردوں میں ہوتا ہے، یہ حضرت ابن مسعود ؓ وغیرہ سے مروی ہے، اور فعول بمعنی مفعول لغت میں کثیر الاستعمال ہے، اسی سے حلوب بمعنی محلوبۃ ہے۔ شاعر نے کہا : فیما اثنتان واربعون حلوبۃ سودا کخافیۃ الغراب الاسحم “۔ اس میں حلوبۃ سے استدلال کیا گیا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، ابن جبیر ؓ ، قتادہ ؓ ، عطاء ؓ ابو الشعثاء ؓ ، حسن ؓ ، سدی ؓ ، اور ابن زید رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بیان کیا ہے : (حصور) اس سے مراد وہ ہے جو عورتوں سے باز رہتا ہے اور قدرت کے باوجود ان کے قریب نہیں جاتا۔ اور دو اعتبار سے یہی اصح قول ہے، ایک یہ ہے کہ یہ ان کی مدح اور تعریف ہے اور بلاشبہ تعریف اکثر فعل کسبی کے سبب ہوتی ہے نہ کہ فطری اور طبعی فعل پر اور دوسری وجہ یہ ہے کہ فعول لغت میں فاعل کے صیغوں میں سے ہے۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے : ضروب بنصل السیف سوق سمانھا اذا عدمو ازاد افانک عاقر “۔ اس میں محل استشہاد لفظ ضروب ہے۔ پس معنی یہ ہے کہ اپنے نفس کو شہوات سے روکنے والا ہے، اور شاید یہ انکی شریعت میں تھا اور رہی ہماری شریعت تو اس میں نکاح ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حصور سے مراد وہ عنین ہے جس کا ذکر نہ ہو کہ وہ اس کے سبب وطی کرسکتا ہو اور نہ اسے انزال ہوتا ہو یہ حضرت ابن عباس ؓ سے بھی، حضرت سعید ابن مسیب ؓ اور ضحاک ؓ نے کہا ہے، اور ابو صالح ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” ہر انسان اللہ تعالیٰ سے گناہ کے ساتھ ملاقات کرے گا، درآنحالیکہ اس نے اس گناہ کا ارتکاب کیا ہوگا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ اس کے سبب اسے عذاب دے گا یا پھر رحم فرمائے گا سوائے یحی بن زکریا کے، کیونکہ وہ (آیت) ” وسیدا وحصورا ونبیا من الصلحین “۔ تھے، پھر حضور نبی مکرم ﷺ نے اپنا دست مبارک زمین کے ایک تنکے کی طرف نیچے کیا اور اسے اٹھا لیا اور فرمایا : ” ان کا ذکر اس تنکے کی مثل تھا “۔ اور قول بھی ہے کہ اس کا معنی ہے : وہ اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچانے اور روکنے والا ہے۔ (آیت) ” ونبیامن الصلحین “۔ زجاج نے کہا ہے : الصالح الذی یؤدی للہ ما افترض علیہ والی الناس حقوقھم۔ (کہ صالح وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے اوپر عائد ہونے والے فرائض ادا کرتا ہے اور لوگوں کو ان کے حقوق عطا کرتا ہے۔
Top