Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 39
فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ هُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ١ۙ اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ
فَنَادَتْهُ : تو آواز دی اس کو الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتہ (جمع) وَھُوَ : اور وہ قَآئِمٌ : کھڑے ہوئے يُّصَلِّيْ : نماز پڑھنے فِي : میں الْمِحْرَابِ : محراب (حجرہ) اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يُبَشِّرُكَ : تمہیں خوشخبری دیتا ہے بِيَحْيٰى : یحییٰ کی مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا بِكَلِمَةٍ : حکم مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَسَيِّدًا : اور سردار وَّحَصُوْرًا : اور نفس کو قابو رکھنے والا وَّنَبِيًّا : اور نبی مِّنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار (جمع)
وہ ابھی عبادت گاہ میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے کہ فرشتوں نے آواز دی کہ (زکریا) خدا تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو خدا کے فیض (یعنی عیسیٰ ) کی تصدیق کریں گے اور سردار ہوں گے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھے والے اور (خدا کے پیغمبر (یعنی) نیکو کاروں میں ہوں گے
آیت نمبر : 39۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فنادتہ الملئکۃ “۔ حمزہ اور کسائی نے فنادہ مذکر ہونے کی بنا پر الف کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ دونوں اس میں امالہ کرتے ہیں کیونکہ یہ (الف) اصل میں یا ہے۔ اور یہ بھی کہ یہ چوتھی جگہ ہے اور حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی قرات الف کے ساتھ ہی ہے اور یہی ابو عبیدہ کی پسند ہے۔ اور جریر نے مغیرہ کے واسطہ سے ابراہیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : حضرت عبداللہ ؓ پورے قرآن میں ملائکہ کو مذکر قرار دیتے ہیں۔ ابو عبید نے کہا ہے : ہم انہیں جانتے ہیں کہ انہوں نے اسے مشرکین کے خلاف اختیار کیا ہے کیونکہ مشرکین نے کہا : ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ نحاس نے کہا ہے : یہ ایسا استدلال ہے جس سے کوئی شے حاصل نہیں کی جاسکتی کیونکہ عرب کہتے ہیں : قالت الرجال اور قال الرجال اور اسی طرح النساء کے ساتھ بھی کرتے ہیں (یعنی مذکر ومونث دونوں طرح استعمال کرلیتے ہیں۔ ) اور ان پر قرآن کریم سے استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے، اور اگر یہ جائز ہے کہ ان کے خلاف قرآن کریم سے اس طرح حجت لائی جائے تو پھر یہ بھی جائز ہے کہ ان کے خلاف قرآن کریم سے اس طرح حجت لائی جائے تو پھر یہ بھی جائز ہے کہ وہ اس قول باری تعالیٰ سے استدلال کریں : (آیت) ” واذ قالت الملئکۃ “۔ البتہ ان کے خلاف اس ارشاد میں حجت ہے : (آیت) ” اشھدوا خلقھم “۔ یعنی انہوں نے مشاہدہ نہیں کیا۔ پس وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ مونث ہیں، تحقیق یہ معلوم ہوگیا کہ یہ ظن اور محض خواہش ہے۔ اور رہا ” فناداہ “ تو یہ جمع کے مذکر ہونے کی بنا پر جائز ہے اور نادتہ جماعت کے مونث ہونے کی بنا پر جائز ہے۔ مکی نے کہا ہے : الملائکۃ ذوالعقول میں سے جمع مکسر ہے اور یہ تانیث میں قائم مقام غیر ذوی العقول کے ہے آپ کہتے ہیں : ھی الرجال وھی الجذوع وھی الجمال وقالت الاعراب، اور اسے یہ ارشاد اور تقویت دیتا ہے۔ (آیت) ” واذ قالت الملئکۃ اور دوسری جگہ مذکور ہے : (آیت) ” والملائکۃ باسطوا ایدیھم “ اور اسی طرح اجماع ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” والملائکۃ یدخلون علیھم من کل باب “۔ پس اس جمع کو مذکر ومونث دونوں طرح لانا اچھا ہے اور سدی نے کہا ہے : اکیلے حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے انہیں ندادی۔ (ناداہ جبرائیل وحدہ) اور اسی طرح حضرت ابن مسعود ؓ کی قرات میں ہے اور قرآن کریم میں ہے : (آیت) ” ینزل الملائکۃ بالروح من امرہ “۔ مراد جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ اور روح سے مراد وحی ہے۔ اور عربی میں یہ جائز ہے کہ واحد کے بارے میں جمع کے لفظ ساتھ خبر دی جائے اور قرآن کریم میں آیا ہے : (آیت) ” الذین قال لھم الناس “۔ الناس سے مراد نعیم بن مسعود ہے، جیسا کہ آگے آئئے گا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے تمام ملائکہ نے ندا دی اور یہی زیادہ ظاہر ہے۔ یعنی ندا ان کی جانب سے آئی۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” وھو قآئم یصلی فی المحراب ان اللہ یبشرک “۔ اس میں، (آیت) ” وھو قائم “۔ مبتدا اور خبر ہے، اور ’ یصلی “ محل رفع میں ہے اور اگر چاہے تو ضمیر سے حال ہونے کی بنا پر محل نصب میں رکھ لے، (آیت) ” ان اللہ “ اصل میں بان اللہ ہے۔ حمزہ اور کسائی نے ” ان “ پڑھا ہے یعنی قالت ان اللہ، پس ندا بمعنی قول ہے۔ (آیت) ” یبشرک تشدید کے ساتھ اہل مدینہ کی قرات ہے۔ اور حمزہ نے ” یبشرک مخفف پڑھا ہے اسی طرح حمید بن قیس مکی نے کہا ہے مگر یہ کہ انہوں نے شین کو کسرہ یا ضمہ اور با کو تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے، اخفش نے کہا ہے : یہ تینوں لغات ایک معنی میں ہیں۔ پہلی کی دلیل اور یہ ایک جماعت کی قرات ہے کہ اس مادہ سے جو بھی فعل ماضی یا امر کا صیغہ قرآن کریم میں ہے وہ تثقیل کے ساتھ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فبشر عبادی، فبشرہ بمغفرۃ، فبشرنا ھا باسحاق، قالوا بشرناک بالحق “۔ اور ہی دوسری تو وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قرات ہے اور وہ بشر یبشر سے ہے اور وہ اہل تہامہ کی لغت ہے، اور اسی سے شاعر کا قول بھی ہے : بشرت عیالی اذ رایت صحیفۃ اتتک من الحجاج یتلی کتابھا۔ اس میں محل استشہاد بشرت ہے۔ اور دوسرے نے کہا : واذا رایت الباھشین الی الندی عبرا اکفھم بقاع ممحل : فاعنھم وابشرمابشروا بہ واذا ھم نزلوا بضنک فانزل :۔ اس میں محل استشہاد بما بشروا بہ ہے۔ اور جہاں تک تیسری قرات کا تعلق ہے تو وہ ابشر یبشرا بشارا سے ہے۔ شاعر نے کہا : یا امر عمرو ابشری بالبشری موت ذریع وجراد عظلی۔ اس میں محل استشہاد ابشری ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” بیحی پہلی کتاب میں ان کا نام حیا تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ سارہ کا نام یسارہ تھا، اور عربی میں اس کی تفسیر لاتلد (وہ بچے نہ جنے گی) ہے، پس جب انہیں اسحاق کی بشارت دی گئی تو انہیں کہا گیا : سارہ اور انہیں یہ نام حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے دیا، تو انہوں نے کہا : اے ابراہیم (علیہ السلام) میرے نام سے ایک حرف کیوں کم کردیا گیا ہے ؟ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہی جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا تو انہوں نے کہا : ” بلاشبہ یہ حرف ان کے اس بیٹے کے نام میں زائد کردیا گیا ہے جو افضل انبیاء میں سے ہے اس کا نام حی ہے اور اس کا نام یحی رکھ دیا گیا ہے۔ “ نقاش نے اسے ذکر کیا ہے اور حضرت نے کہا ہے : ان کا نام یحییٰ رکھا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان اور نبوت کے ساتھ پیدا فرمایا (اور زندہ رکھا) اور بعض نے کہا ہے : ان کا نام یحی رکھا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب لوگوں کو ہدایت کے ساتھ احیا عطا فرمایا اور مقاتل نے کہا ہے : ان کا اسم اللہ تعالیٰ کے اسم حی سے مشتق ہے پس یحی نام رکھ دیا گیا ہے، اور یہ قول بھی ہے : کیونکہ ان کے سبب اللہ تعالیٰ نے انکی ماں کی رحم کو زندہ کردیا۔ (آیت) ” مصدقا بکلمۃ من اللہ “۔ اکثر مفسرین کے قول کے مطابق کلمۃ من اللہ سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمہ اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے، پس وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے، ابو السمال العدوی نے ” بکلمۃ “ تمام قرآن میں کاف کو مکسور اور لام کو ساکن پڑھا ہے، اور یہ فصیح لغت ہے جیسا کہ کتف اور فخذ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام کلمہ اس لئے ہے کیونکہ لوگ ان سے اسی طرح ہدایت پاتے تھے جس طرح اللہ تعالیٰ کے کلام سے ہدایت اور راہنمائی پاتے تھے۔ اور ابو عبید نے کہا ہے : (آیت) ” بکلمۃ من اللہ “ معنی ہے بکتاب من اللہ (یعنی جو تصدیق کرنے والا ہوگا اللہ تعالیٰ کی کتاب کی) فرمایا : اور عرب کہتے ہیں انشدنی کلمۃ ای قصیدۃ اس نے میرے سامنے قصیدہ پڑھا، جیسا کہ روایت ہے کہ الحویدرہ کا حضرت حسان ؓ کے پاس ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : لعن اللہ کلمتہ یعنی قصیدتہ “۔ (اللہ تعالیٰ اس نے قصیدہ پر لعنت کرے) اور اس کے علاوہ بھی کئی اقوال کہے گئے ہیں۔ پہلا قول زیادہ مشہور ہے اور اکثر علماء اسی پر ہیں اور یحی (علیہ السلام) وہ پہلے فرد ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ایمان لائے اور ان کی تصدیق کی، اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تین سال بڑے تھے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چھ مہینے بڑے تھے اور دونوں خالہ زاد بھائی تھے۔ پس جب حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کی شہادت سنی تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اٹھے اور انہیں اپنے ساتھ ملا لای اور وہ ایک کپڑے میں (لپٹے) پڑے تھے اور علامہ طبری نے ذکر کیا ہے کہ حضرت مریم (علیہ السلام) جب حضرت عسیٰ (علیہ السلام) سے حاملہ ہوئیں تو اسی وقت ان کی بہن حضرت یحییٰ (علیہ السلام) سے حاملہ تھی، تو وہ اپنی بہن کی ملاقات کے لئے آئی اور کہا : اے مریم ! کیا تجھے معلوم ہوا ہے کہ میں حاملہ ہوں ؟ تو حضرت مریم (علیہا السلام) نے اسے کہا : کیا تو نے محسوس کیا ہے میں حاملہ ہوں ؟ تو اس نے آپ کو کہا : جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے پا رہی ہوں کہ وہ اسے سجدہ کر رہا ہے جو تیرے پیٹ میں ہے، اسی وجہ سے یہ روایت کیا گیا کہ انہوں نے اپنے جنین کو محسوس کیا کہ وہ اپنا سر حضرت مریم کے پیٹ کی طرف جھکا رہا ہے، سدی نے کہا ہے : پس اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” مصدقا بکلمۃ من اللہ “۔ اور مصدقا “ حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ ” وسیدا “ اس کے معنی السید (سردار) وہ جو اپنی قوم کا سردار ہوتا ہے، اور اس کے قول پر (کسی کام کی) انتہا ہوجاتی ہے اور اس کی اصل ” سیود “ ہے کہا جاتا ہے : فلان اسود من فلان۔ یہ افعل کے وزن پر صیغہ اسم تفضیل ہے اور السیادۃ سے بنایا گیا ہے اور اسی میں اس پر دلیل موجود ہے کہ انسان کا نام سید رکھنا جائز ہے جیسا کہ یہ جائز ہوتا ہے کہ اس کا نام عزیز یا کریم رکھا جائے۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث نمبر 3812، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اسی طرح حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے بنی قریضہ (٭) (تفسیر میں الفاظ یہی ہیں جبکہ اصل میں یہ ارشاد حضرت سعد بن معاذ کے حق میں انصار کو ہے) کو فرمایا : (اپنے سردار کے لئے کھڑے ہو) اور بخاری ومسلم میں ہے (2) (ایضا کتاب الصلح، حدیث نمبر 2505۔ ضیاء القرآن پبلی کیشنز) کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت امام حسن ؓ کے بارے فرمایا : ان ابنی ھذا سید ولعل اللہ یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین “۔ (بلاشبہ میرا یہ بیٹا سید (سردار) ہے اللہ تعالیٰ اس کے سبب مسلمانوں کے دو بہت بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا) اور پھر اسی طرح ہوا، کیونکہ جب حضرت علی ؓ شہید ہوئے تو چالیس ہزار سے زائد لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور بہت سے ان میں سے تھے جو انکے باپ سے پیچھے رہ گئے تھے اور ان میں سے تھے جنہوں نے ان کی بیعت توڑ دی تھی، آپ تقریبا سات ماہ تک عراق اور اس کے بعد خراسان میں خلیفہ رہے، پھر آپ اہل حجاز اور اہل عراق کا لشکر ساتھ لے کر حضرت امیر معاویہ ؓ کی طرف چلے اور حضرت امیر معاویہ ؓ اہل شام کو لے کر آپ کی طرف چلے، پس جب دونوں لشکر ایک جگہ آمنے سامنے ہوئے وہ انبار کی اطراف میں عراق کی زمین میں سے مسکن کہلاتی ہے، تو امام حسن ؓ نے جنگ کو ناپسند کیا، کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ دونوں گروہوں میں سے کوئی ایک غالب نہیں آسکتا یہاں تک کہ دوسرے کا اکثر حصہ ہلاک ہوجائے، پس مسلمان ہلاک ہوں گے، تو آپ نے ان شرائط پر معاملہ حضرت امیر معاویہ ؓ کے سپرد کردیا جو شرائط آپ نے ان پر عائد کی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ امیر معاویہ ؓ کے بعد امارت (حکمرانی) آپ کی ہوگی، پس امیر معاویہ ؓ نے ان تمام کا التزام کیا، پس حضور نبی مکرم ﷺ کا فرمان سچا ثابت ہوا ان ابنی ھذا سید بلاشبہ میرا یہ بیٹا سردار ہے، اور اس سے بڑا سردار کوئی نہیں ہو سکتا جسے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول سردار بنائے، حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے، کہ ” وسیدا “ کا مفہوم ہے کہ وہ علم و عبادت میں سردار ہیں، ابن جبیر اور ضحاک نے کہا ہے : علم اور تقوی میں سردار ہیں۔ مجاہد (رح) نے کہا ہے : السید سے مراد کریم سخی ہے۔ ابن زید نے کہا ہے : وہ جس پر غصہ غالب نہ آتا ہو۔ اور زجاج نے کہا ہے : سید وہ ہے جو اپنے ساتھیوں پر خیر اور نیکی کے کام میں فوقیت رکھتا ہو۔ اور یہ لفظ (تمام) کو جامع ہے، اور کسائی نے کہا ہے : السید کا معنی دو سال کی بھیڑ بھی ہے۔ اور حدیث میں ہے : ثنی من الضان خیر من السید المعز، بھیڑوں میں دوندی دو برس کی بھیڑ سے بہتر اور افضل ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے : سواء علیہ شاۃ عام دئت لہ لیذبحھا للضیف ام شاہ سید۔ (آیت) ” وحصورا “ یہ اصل ہے الحصر سے ماخوذ ہے اور اس کا معنی ہے روکنا، قید کرنا، حصرنی الشیء واحصرنی جب کوئی شے مجھے روک لے۔ جیسا کہ ابن میادہ نے کہا ہے : وما ھجر لیلی ان تکون تباعدت علیک ولا ان احصرتک شغول : اور ناقۃ حصور : صیقۃ الاحلیل یعنی جس اونٹنی کے تھنوں (یاپیشاب) کا سوراخ تنگ ہو۔ اور حصوروہ ہوتا ہے جو عورتوں کے پاس نہ آسکتا ہو (یعنی جماع کے قابل نہ ہو) گویا کہ اسے ان سے روک دیا گیا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے : رجل وحصور وحصیر جب کہ وہ اپنی بخشش اور عطا کو روک لے اور وہ کچھ نہ نکالے جو کچھ اس کے ہم نشین نکال رہے ہیں کہا جاتا ہے : شرب القوم فحصر علیہم فلان ای بخل، (قوم نے شراب پی تو ان پر فلاں نے پابندی لگا دی، یعنی اس نے ان کے ساتھ بخل کیا۔ ) یہ ابو عمرو سے منقول ہے۔ اخطل نے کہا ہے : وشارب مربح بالک اس نادمنی لا بالحصور ولا فیھا بسوار۔ اور قرآن کریم میں ہے (آیت) ” وجعلنا جھنم للکافرین حصیرا “۔ یعنی جہنم کو ہم نے کافروں کے لئے قید خانہ بنایا ہے اور الحصیر سے مراد ملک ہے کیونکہ اسے روک لیا جاتا ہے۔ اور لبید نے کہا ہے : وقمامم غلب الرقاب کا نھم جن لدی باب الحصیر قیام : اس میں باب الحصیر سے مراد ملک ہے۔ پس حضرت یحی (علیہ السلام) حصور تھے یہ بروزن فعول بمعنی مفعول ہے یعنی آپ عورتوں کے ساتھ مباشرت نہ کرسکتے تھے، گویا کہ انہیں اس سے روک لیا گیا جو کچھ مردوں میں ہوتا ہے، یہ حضرت ابن مسعود ؓ وغیرہ سے مروی ہے، اور فعول بمعنی مفعول لغت میں کثیر الاستعمال ہے، اسی سے حلوب بمعنی محلوبۃ ہے۔ شاعر نے کہا : فیما اثنتان واربعون حلوبۃ سودا کخافیۃ الغراب الاسحم “۔ اس میں حلوبۃ سے استدلال کیا گیا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، ابن جبیر ؓ ، قتادہ ؓ ، عطاء ؓ ابو الشعثاء ؓ ، حسن ؓ ، سدی ؓ ، اور ابن زید رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بیان کیا ہے : (حصور) اس سے مراد وہ ہے جو عورتوں سے باز رہتا ہے اور قدرت کے باوجود ان کے قریب نہیں جاتا۔ اور دو اعتبار سے یہی اصح قول ہے، ایک یہ ہے کہ یہ ان کی مدح اور تعریف ہے اور بلاشبہ تعریف اکثر فعل کسبی کے سبب ہوتی ہے نہ کہ فطری اور طبعی فعل پر اور دوسری وجہ یہ ہے کہ فعول لغت میں فاعل کے صیغوں میں سے ہے۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے : ضروب بنصل السیف سوق سمانھا اذا عدمو ازاد افانک عاقر “۔ اس میں محل استشہاد لفظ ضروب ہے۔ پس معنی یہ ہے کہ اپنے نفس کو شہوات سے روکنے والا ہے، اور شاید یہ انکی شریعت میں تھا اور رہی ہماری شریعت تو اس میں نکاح ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حصور سے مراد وہ عنین ہے جس کا ذکر نہ ہو کہ وہ اس کے سبب وطی کرسکتا ہو اور نہ اسے انزال ہوتا ہو یہ حضرت ابن عباس ؓ سے بھی، حضرت سعید ابن مسیب ؓ اور ضحاک ؓ نے کہا ہے، اور ابو صالح ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” ہر انسان اللہ تعالیٰ سے گناہ کے ساتھ ملاقات کرے گا، درآنحالیکہ اس نے اس گناہ کا ارتکاب کیا ہوگا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ اس کے سبب اسے عذاب دے گا یا پھر رحم فرمائے گا سوائے یحی بن زکریا کے، کیونکہ وہ (آیت) ” وسیدا وحصورا ونبیا من الصلحین “۔ تھے، پھر حضور نبی مکرم ﷺ نے اپنا دست مبارک زمین کے ایک تنکے کی طرف نیچے کیا اور اسے اٹھا لیا اور فرمایا : ” ان کا ذکر اس تنکے کی مثل تھا “۔ اور قول بھی ہے کہ اس کا معنی ہے : وہ اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچانے اور روکنے والا ہے۔ (آیت) ” ونبیامن الصلحین “۔ زجاج نے کہا ہے : الصالح الذی یؤدی للہ ما افترض علیہ والی الناس حقوقھم۔ (کہ صالح وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے اوپر عائد ہونے والے فرائض ادا کرتا ہے اور لوگوں کو ان کے حقوق عطا کرتا ہے۔
Top