Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 39
فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ هُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ١ۙ اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ
فَنَادَتْهُ : تو آواز دی اس کو الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتہ (جمع) وَھُوَ : اور وہ قَآئِمٌ : کھڑے ہوئے يُّصَلِّيْ : نماز پڑھنے فِي : میں الْمِحْرَابِ : محراب (حجرہ) اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يُبَشِّرُكَ : تمہیں خوشخبری دیتا ہے بِيَحْيٰى : یحییٰ کی مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا بِكَلِمَةٍ : حکم مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَسَيِّدًا : اور سردار وَّحَصُوْرًا : اور نفس کو قابو رکھنے والا وَّنَبِيًّا : اور نبی مِّنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار (جمع)
پھر اس کو آواز دی فرشتوں نے جب وہ کھڑے تھے نماز میں حجرے کے اندر کہ اللہ تجھ کو خوشخبری دیتا ہے یحییٰ کی55 جو گواہی دیگا اللہ کے ایک حکم کی اور سردار ہوگا اور عورت کے پاس نہ جائیگا اور نبی ہوگا صالحین سے56
55 فَا تعقیب کیلئے ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کا ما بعد اس کے ماقبل پر مرتب ہے یعنی جب حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بیٹے کی دعا کی تو اس کے نتیجہ میں اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور بیٹے کی خوشخبری سنانے کے لیے فرشتے ان کے پاس بھیجے۔ چناچہ جب حضرت زکریا (علیہ السلام) اپنے حجرہ میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اس وقت فرشتوں نے آپ کو خوشخبری دی۔ 56:۔ مُصَدِّقاً مع معطوفات یحییٰ سے حال ہے اور کلمہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں۔ چناچہ یہی حضرت ابن عباس، مجاہد، قتادہ اور اجلہ مفسرین سے منقول ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمہ اس لیے کہا گیا کہ ان کی پیدائش اسباب عادیہ کے بغیر محض لفظ کن سے ہوئی۔ والمراد بالکلمۃ عیسیٰ (علیہ السلام) وھو المروی عن ابن عباس و مجاھد وقتادۃ وعلیہ اجلۃ المفسرین وانما سمی عیسیٰ (علیہ السلام) بذلک لانہ وجد بکلمۃ کن۔ من دون توسط سبب عادی الخ (روح ج 3 ص 147) یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) فی قول اکثر المفسرین وسمی عیسیٰ کلمۃ لانہ کان بکلمۃ اللہ تعالیٰ التیھی کن۔ فکان من غیر اب (قرطبی ج 4 ص 76) اس سے معلوم ہوا کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی حیثیت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے نقیب اور تصدیق کنندہ کی تھی۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی اس بات کی تصدیق کی جو کتب سابقہ میں لکھی ہوئی تھی کہ میں ایک شخص کو بغیر باپ کے پیدا کروں گا۔ بعض مفسرین نے تصدیق سے ایمان مراد لیا ہے۔ چناچہ وہ سب سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور اس بات کی تصدیق کی کہ وہ کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں۔ وارید بھذا التصدیق الایمان وھو اول من امن بعیسی (علیہ السلام) وصدق انہ کلمۃ اللہ تعالیٰ وروح منہ فی المشھور (روح۔ ج 3 ص 147، کبیر ج ص 664) سیداً سے مراد ہے دین کے معاملات میں رہنما اور پاکبازی میں سب سے فائق اور برتر۔ حَصُوْراً جو اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو اور لذات وشہوات اور گناہوں سے کنارہ کش ہو۔ نَبِیّاً کے ساتھ مِنَ الصَّالِحِیْنَ کی قید بظاہر زئد معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ ہر نبی لازمی طور پر صالح ہوتا ہے۔ لیکن یہ قید صلاح کا اعلیٰ درجہ بیان کرنے کے لیے ذکر کی گئی ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کو صلاح وتقویٰ کا درجہ اتم حاصل تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے زندگی بھر گناہ کا خیال تک نہیں کیا۔ کذا فی الکبیر ج 2 ص 665 ۔
Top