Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 39
فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ هُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ١ۙ اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ
فَنَادَتْهُ : تو آواز دی اس کو الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتہ (جمع) وَھُوَ : اور وہ قَآئِمٌ : کھڑے ہوئے يُّصَلِّيْ : نماز پڑھنے فِي : میں الْمِحْرَابِ : محراب (حجرہ) اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يُبَشِّرُكَ : تمہیں خوشخبری دیتا ہے بِيَحْيٰى : یحییٰ کی مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا بِكَلِمَةٍ : حکم مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَسَيِّدًا : اور سردار وَّحَصُوْرًا : اور نفس کو قابو رکھنے والا وَّنَبِيًّا : اور نبی مِّنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار (جمع)
وہ ابھی عبادت گاہ میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے کہ فرشتوں نے آواز دی کہ (زکریا) خدا تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو خدا کے فیض (یعنی عیسیٰ ) کی تصدیق کریں گے اور سردار ہوں گے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھے والے اور (خدا کے پیغمبر (یعنی) نیکو کاروں میں ہوں گے
سیدوہ ہوتا ہے جس کی اطاعت کی جائے اور غیر اللہ کو بھی سیدکہہ سکتے ہیں قول باری ہے (وسیداوحصورانبیا من الصالحین، اس میں سرداری و بزرگی کی شان ہوگی، کمال درجے کا ضابطہ ہوگا، نبوت سے سرفرازہوگا اور صالحین میں شمار کیا جائے گا آیت اس پر دلالت کررہی ہے کہ غیر اللہ کو سید کے نام سے موسم کرنا جائز ہے۔ اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ کو سید کے نام سے موسوم کیا اور سیدوہ ہوتاجس کی طاعت واجب ہوتی ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ جب حضرت سعدبن معاذ آپ کے اور بنی قریظہ کے درمیان حکم یعنی ثالث تسلیم کرلیے گئے تو آپ نے ان کی آمدپرانصارکوحکم دیا کہ (قوموا الی سیدکم، اپنے سردار کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاؤ) اسی طرح آپ نے حضرت حسن ؓ کے متعلق فرمایا (ان ابنی ھذاسید، میرایہ بیٹا سید یعنی سردار ہے) آپ نے بنی سلمہ سے پوچھا، اے بنی سلمہ ! تمھاراسردارکون ہے ؟ انہوں نے جو اباعرض کیا، الحربن قیس ہمارے سردار ہیں، البتہ ان میں بخل پایاجاتا ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا۔ بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہوسکتی ہے۔ لیکن تم لوگوں کے سردارسفید گھنگھریایالے بالوں والے عمروبن الجموح ہیں۔ یہ تمام روایات اس پرولالت رتی ہیں کہ جس شخص کی طاعت واجب ہوا سے سیدکہنا جائز ہے۔ سیدوہ نہیں ہوتا جو صرف کسی چیز کا مالک ہو۔ اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ کہنا درست ہوتا کہ، فلاں شخص غلام کاسید ہے۔ روایت ہے کہ بنوعامرکا ایک وفدحضور ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اور عرض کیا، آپ ہمارے سید اور ہم پر بخشش کرنے والے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا، سیدتو اللہ تعالیٰ ہے، تم اپنی بات کرو شیطان تمہیں بہکاوے میں نہ ڈالے، حضور ﷺ اگرچہ اولادآدم کے سرداروں میں سب سے افضل تھے۔ لیکن جب آپ نے انہیں دیکھاتو وہ یہ کہتے ہوئے تکلف سے کام لے رہے ہیں تو آپ نے اسے تاپسند کیا۔ جس طرح آپ کا ارشاد ہے (ان ابفضکم الی الثرثارون المتشدقون المتفیھقون، میرے لیے تم میں سب سے ناپسند دیدہ وہ لوگ ہیں جو بک بک کرنے والے باچھین پھیلاکربغیر کسی احتیاط کے بولنے والے اور منہ پھیلاکرباتیں کرنے والے ہیں) آپ نے تصنع اور بناوٹ کے طورپر ان کی تکلفانہ گفتگوکوناپسند فرمایا۔ منافق کو سیدنہ کہاجائے آپ سے مروی ہے کہ (لاتقولوالمنافق سیدافانہ ان یک سیدا ھلکتم، منافق کو سیدمت کہو اس لیے کہ اگر وہ سیدہوگیا توپھرتمھاری تباہی آجائے گی) آپ نے منافق کو سیدکہنے سے منع فرمادیا اس لیے کہ اس کی اطاعت واجب نہیں ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے (ربنا اطعنا سادتناوکبرآء نافاضلوناالسبیلا، اے ہمارے پروردگار ! ہم نے اپنے بڑوں اور سرداروں کی پیروی کی انہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے ہٹاکرگمراہ کردیا) لوگوں نے اپنے سرداروں کو سادات کا نام دیاحالان کہ وہ گمراہ تھے، اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ لوگوں نے انہیں وہ مرتبہ دے دیاتھاجو اس شخص کا ہوتا ہے جس کی طاعت واجب ہوتی ہے اگرچہ وہ اس طاعت کا مستحق نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ لوگ ان کے نزدیک اور ان کے اعتقاد میں ان کے سید اور سردار تھے جس طرح کہ قول باری ہے (فمااغنت عنھم الھتکم، ان کے معبودان باطل ان کے کچھ کام نہ آئے) حالانکہ حقیقت میں یہ ان کے معبود نہیں تھے۔ لیکن انہوں نے ان کو معبودوں کے نام سے موسوم کررکھا تھا اس لیئے کلام کو بھی ان کے زعم باطل اور اعتقاد فاسد کے مطابق جاری کیا گیا۔
Top