Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 39
فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ هُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ١ۙ اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ
فَنَادَتْهُ : تو آواز دی اس کو الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتہ (جمع) وَھُوَ : اور وہ قَآئِمٌ : کھڑے ہوئے يُّصَلِّيْ : نماز پڑھنے فِي : میں الْمِحْرَابِ : محراب (حجرہ) اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يُبَشِّرُكَ : تمہیں خوشخبری دیتا ہے بِيَحْيٰى : یحییٰ کی مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا بِكَلِمَةٍ : حکم مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَسَيِّدًا : اور سردار وَّحَصُوْرًا : اور نفس کو قابو رکھنے والا وَّنَبِيًّا : اور نبی مِّنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار (جمع)
پس انہیں فرشتوں نے آواز دی اس حال میں کہ وہ حجرہ میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے کہ اللہ آپ کو یحییٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دیتا ہے،104 ۔ جو کلمۃ اللہ کی تصدیق کرنے والے ہوں گے اور مقتداء ہوں گے اور بڑے ضبط نفس کرنے والے ہوں گے اور نبی ہوں گے صالحین میں سے۔105 ۔
104 ۔ (دعا معا قبول ہوگئی۔ اور آپ کی حالت نماز ہی میں فرزند کی بشارت مل گئی) (آیت) ” المآئکۃ “۔ صیغہ جمع ہے لیکن لازمی نہیں کہ آواز دینے والے کئی ہوں، صیغہ جمع اسم جنس کا بھی کام دیتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ آواز دینے والاایک ہی فرشتہ ہو۔ و جائز فی العربیۃ ان یخبر عن لفظ الجمع (قرطبی) قال الزجاج ای اتاہ النداء من ھذا الجنس الذین ھم الملئکۃ (ابوسعود) ذلک جائز فی کلام العرب بان تخبر عن الواحد بمذھب الجمع (ابن جریر) (آیت) ” یحی “۔ عہد جدید کے صحیفوں میں ان کا نام یوحنا آتا ہے۔ انجیل میں اس موقع پر آتا ہے۔” فرشتہ نے اس سے کہا۔ اے زکریا خوف نہ کر کیونکہ تیری دعا سنی گئی اور تیری بیوی الیشبع تیرے لئے بیٹا جنے گی تو اس کا نام یوحنا رکھنا اور تجھے خوشی وخرمی ہوگی (لوقا 1: 14) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خالہ زاد بھائی اور آپ سے سن میں حسب روایت انجیل صرف چھ مہینہ بڑے تھے 30 ء ؁ میں والئے ہیرود کے حکم سے شہید ہوئے۔ 105 ۔ (آیت) ” کلمۃ من اللہ “۔ جس طرح روح القدس لقب حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کا ہے کلمۃ اللہ لقب حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ہے۔ یعنی عیسیٰ فی قول اکثر المفسرین (قرطبی) وھو اختیار الجمھور (کبیر) قالہ ابن عباس و مجاھد والحسن وقتادۃ والسدی وغیرھم (بحر) مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ آپ کی اصل حیثیت مسیح (علیہ السلام) کے پیش رو اور نقیب ہی کی تھی۔ بعض نے کلمۃ اللہ سے مراد کتاب اللہ بھی لی ہے۔ قال ابوعبید معنی بکلمۃ من اللہ بکتاب من اللہ (قرطبی) (آیت) ” سیدا “۔ یعنی دین کے باب میں مقتدا و پیشوا۔ مسیحی تو خیر آپ کے تقدس کے قائل ہی ہیں۔ یہود جو آپ کے منکر اور آپ کے سخت دشمن ہیں، وہ بھی آپ کی مرجعیت ومقبولیت سے انکار نہیں کرتے۔ (آیت) ” حصورا “۔ یعنی لذات وشہوات پر اسے قابوحاصل ہوگا۔ اور وہ نہایت درجہ محتاط و متقی ہوگا۔ انجیل میں آپ کے زہد وتبتل کا ذکر تصریح کے ساتھ ہے۔ مثلا ‘۔ ” وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہوگا اور ہرگز نہ مئے نہ کوئی شراب پئے گا۔ اور اپنی ماں کے پیٹ ہی سے روح القدس سے بھرجائے گا “۔ (لوقا۔ 1: 16) اور بہت سے بنی اسرائیل کو خداوند کی طرف جو ان کا خدا ہے پھیرے گا اور وہ انبیاء کی روح اور قوت میں اس کے آگے آگے چلے گا کہ والدوں کے دل اولاد کی طرف اور نافرمانوں کو راستبازوں کی دانائی پر چلنے کی طرف پھیرے اور خداوند کے لیے ایک مستعد قوم تیار کرے “۔ (لوقا۔ 1: 17، 18) ” اور وہ لڑکا بڑھتا اور روح میں قوت پاتا گیا اور اسرائیل پر ؔ ظاہر ہونے کے دن تک جنگلوں میں رہا “۔ (لوقا۔ 1:80) (آیت) ” نبیا من الصلحین “۔ حضرت یحی (علیہ السلام) کی نبوت کا اثبات یہود کے مقابلہ میں ہے جو نعوذ باللہ آپ کو ایک بنا ہوا انسان سمجھتے تھے اور آپ کی صالحیت کا اثبات یہود کے مقابلہ میں تو مسلم ہے لیکن خود مسیحیوں کے مقابلہ میں بھی ہے جن کے نزدیک عصمت وتقوی لازمۂ نبوت تھیں۔
Top