Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 39
فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ هُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ١ۙ اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ
فَنَادَتْهُ : تو آواز دی اس کو الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتہ (جمع) وَھُوَ : اور وہ قَآئِمٌ : کھڑے ہوئے يُّصَلِّيْ : نماز پڑھنے فِي : میں الْمِحْرَابِ : محراب (حجرہ) اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يُبَشِّرُكَ : تمہیں خوشخبری دیتا ہے بِيَحْيٰى : یحییٰ کی مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا بِكَلِمَةٍ : حکم مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَسَيِّدًا : اور سردار وَّحَصُوْرًا : اور نفس کو قابو رکھنے والا وَّنَبِيًّا : اور نبی مِّنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار (جمع)
پھر ایسا ہوا کہ فرشتوں نے زکریا (علیہ السلام) کو پکارا اور وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا کہ (اے زکریا ! ) اللہ تجھے یحییٰ (علیہ السلام) کی بشارت دیتا ہے وہ حکم الٰہی سے تصدیق کرنے والا ، جماعت کا سردار ، پارسا اور اللہ کے بندوں (اور نبیوں) میں سے ایک نبی ہو گا
قبولیت کا وقت ہو تودیر کب ہوتی ہے ؟ ہاں ! اس وقت کو بھی تو کوئی نہیں جانتا : 97: زکریا (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوگئی اور ان کو فرشتوں نے آواز دی اس حال میں کہ وہ حجرہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ ” فَنَادَتْہُ الْمَلَائِكَةُ “ بعض مفسرین نے اس سے مراد جبرئیل (علیہ السلام) فرشتہ کو لیا ہے اور بعض کے نزدیک ایک جماعت ملائکہ نے پیغام بشارت سنایا تھا۔ بہرحال اگر وہ پوری جماعت فرشتوں کی ہو تو بھی ظاہر ہے کہ ان کے قائد نے پیغام الٰہی پہنچایا ہوگا۔ مقصد اصلی پیغام بشارت پہنچانا ہے اس کی جو صورت بھی تھی پھر زکریا (علیہ السلام) صرف کاہن ہیکل ہی نہ تھے بلکہ اللہ کے نبی بھی تھے انبیا کو وحی کا پیغام پہنچانے کے لیے جو طریقہ تھا اس طریقہ سے یہ پیغام وحی جو ایک بشارت کا درجہ رکھتا تھا پہنچا دیا گیا۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا : یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ ا۟سْمُهٗ یَحْیٰى (مریم 19 : 7) ” اے زکریا (علیہ السلام) ! ہم تجھے ایک لڑکے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں کہ اس کا نام یحییٰ رکھا جائے۔ “ عہد جدید میں ان کا نام یوحنا آتا ہے۔ چناچہ انجیل میں ہے کہ : ” فرشتہ نے اس سے کہا اے زکریا ! خوف نہ کر کیونکہ تیری دعا سنی گئی اور تیری بیوی الیشع تیرے لیے بیٹاجنے گی تو اس کا نام یوحنا رکھنا اور تجھے خوشی و خرمی ہوگی۔ “ (لوقا 41 : 1 ) یحییٰ (علیہ السلام) کی بشارت زکریا (علیہ السلام) کو سنائی گئی : 98: ” یحییٰ “ مفردات امام راغب میں ہے کہسمائ بذلک منحیث انہ لم تمتہ الذنوب کما اماتت کثیراً من ولد آدم یعنی اس کا نام یحییٰ رکھا اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کہ گناہ سے اس موت نہیں آئے گی جیسا کہ بہت سے آدم کے بیٹوں پر آئی ” بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یحییٰ کا نام بتانے میں اشارہ تھا کہ جس طرح بنی اسرائیل کی عامہ حالت اس وقت تھی کہ وہ فسق و فجور میں مبتلا تھے اور اعلیٰ درجہ کے نیک اور نہایت سچے اور راست باز انسان ان میں عموماً نہ رہے تھے۔ یہ لڑکا ایسانہ ہوگا بلکہ وہ بھی اپنے والد سیدنا زکریا (علیہ السلام) کی طرح روحانی زندگی کا وارث ہوگا۔ گویا بیٹے کی خوشخبری کے ساتھ ہی بیٹے کی عمر کی رجسٹریشن بھی کردی کہ پیدا ہونے کے بعد جلد ہی نہیں مرجائے گی بلکہ اتنی زندگی پائے گا کہ اس کو نبی بنا دیا جائے گا وہ نبوت کا پیغام لوگوں تک پہنچائے گا اور سب سے بڑی اور یقینی بات یہ ہوئی کہ اس طرح گناہ کی موت اس پر نہ آئے گی۔ بعض نے یہ بھی کہا کہ یحییٰ نام اس طرف اشارہ کے لیے بتایا کہ اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو ایمان سے زندہ کرے گا یا اس لیے کہ وہ علم و حکمت سے زندہ ہوگا۔ (لسان عرب) یا اس لیے کہ اس کے ذریعے سے لوگ ہدایت کے ساتھ زندہ کیے جائیں گے اور وہ کفر کی موت سے نکال لیے جائیں گے۔ اناجیل میں ان کا نام یوحنا آتا ہے اور یوحنا بپتسمہ دینے والے کے نام سے یہ مشہور ہیں۔ انجیل کے مطابق انہوں نے ہی سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی بپتسمہ دیا تھا حالانکہ وہ اناجیل کے بیان کے مطابق ہی عیسیٰ (علیہ السلام) سے صرف 6 ماہ بڑے تھے۔ اس طرح ان کا اور سیدنا مسیح (علیہ السلام) کا زمانہ ایک ہی تھا۔ ان کا ظہور کچھ حضرت مسیح سے پہلے ہوا یہ عجیب بات ہے کہ سلسلہ موسیٰ کی ابتدا بھی دونبیوں سے موسیٰ اور ہارون سے ہی ہوتی ہے اور اس کا خاتمہ بھی دو نبیوں یعنی یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) پر ہی ہوتا ہے۔ جس طرح سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کی اصلاح کا ساراکام اکیلے نہ کرسکتے تھے بالکل اسی طرح حضرت یحییٰ (علیہ السلام) بھی اکیلے ہی کام نہ کرسکتے تھے اور اس بات کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ جو کام سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے سپرد کیا جانے والا تھا علم الٰہی میں موجود تھا کہ وہ اکیلے اس کام کو نباہ نہیں سکتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل ہی اس کام کو یحییٰ (علیہ السلام) کے سپرد کردیا تاکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے آسانی پیدا ہوجائے۔ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کے کام کا کچھ حصہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے کیا اس طرح حضرت یحییٰ نے بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے لوگوں کو تیار کرنا شروع کردیا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دونوں کے لیے سابقہ میں کچھ پیش گوئیاں تھیں۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے لیے پیش گوئی ان الفاظ میں ملاکی نبی کی کتاب میں موجود تھی ” دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں الیاہ نبی کو تمہارے ہاں بھیجوں گا۔ “ (ملاکی 5 : 4) بظاہر اس پیشگوئی میں الیاس کے آنے کا ذکر ہے اور الیاس کے متعلق یہودیوں کا یہ خیال تھا کہ وہ زندہ آسمان پر چلا یا ہے کیونکہ ان کی کتاب میں اس طرح بھی لکھا تھا کہ ” ایلیاہ بگولے میں ہو کے آسمان پر جاتا رہا۔ “ (سلاطین 11 : 1 ) جب حضرت مسیح (علیہ السلام) نے دعویٰ رسالت کیا تو یہودیوں نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ ہماری پیشگوئیوں میں لکھا ہے مسیح سے پیشتر ضروری ہے کہ الیاس آئے چناچہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے شاگردوں نے یہ اعتراض حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے یہ جواب دیا ” ایلیاہ تو آچکا اور انہوں نے اس کو نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا اس طرح ابن آدم بھی ان کے ساتھ سے دکھ اٹھائے گا۔ “ اس کے بعد لکھا ہے کہ : ” تب شاگرد سمجھ گئے اس نے ہم سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی بابت کہا ہے۔ “ (متی 13 : 12۔ 17 ) اور دوسری جگہ اس کی وجہ اس طرح بیان کی ہے ” اور وہ ایلیاہ کی روح اور قوت میں اس کے آگے آگے چلے گا۔ “ كیا عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے یا نہیں ؟ : آگے بڑھنے سے پہلے ایک بات سمجھ لینا چاہیے کہ بائبل کا وہ بیان جو سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے متعلق ابھیاوپر گزرا ہو آپ نے پڑھ لیا کہ یہود کے زعم میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد سے پہلے ایلیا نبی کا آنا ضروری تھا اور ایلیاہ نبی کا آنا ضروری تھا اور ایلیاہ کون ہیں ؟ بائبل نے بتا دیا کہ وہ الیاس ہیں اور پھر آپ نے الیاس (علیہ السلام) کے متعلق پڑھا کہ یہودکاخیال تھا کہ وہ آسمان پر اٹھا لیے گئے ہیں اور ان کو مسیح (علیہ السلام) سے پہلے آسمان سے اترنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہوئی کہ یہود نے حضرت مسیح کو نبی ماننے سے انکار کیا۔ لیکن یہ بات اعتراضاً حضرت مسیح سے پوچھی گئی تو انہوں نے یحییٰ (علیہ السلام) کو مثیل یا بزورالیاس کہہ کر یہود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی دراصل و ایلیاہ یا الیاس جس کی آمد کے تم منتظر ہو وہ آگیا۔ اس لیے کہ میرے سے پہلے یحییٰ (علیہ السلام) جو آئے وہی دراصل الیاس یا الیاہ ہیں۔ ہمارے پنجابی نبی علیہ ما علیہ نے یہودکایہ بنا بنایامعاملہ سیدنامسیح (علیہ السلام) کے سہارے سے اپنے اوپر فٹ کرلیا اور اس طرح انہی کے دلائل کو جو بقول مرزاجی مسیح نے یہود کے خلاف استعمال کئے تھے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف استعمال کیے۔ کیونکہ مسلمان بھی ایک تصور رکھتے تھے کہ مہدی موعود آنے والے ہیں اور اس طرح یہ خیال عام ہے کہ مسیح (علیہ السلام) زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے ہیں اور ایک وقت آئے گا کہ ان کا نزول ہوگا۔ ان دونوں نظریوں کو مرزا جی اپنی نبوت کے لیے سہارا بنالیا اور اس سہارا کی بنیاد پر کبھی وہ مہدی موعود کہلائے اور کبھی وہ مثل مسیح یا بزورمسیح موعود بنتے رہے۔ حکومت وقت چونکہ دیار غیر سے آئے ہوئے لوگوں کی تھی یعنی انگریز کی ان کو ہر وقت اس بات کی فکر رہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح مسلمان مختلف گروہوں میں تقسیم ہوجائیں تاکہ ان کاشیرازہ بکھرا رہے۔ اس وقت کی تاریخ کو اگر آپ اٹھا کر دیکھیں تو آپ پر یہ باتروزروشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ اس وقت جتنی گروہ بندیاں موجود ہیں وہ ساری کی ساری اس دور کی پیدوار ہیں۔ خلافت راشدہ کے دور کے بعد عبداللہ بن سبائ جو دراصل ایک یہودی تھا اسلام کا لبادہ پہن کر مسلمانوں میں گھس گیا اور اس کا کمال یہ تھا کہ مسلمانوں کو مستقل دو گروہوں میں تقسیم کردیا ایک شیعان علی کے نام سے موسوم ہو کر آج تک شیعہ کہلاتے ہیں اور دوسرے اہل سنہ کے نام سے منسوب ہوئے اور اس فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی جماعت… تقسیم ہو کر دو گروہوں میں بٹ گئی اور اس طرح جو طاقت انہوں نے غیر مسلموں پر خرچ کرنا تھی وہدونوں گروہ آپس میں خرچ کرتے رہے۔ حکومت انگلیسیہ نے ان دو گروہ کو مزید بیسیوں گروہوں میں تقسیم کردینے کی کوشش کی اور اس کوشش میں مرزا جی نے بھی ان کا پورا پورا ساتھ دیا کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کے متعلق جو پوری امت کا متفقہ مسئلہ تھا جس کی وضاحت قرآن و حدیث میں واضح الفاظ میں موجود تھی اس کے خلاف ان ہی پیش گوئیوں کے سہارے جو بائبل میں الیاس اور مسیح (علیہ السلام) کے متعلق تھیں وہیں سے اٹھا کر نظریہ مہدی موعود کے سہارے مسلمانوں میں تفریق کے لیے ایک نیا دروازہ کھول دیا اور شاطر انگریز نے ان کی دل کھول کر مدد گی۔ جس کی شہادتیں آج بھی تحریری طور پر موجود ہیں۔ یہ ایک اشارہ ہے جو عقلمندوں کے کام آئے گا۔ یحییٰ (علیہ السلام) کے کمالات کا ذکر قرآن کریم میں : 99: وہ حکم الٰہی سے ایک ہونے والے ظہور کی تصدیق کرنے والا ہوگا۔ “ قرآن کریم کے الفاظ اس طرح ہیں ” مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ “ یحییٰ (علیہ السلام) کی جو بشارت سیدنا زکریا (علیہ السلام) کو سنائی جارہی ہے اس میں یحییٰ (علیہ السلام) کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں سے یہ پہلی صفت ہے جو قرآن کریم میں درج ہے اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ ” كَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ “ کیا ہے ؟ قرآن کریم میں ” كلمة “ کا لفظ وسیع معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ عام معنوں میں بھی استعمال ہے جس کو عام بول چال میں استعمال کیا جاتا ہے جس طرح مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قراردینے والے مسیحیوں کو مخاطب کرکے فرمایا گیا : کَبُرَتْ کَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِهِمْ 1ؕ (الکف 18 : 5) ” ان لوگوں نے کیسی سخت بات منہ سے نکالی ہے کہ اللہ بھی اولاد رکھتا ہے “ یہ کلمہ تو عام معنوں میں ہے۔ اس جگہ کس کلمہ کی تصدیق ہے اس کے متعلق تین اقوال بیان کیے گئے ہیں کہ یہ کلمہ التوحید یعنی توحید کی بات ہے۔ اس سے مراد کتاب اللہ ہے اور یہ کہ اس سے مرادعیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے : ” كَلِمَةً اَلْقَاھَا اِلٰی مَرْیَمَ وہ کلمہ ہے کہ مریم کی طرف ڈالا گیا۔ گویا اس طرح یہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا لقب ہے جس طرح جبرئیل (علیہ السلام) کالقب ” روح اللہ “ ہے۔ اس طرح ” مُصَدِّقًابِكَلِمَةً مِّنَ اللّٰہِ “ کا مطلب یہ ہوا کہ وہ یعنی یحییٰ (علیہ السلام) مسیح (علیہ السلام) کے مصدق بھی ہوں گے اور مسیحیوں کا عقیدہ بھی اس کے مطابق ہے کہ یحییٰ کی اصل حیثیت مسیح کے پیش رو اور نقیب ہی کی تھی۔ سَیِّدًا ” جماعت کا سردار “ مسیحی تو خیر آپ کے تقدس کے قائل ہی ہیں یہود جو آپ کے منکر اور آپ کے سخت دشمن ہیں وہ بھی آپ کی مرجعیت اور مقولیت سے انکار نہیں کرتے اور یہ بھی کہا گیا کہ سیداکامفہوم یہ ہے کہ ایساحلیم جس کو کسی وجہ سے غصہ نہ آئے اور کہا گیا ہے کہ سید وہ ہے جس نے دونوں جہان دے کر خالق جہاں کو لے لیا ہے۔ ” حصوراً “ یعنی لذات و شہوات پر اسے قابو حاصل ہوگا اور وہ نہا ایت حد تک محتاط اور متقی ہوگا۔ انجیل میں بھی ان کے زہدو تبتل کا ذکر تصریح کے ساتھ موجود ہے۔ مثلاً یہ کہ ” وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہوگا اور ہرگز نہ مے نہ کوئی اور شراب پئے گا اور اپنی ماں کے پیٹ ہی سے روح القدس سے بھرجائے گا۔ “ (لوقا 1 : 16) ” اور بہت سے بنی اسرائیل کو خداوند کی طرف جوان کا خدا ہے پھیرے گا اور وہ انبیا کی روح اور قوت میں اس کے آگے آگے چلے گا کہ والدوں کے دل اولاد کی طرف اور نافرمانوں کو راست بازوں کی دانائی پر چلنے کی طرف پھیرے اور خداوند کے لیے ایک مستعد قوم تیارکرے۔ “ (لوقا 1 : 17 ، 18 ) ” اور وہ لڑکا بڑھتا اور روح میں قوت پاتا گیا اور اسرائیل کے ظاہر ہونے کے دن جنگلوں میں رہا۔ “ (لوقا 1 : 80 ) بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی اللہ کا بندہ ایسا نہیں کہ اللہ کے سامنے بغیر گناہ کیے جائے سوائے یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) ۔ اللہ تعالیٰ نے خود ان کے متعلق فرما دیا ہے ” سَیِّدًا وَّحُصُوْرًا “ آپ معصوم تھے اور انبیائ کرام معصوم ہی ہوتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمام ابن آدم جب اللہ تعالیٰ کے سامنے جائیں گے تو اس گناہ کے ساتھ جائیں گے جو ان کے ذمہ لگایا گیا ہوگا سوائے یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کے ان کے ذمہ قوم کوئی گناہ بھی نہ لگا سکے گی۔ وہ صالحین میں سے تھے اور صالحین کی اولاد میں سے بھی تھے۔ عبدالرزاق نے اپنی تفسیر میں قتادہ ﷺ کا قول موقوفاً اور ابن عسا کرنے اپنی تاریخ میں حضرت معاذ بن جبل کی روایت سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ یحییٰ بچپن میں کچھ بچوں کی طرف سے گزرے۔ لڑکوں نے ان کو کھیلنے کے لیے بلایا آپ نے فرمایا : ” ہم کھیلنے کے لیے نہیں پیدا ہوئے۔ “ ” وَنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ “ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا اثبات یہود کے مقابلہ میں تو مسلم ہے لیکن خود مسیحیوں کے مقابلہ میں بھی ہے جن کے نزدیک عصمت تقویٰ لازمہ نبوت ہے۔ نبی تو سب کے سب ہی صالحین ہوتے پھر یہ تخصیص کیوں ؟ ابھی اوپر بیان ہوا ہے کہ وہ نہایت حدتک پاکباز تھے اور خصوصاً یہ کہ وہ ” حصور “ تھے۔ اس لفظ حصور کی تشریح میں لوگ بہت دور نکل گئے اور انہوں نے یہ کوشش کی کہ دراصل اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ عورت کے قابل نہ تھے اور یہ کہ وہ مرد نہیں بلکہ دراصل وہ نامرد تھے۔ حالانکہ اگر کوئی ایسی بات کسی میں ہو بھی تو یہ کوئی خوبی نہیں بلکہ نقص ہے اور ایسا انسان اگر نفسانی خواہشات سے بچتا ہے تو یہ اس کا کوئی کمال نہیں ہے۔ کیونکہ ایک چیز جب اس کے اندرموجود ہی نہیں تو پھر اس سے بچنے کے معنی ہی کیا ہیں ؟ اس آخری فقرہ کو بول کر اللہ تعالیٰ نے خود وضاحت فرما دی کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ وہ اس قابل نہ تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ نہایت حد تک پاکباز تھا اور اس کی وضاحت دوسری جگہ خود قرآن کریم نے کردی ہے۔ فرمایا گیا : وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ0012 اور وہ ابھی لڑکا ہی تھا کہ ہم نے اسے علم و فضیلت بخش دی۔ (مریم 19 : 12) گویا دوسرے انبیائ کرام کے مقابلہ میں سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) اور سیدنا مسیح (علیہ السلام) کو پہلے نبی بنادیا گیا۔ انجیل میں ہے کہ ان کی تمام ابتدائی زندگی صحرا میں بسر ہوگئی۔ پھر وہیں ان پر اللہ کا کلام نازل ہوا تب انہوں نے دریائے یرون کے نواح میں توبہ وانابت کی منادی شروع کردی۔ وہ پکارتے تھے کہ آنے والے وقت کے لیے تیار ہو جائو۔ (لوقا 1 باب 3) عیسائی لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ کمال بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے شادی نہیں کی۔ قرآن کریم ان کی تفہیم کس پیارے انداز میں کرا رہا ہے کہ کچھ کہا بھی نہیں اور سب کچھ کہہ بھی دیا۔ کیونکہ قرآن کریم نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بالمقابل یحییٰ (علیہ السلام) کو پیش کردیا کہ اگر کوئی خوبی ہے تو پھر حضرت یحییٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کچھ کم نہیں ہیں۔ حضرت یحییٰ کی زندگی دنیا کی ان معمولی معمولی آسائشوں سے بھی خالی تھی جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو میسر تھیں۔ چناچہ انجیل میں ان کا یہ نقشہ کھینچا ہے کہ ” وہ مے نہ پیتے تھے اور نہ زیادہ کھائو پیو تھے۔ “ قرآن کریمم نے تو یحییٰ (علیہ السلام) کو انبیائ ہی میں سے ایک نبی بیان کیا ہے مگر حضرت مسیح (علیہ السلام) نے یوحنا کو نبیوں سے بھی بڑھ کر کہا ہے جو مسیح (علیہ السلام) نے یحییٰ (علیہ السلام) کے متعلق کہا اگر یحییٰ (علیہ السلام) نے مسیح (علیہ السلام) کے متعلق کہا ہوتا تو نہ معلوم عیسائی مسیح (علیہ السلام) کو کیا کچھ بنا دیتے ؟ مسیح (علیہ السلام) نے یوحنا کے متعلق فرمایا ” تو پھر کیوں گئے تھے ؟ ایک نبی کو دیکھنے کو ہاں ! میں تم سے کہتا ہوں بلکہ نبی سے بڑے کو ، میں تم سے بچ کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں ان میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی بڑا نہیں ہوا۔ “ (متی 11 : 9۔ 11) سوال یہ ہے کہ کیا مسیح عورت سے پیدا نہیں ہوئے ؟ پھر اس صریح بیان کے مطابق بڑا کون ہوا ؟ یحییٰ (علیہ السلام) ہاں ! یہ عیسائیوں کے لیے بیان کیا جارہا ہے کہ وہ خود جواب دیں اور جہاں فرشتہ زکریا (علیہ السلام) کو بشارت دیتا ہے وہاں ان الفاظ میں بشارت ہے ” اور بہت سے لوگ اس کی پیدائش کے سبب خوش ہوں گے کیونکہ وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہوگا اور ہرگز مے نہ پئے گا اور اپنی ماں کے پیٹ ہی سے روح القدس سے بھرجائے گا۔ “ (لوقا 1 : 14 ، 15) اور احادیث میں آتا ہے کہ ما من عبد یلقی اللّٰہ الا زا ذنب الا یحییٰ بن زکریا کوئی بندہ نہیں جو خدا کو ملے گا مگر وہ قصور وار نہ ٹھہرایا گیا ہو سوائے یحییٰ بن زکریا کے۔ یہ باتیں محض تحریرہی نہیں کردی گئیں بلکہ تورات میں موجود ہیں جو حوالے درج کیے گئے ہیں وہاں سے نکال کردیکھیں یہ اور اس طرح کی دوسری آیات جو تورات میں ہیں ان کو اگر ظاہر پر محمول کیا جائے تو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ لیکن یحییٰ (علیہ السلام) نہ اللہ ہیں نہ اللہ کا بیٹا اور نہ ہی اللہ کا تیسرا جزو۔ ہاں ! اللہ کے بندے ہیں اور بعض فضیلتوں میں دوسرے نبیوں سے بڑھ کر بھی ہیں خصوصاً مسیح (علیہ السلام) پر جیسا کہ انبیائ کرام کے متعلق قرآن کریم نے خود نظریہ دیا ہے کہ تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ یہ رسولوں کی جماعت ہے ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے ہیں اگرچہ رسول ہونے کے لحاظ سے سب ہی کو رسالت دی گئی۔
Top