Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 49
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا١ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِذَا : جب نَكَحْتُمُ : تم نکاح کرو الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتوں ثُمَّ : پھر طَلَّقْتُمُوْهُنَّ : تم انہیں طلاق دو مِنْ قَبْلِ : پہلے اَنْ : کہ تَمَسُّوْهُنَّ : تم انہیں ہاتھ لگاؤ فَمَا لَكُمْ : تو نہیں تمہارے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر مِنْ عِدَّةٍ : کوئی عدت تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ : کہ پوری کراؤ تم اس سے فَمَتِّعُوْهُنَّ : پس تم انہیں کچھ متاع دو وَسَرِّحُوْهُنَّ : اور انہیں رخصت کردو سَرَاحًا : رخصت جَمِيْلًا : اچھی طرح
مومنو ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے ان کو ہاتھ لگانے (یعنی ان کے پاس جانے) سے پہلے طلاق دے دو تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ ان سے عدت پوری کراؤ ان کو کچھ فائدہ (یعنی خرچ) دے کر اچھی طرح سے رخصت کردو
اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ آیت یا ایھا الذین امنوا اذا نکحتم المومنات ثم طلقتموھن جب حضرت زید اور حضرت زینب کا طلاق کا واقعہ ہوا جب کہ وہ ایسی عورت تھیں جن کے ساتھ حقوق زوجیت ادا کیے گئے تھے۔ ان کی عدت ختم ہونے کے بعد حضور ﷺ نے انہیں دعوت نکاح دی۔ جس طرح ہم وضاحت کرچکے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو خطاب کیا جب کہ انہوں نے پنی بیویوں کو حقوق زوجیت ادا کرنے سے قبل طلاق دے دی ہو۔ اور اس حکم کو امت کے لیے واضح کیا۔ مطلقہ اگر ایسی ہو کہ اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہ کیے گئے ہوں تو اس پر عدت لازم نہیں ہوگی۔ یہ کتاب اللہ اور اجماع امت سے ثابت ہے اگر اس کے ساتھ خاوند نے دخول کیا ہو تو بالاتفاق اس پر عدت ہوگی۔ مسئلہ نمبر 2۔ نکاح کا حقیقی معنی وطی کرنا ہے۔ عقد کو نکاح اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس کا عقد نکاح کے ساتھ گہر تعلق ہوتا ہے کیونکہ عقد نکاح وطی تک پہنچنے کا طریقہ ہوتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ علماء نے خمر کو اثم کا نام دیا کیونکہ یہ گناہ کا سبب ہے۔ کتاب اللہ میں لفظ نکاح عقد کے معنی میں ہے، کیونکہ اس کا حقیقی معنی وطی ہے۔ اس کو مختلف الفاظ کے ساتھ کنایۃ ذکر کرنا یہ قرآن کے آداب میں سے ہے۔ جیسے ملامسہ، مماسہ، قربان، تغشی اور اتیان۔ مسئلہ نمبر 3۔ بعض علماء نے آیت ثم طلقتموھن میں ثم کے لفظ سے یہ استدلال کیا ہے کہ طلاق نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے۔ جس نے نکاح سے پہلے عورت کو طلاق دی اگر اس نے اس عورت کو معین کردیا تو یہ طلاق اسے لازم نہ ہوگی۔ یہ قول تقریبا تیس علماء کا ہے جن میں صحابہ، تابعین اور ائمہ شامل ہیں۔ امام بخاری نے بائیس افراد کا نام لیا ہے۔ نبی کریم ﷺ سے بھی مروی ہے لا طلاق قبل نکاح نکاح سے قبل طلاق نہیں (1) ۔ اس کا معنی ہے طلاق واقع نہیں ہوتی یہاں تک کہ نکاح ہوجائے۔ حبیب بن ابی ثابت نے کہا : حضرت علی بن حسین ؓ سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک عورت سے نکاح کیا : ان تزوجتک فانت طالق اگر میں تجھ سے شادی کروں تو تجھے طلاق ؟ آپ نے جواب دیا : کچھ بھی نہیں اللہ تعالیٰ نے طلاق سے پہلے نکاح کا ذکر کیا ہے۔ علماء کے ایک طائفہ نے کہا : معینہ عورت کو نکاح سے قبل طلاق دی جائے وہ ذات کے اعتبار سے معین ہو، قبیلہ کے اعتبار سے معین ہو اور شہر کے اعتبار سے معین ہو وہ طلاق لازم ہوجائے گی (2) ۔ ان میں امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور آپ کے تمام اصحاب ہیں اور امت کے عظیم علماء بھی یہی کہتے ہیں۔ سورة براءت میں اس بارے میں گفتگو اور فریقین کے دلائل گزرچکے ہیں۔ الحمد للہ جب اس نے کہا : کل امراۃ اتزوجھا فھی طالق وکل عبد اشتریتہ فھو حر میں جس عورت سے شادی کروں اسے طلاق ہے اور میں جس غلام کو خریدوں وہ آزاد ہے۔ تو کچھ بھی لازم نہ کرے گا۔ اگر اس نے کہا : اگر میں بیس سال تک جس عورت سے بھی شادی کروں یا کہا : اگر میں فلاں شہر یا فلاں قبیلہ سے شادی کروں تو اسے طلاق ہے تو اس پر طلاق واقع ہوجائے گی جب تک اسے لمبے سالوں کی وجہ سے اپنے اوپر بدکاری کا خوف نہ ہو یا غالب طور پر اس کی عمر اس حد تک نہ پہنچی ہو تو اسے نکاح کرنے کا حق ہوگا، اس پر طلاق لازم نہ ہوگی جب اس نے یہ بات عموم کے اعتبار سے کی کیونکہ اس نے اپنے اوپر نکاح کے معاملہ کو تنگ کردیا ہے۔ اگر ہم اس کو روکیں کہ وہ شادی نہ کرے تو وہ حرج میں مبتلا ہوگا اور اس پر بدکاری کا خوف ہوگا۔ ہمارے بعض اصحاب نے کہا : اگر وہ کوئی لونڈی پائے تو نکاح نہ کرے یہ کوئی بات نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ضرورتیں اور عذر احکام کو اٹھا دیتے ہیں یہ ضرورت کے اعتبار سے اس آدمی کی طرح ہے جس نے قسم ہی نہیں اٹھائی ؛ یہ قول بن خویز منداد کا ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ دائود اور جو ان کے ہمنوا ہیں نے استدلال کیا ہے کہ مطلقہ رجعیہ سے جب اس کا خاوند رجوع کرے جب کہ اس کی عدت ختم نہ ہوئی ہو پھر اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا کرنے سے پہلے طلاق دے دے تو اس پر عدت کو مکمل کرنا لازم نہیں اور نہ ہی اس پر نئی عدت گزارنا لازم ہے کیونکہ اسے حقوق زوجیت ادا کرنے سے قبل طلاق دے دی گئی، عطا بن ابی رباح اور ایک جماعت نے کہا : وہ پہلی طلاق کو عدت جاری رکھے گی امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک یہی قول ہے کیونکہ جب اس نے حقوق زوجیت ادا نہیں کیے تھے تو اس کی طلاق اس طلاق کے حکم میں ہے جو ایک آدمی اپنی عورت کو عدت میں طلاق دے جس کے ساتھ اس نے رجوع نہیں کیا اور جس نے اپنی بیوی کو ہر طہر میں ایک طلاق دی وہ عورت اس عورت کو پہلی عدت پر بنا کرے گی اور نئے سرے سے عدت شمار نہیں کرے گی۔ امام مالک نے کہا : جب اس نے حقوق زوجیت ادا کرنے سے پہلے طلاق دے دی تو وہ اپنی سابقہ عدت پر بنا نہیں کرے گی۔ جس روز سے اس نے اسے طلاق دی ہے اس روز سے وہ نئی عدت شمار کرے گی۔ اس کے خاوند نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اس نے غلطی کی اگر اس نے اس سے رجوع کیا جب کہ اس کو اس کی ضرورت نہ تھی ؛ اکثر علماء کا یہی نقطہ نظر ہے کیونکہ یہ عورت بھی ان بیویوں کے حکم میں ہے جن کے ساتھ حقوق زوجیت ادا کیے گئے ہوں نفقہ میں، رہائش میں اور دوسرے امور میں، اسی وجہ سے جس روز اس نے اسے طلاق دی نئے سرے سے عدت شمار کرے گی ؛ یہ بصرہ، کوفہ، مکہ، مدینہ اور شام کے جمہور فقہاء کا نقطہ نظر ہے۔ ثوری نے کہا : ہمارے نزدیک فقہاء نے اس پر اجماع کیا۔ مسئلہ نمبر 5۔ اگر اسے طلاق بائنہ دی گئی مگر تین طلاقیں نہ دی گئی ہوں، تو خاوند نے اس عورت سے عدت میں نکاح کرلیا، پھر اسے حقوق زو جیت سے قبل طلاق دے دی تو اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک، امام شافعی، امام زفر اور عثمان بتی نے کہا : اس کو نصف مہر ملے گا اور باقی ماندہ عدت پوری کرے گی ؛ یہ حضرت حسن بصری، عطا، عکرمہ اور ابن شہاب کا نقطہ نظر ہے۔ امام ابو حنیفہ، ابو یوسف، ثوری اور اوزاعی نے کہا : اس کے لیے نکاح ثانی کی وجہ سے کامل مہر اور نئی عدت ہوگی۔ اسے مدخول بہا کے حکم میں رکھا گیا ہے کیونکہ وہ اس کے پانی کو ہی شمار کر رہی تھی۔ دائود نے کہا : اس کو نصف مہر ملے گا۔ اس پر باقی ماندہ پہلی عدت نہ ہوگی اور نہ ہی نئی عدت ہوگی۔ اولی وہی ہے جو امام مالک اور امام شافعی نے کہا ؛ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر 6۔ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے فرمان : آیت والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء ( البقرۃ : 228) اور اللہ تعالیٰ کے فرمان : آیت والئی یئسن من المحیض من نساء کم ان ارتبتم فعدتھن ثلثۃ اشھر ( الطلاق : 4) کے لیے مخصوص ہے۔ سورة بقرہ میں یہ بحث گزرچکی ہے اور متعہ کے باب میں بھی یہ گفتگو گزر چکی ہے۔ دوبارہ اعادہ کی ضرورت نہیں۔ آیت وسرحوھن سراحا جمیلا اس میں دو توجیہیں ہیں : (1) خوشحالی اور تنگدستی کی بنا پر متعہ دیا جائے ؛ یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے (1) ۔ (2) اس سے مراد اسے طلاق دینا ہے جب کہ وہ طہارت کی حالت میں ہو اور اس سے جماع بھی نہ کیا گیا ہو ؛ یہ قتادہ کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : طلاق کے بعد انہیں ان کے اہل کی طرف بھیج دیا جائے مرد اور مطلقہ عورت ایک جگہ جمع نہ ہوں۔ مسئلہ نمبر 7۔ آیت فمتعوھن سعید نے کہا : یہ آیت اس آیت کے ساتھ منسوخ ہے (2) جو سورة بقرہ میں ہے یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : آیت وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن وقد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم (ابقرۃ : 237) یہاں متعہ کا ذکر نہیں۔ سورة بقرہ میں گفتگو گزر چکی ہے۔ آیت وسرحوھن کا معنی ہے انہیں طلاق دو امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک تسریح یہ طلاق سے کنایہ ہے کیونکہ یہ غیر حقیقی معنی میں استعمال ہوتا ہے اس وجہ سے اس کے لیے نیت کی ضرورت ہوتی ہے امام شافعی کے نزدیک یہ لفظ صریح ہے اس بارے میں گفتگو سورة البقرہ میں گزر چکی ہے۔ اس وجہ سے اعادہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ جمیلا یعنی سنت طریقہ پر نہ کہ بدعت کے انداز میں۔
Top