Al-Qurtubi - Faatir : 9
وَ اللّٰهُ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحْیَیْنَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ
وَاللّٰهُ : اور اللہ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا الرِّيٰحَ : ہوائیں فَتُثِيْرُ : پھر وہ اٹھاتی ہیں سَحَابًا : بادل فَسُقْنٰهُ : پھر ہم اسے لے گئے اِلٰى : طرف بَلَدٍ مَّيِّتٍ : مردہ شہر فَاَحْيَيْنَا : پھر ہم نے زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ : اس کے مرنے کے بعد كَذٰلِكَ : اسی طرح النُّشُوْرُ : جی اٹھنا
اور خدا ہی تو ہے جو ہوائیں چلاتا ہے اور وہ بادل کو ابھارتی ہیں پھر ہم انکو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کردیتے ہیں اسی طرح مردوں کو جی اٹھنا ہوگا
آیت ؛ واللہ الزی ارسل الریح فتثیر سحابا فسقنہ الی بلد میت، میت اور میت دونوں کا معنی ایک ہے، اسی طرح مینتتہ اور میتتہ ہے ؛ یہ نحویوں میں سے ماہر لوگوں کا قول ہے۔ محمد بن یزید نے کہا : یہ بصریوں کا قول ہے اس نے کسی کی استثناء نہ کی ؛ اس نے اس پر دلائل قطعیہ سے استدلال کیا۔ اور یہ شعر پڑھے : لیس من مات فاستراح بمیت انما المیت میت الا حیاء انما المیت یعیش کثیبا کا سفا بالہ قلیل الرجاء وہ آدمی نہیں مرا جو مرنے سے راحت پا گیا۔ مردہ تو حقیقت میں زندوں سے مرنے والا ہے۔ میت تو حقیقت میں وہ ہے جو غمگین ہو کر زند گی گزارتا ہے اس کا دل بجھا ہوا اور امید کم ہوتی ہے۔ کہا : کیا تو میت اور میت میں فعق دیکھتا ہے اور یہ شعر پڑھا : ھینون لینون ایسار بنو یسر سواسمکر متہ ابنائایسار کہا سب نے اس پر اتفاق کیا کہ ہینون اور لینون ایک ہی چیز ہیں۔ اسی طرح میت اور میت، سید اور سید ایک ہی چیز ہیں۔ آیت : واللہ الذی ارسل الریح کے بعد فسقنہ فرمایا : التفات کے قاعدہ سے ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : اس کا طریقہ تو یہ تھا فتسو قہ ہوتا کیونکہ فرمایا : فتثیر سحابا۔ زمحشری کہا : اگر تو پوچھے کہ فتشیر مضارع کا صیغہ کیوں آیا ہے (1) (تفسیر الکشاف، جلد 3، صفحہ 601) ، اس سے ما قبل اور ما بعد مضارع کا صیغہ نہیں ؟ میں اس کا جواب دوں گا : تاکہ اس حال کی حکایت بیان کرے جس میں ہوائیں بادلوں کو اڑاتی ہیں اور اس عمدہ صورت کو حاضر کرتی ہیں جو قدرت ربانیہ پر دلالت کرتی ہیں۔ علماء ایسے فعل کے ساتھ ایسا ہی رویہ اپناتے ہیں جس میں کسی قسم کا امتیاز ہو اور ایسے حال کی خصوصیت ہو جو عجیب و غریب ہے یا مخاطب کو اہمیت دلائے یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہو، جس طرح تابط شرا نے کہا : بانی قد لقیت الغولتھوی بسھبکا لصحیفتہصحصحان فاضربھا بلا دمش فخرتصریعاللیدینو للجران (2) (ایضا) تابط شرا ان اشعار میں اپنی قوم کے سامنے اس حالت کی تصویر کشی کرتا ہے جس میں بہادری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ گمان کرتا ہے کہ وہ جبلاء پر وار کرتا ہے۔ گویا وہ اپنی قوم کے جبلاء دکھاتا ہے۔ مشاہدہ کے ساتھ اس کی حقیقت پر مطلع کرتا ہے تاکہ اس امر پر تعجب کا اظہار کیا جائے کہ وہ ہر ہولناک چیز پر حملہ کرنے کی جرات رکھتا ہے اور یہ مصیبت میں ثابت قدم رہتا ہے۔ اسی طرح مردہ شہر کی طرف بادلوں کو ہنکنا ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی غالب قدرت پر دلائل میں سے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : فسقنا اور احیینا غیبت کے لفظ سے اس کی طرف عدول کیا گیا ہے جس کا اختصاص میں زیادہ عمل دخل ہے اور اس پر زیادہ دال ہے۔ عام قراءت الریاح ہے۔ ابن محیصن، ابن کثیر، اعمش، حمزہ اور کسائی نے الریح واحد کا صیغہ پڑھا ہے۔ اس آیت کی وضاحت اور اس کے بارے میں مفصل گفتگو گزر چکی ہے۔ آیت : کذلک النشور یعنی اس طرح تمہارے مرنے کے بعد تمہیں زندہ کیا جائے گا۔ یہ نشر الا نسان فشور اسے ما خوذ ہے۔ کاف محل رفع میں ہے۔ تقدیر کلام یہ ہے مثل احیاء الموت، نشر الاموات۔ ابو رزین عقیلی سے مروی ہے کہا : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے اور اس کی مخلوق میں اس کی نشانی کیا ہے ؟ فرمایا : کیا تو ایسی وادی میں سے نہیں گزرا جو خشک سالی کی وجہ سے ہلاک کی گئی پھر تو اس کے پاس سے گزرا تو وہ سر سبز و شاداب لہرارہی تھی (3) (زاد المسیر، جز 6، صفحہ 257 ) ۔ میں نے عرض کی : ہاں یا رسول اللہ ﷺ ۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ اسی طرح مردوں کو زندہ کرے گا اور یہی مخلوق میں اس کی آیت ہے۔ ہم نے اس کی وضاحت سورة الاعراف وغیرہ میں کردی ہے۔
Top