Tafseer-e-Majidi - Faatir : 9
وَ اللّٰهُ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحْیَیْنَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ
وَاللّٰهُ : اور اللہ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا الرِّيٰحَ : ہوائیں فَتُثِيْرُ : پھر وہ اٹھاتی ہیں سَحَابًا : بادل فَسُقْنٰهُ : پھر ہم اسے لے گئے اِلٰى : طرف بَلَدٍ مَّيِّتٍ : مردہ شہر فَاَحْيَيْنَا : پھر ہم نے زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ : اس کے مرنے کے بعد كَذٰلِكَ : اسی طرح النُّشُوْرُ : جی اٹھنا
اور اللہ وہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے پھر وہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں، پھر ہم اسے ہانک لے جاتے ہیں خشک خطہ زمین کی طرف پھر ہم اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کی خشکی کے بعد سرسبز کردیتے ہیں،16۔ اسی طرح جی اٹھنا ہوگا،17۔
16۔ یعنی زمین مردہ میں اسی کے متناسب جان ڈال دیتے ہیں۔ (آیت) ” الریح۔ سحابا۔ فسقنہ “۔ بارش اور برساتی ہواؤں پر حاشیہ سورة الروم (پ 21) میں گزر چکا۔ (آیت) ” فسقنہ الی بلد میت “۔ اور وہاں اس خشک علاوہ میں بارش ہوجاتی ہے۔ ایک بارش کے سلسلہ میں قدرت کی کارفرمائیوں کے جو انتظامات ہوتے رہتے ہیں۔ ایک خاص وقت پر زمین سے بخارات کا اٹھنا۔ ایک خاص بلندی پر جاکر ان کا جم جانا، اس کثیف وباردار ہوا کا ایک خاص رفتار سے کسی خاص سمت کی طرف چلنا، کسی متعین علاقہ پر جاکر فضا میں اتنی گرمی پیدا ہونا کہ ایک متعین مقدار میں بارش کے قطرے زمین پر آئیں۔ وغیرہ وغیرہ موسمیات (میٹر یولوجی) کی ساری باریکیاں انسان کو خدائے حکیم وقدیر پر ایمان لے آنے کے لیے بالکل کافی ہیں۔ 17۔ (قیامت کے دن) واقعات تکوینی کی مثالوں کے پیش کرنے سے قرآن مجید کا مقصود ہمیشہ کسی اہم دینی ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے۔
Top