Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 49
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ١ۚ اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا يٰٓاَيُّهَ السّٰحِرُ : اے جادوگر ادْعُ لَنَا : دعا کرو ہمارے لیے رَبَّكَ : اپنے رب سے بِمَا : بوجہ اس کے جو عَهِدَ عِنْدَكَ : اس نے عہد کیا تیرے پاس اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ : بیشک ہم البتہ ہدایت یافتہ ہیں
اور کہنے لگے کہ اے جادوگر ! اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک ہم ہدایت یاب ہوں گے
وقالوا ایا یہ السحر جب انہوں نے عذاب کو دیکھا تو انہوں نے کہا، اے جادوگر ! انہوں نے اس طرح ندا کی جس طرح وہ پہلے عادت کے مطابق ندا کیا کرتے تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ علماء کو سحرہ کا نام دیتے انہوں نے بطور تعظیم آپ کو اسی نام سے پکارا۔ حضرت ابن عباس نے کہا، یا یہ السحر، اے عالم ! ساحر ان کے نزدیک عظیم وہا کرتا وہ اس کی تعظیم بجا لایا کرتے تھے سحر صفت ذم نہیں تھی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، اس کا معنی ہے اے وہ شخص جو اپنے سحر کی وجہ سے ہم پر غالب آگیا ہے، یہ جملہ کہا اجتا ہے، ساحرتہ فسعرتہ یعنی میں سحر کی وجہ سے اس پر غالب آگیا جس طرح عربوں کا قول ہے : خاصمتہ نخمستہ یعنی میں خصوصیت کے ساتھ اس پر غالب آگیا اسی طرح فاضلتہ فضلتہ ہے۔ یہ بھی احتمال موجود ہے کہ انہوں نے ساحر کا حقیقی معنی مراد لیا ہو اور گفتگو استفہام کے انداز میں کی ہو۔ آپ نے انہیں ملامت نہ کی ہو کیونکہ آپ ان کے ایمان لانے کی امید رکھتے تھے۔ ابن عامر، ابو حیوہ اور یحییٰ بن وثاب نے الف کو بغیر ھاء مضموم کے ساتھ اسے پڑھا ہے، اس کی علت یہ ہے کہ ھاکو ماقبل کے ساتھ ملا دیا گیا اور یاء کو وہ ضمہ لازم ہوگیا جو نداء مفرد کی وجہ سے واجب تھا فراء نے یہ شعر پڑھا : یا ایہ القلب اللجوج النفس افق عن البیض الحسان اللغس محل استدلال یا ایہ ہے۔ ھا کا ضمہ یاء کے ضمہ پر محمول کرنے کی وجہ سے ہے۔ سورة نور میں اس کی وضاحت گذر چکی ہے۔ ابو عمرو، ابن ابی اسحاق، یحییٰ اور کسائی نے ایھا الف کے ساتھ اصل پر پڑھا ہے جبکہ باقی قراء نے الف کے بغیر پڑھا ہے کیونکہ مصحف میں اسی طرح واقع ہوا ہے۔ ادع لنا ربک بما عھدک عندک یعنی جس عہد کی تم نے ہمیں خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ سے وعدہ کیا کہا گر ہم ایمان لائیں تو اللہ تعالیٰ ہم سے اسے دور کر دے گا تو اللہ تعالیٰ سے سوال کیجیے تو وہ ہم سے اس تکلیف کو دور کر دے اننا لمھتدون۔ کہ ہم آنے والے وقت میں ہدایت پا جائیں گے فلما کشفنا عنھم العذاب یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ہم سے تکلیف کو رفع کردیا اذا ھم ینکمون۔ یعنی وہ عہد جو انہوں نے اس بارے میں کیا تھا اس کو انہوں نے توڑ دیا۔ ایکق ول یہ کیا گیا ہے : ان کا قول اننا لمھتدون۔ انہوں نے اپنے بارے میں ایمان کی خبر دی جب ان سے عذاب دور ہوگیا تو وہ مرتد ہوگئے۔
Top