Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 49
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ١ۚ اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا يٰٓاَيُّهَ السّٰحِرُ : اے جادوگر ادْعُ لَنَا : دعا کرو ہمارے لیے رَبَّكَ : اپنے رب سے بِمَا : بوجہ اس کے جو عَهِدَ عِنْدَكَ : اس نے عہد کیا تیرے پاس اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ : بیشک ہم البتہ ہدایت یافتہ ہیں
اور انہوں نے درخواست کی کہ اے ساحر، اپنے رب سے اس عہد کی بنا پر جو اس نے تم سے کر رکھا ہے، ہمارے لئے دعا کرو۔ اب ہم ضرور ہدایت پانے والے بن کے رہیں گے۔
وقالوآیا یہ السحر ادع لنا ربک بما عھد عندک اننا لمھتدون، فلما کشفنا عنھم العذاب اذا ھم ینکثون (50-49) جب وہ کسی عذاب کی گرفت میں آتے تو بھاگے ہوئے حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آتے اور نہایت لجاجت سے درخواست کرتے کہ آپ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کیجیے کہ وہ اس عذاب کو دور فرمائے، اگر یہ عذاب دور ہوگیا تو ہم صحیح راہ پر آجائیں گے اور آپ کی بات ضرور ہی مان لیں گے لیکن جب اللہ تعالیٰ ان سے عذاب دور کردیتا تو وہ عہد توڑ کر اپنی ضد پر اڑ جاتے۔ ان تنبیہی عذابوں کی تفصیل سورة اعراف کی آیات 135-133 کے تحت گزر چکی ہے۔ وہاں ہم تو رات کی روشنی میں ہر بات کی وضاحت کرچکے ہیں۔ آیات ہم یہاں بھی نقل کئے دیتے ہیں۔ تفصیل مطلوب ہو تو تدبر قرآن میں ان کی تفسیر ملاحظہ فرمایئے۔ فارسلنا علیھم الطوفان والجراء والقمل والضفاع والدم ایت مخبصلت فاستکبروا وکالوا قوما محرمین، ولما وقع علیھم الرجز قالوا یموسی ادع لتاربک بما عھد تحندک لئن کشفت عند الرجزلنومنن لک ولنرسلن منک بنی آسرائیل، فلما کشفتا عنھم الرجوا الی اجل ھم بلقوہ اذھم ینکثون (الاعراف) تو ہم نے ان پر بھیجے طوفان اور ٹٹڈیاں اور جوئیں او مینڈک اور خون، تفصیل کی ہوئی نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور یہ مجرم لوگ تھے اور جب آتی ان پر کوئی آفت تو درخواست کرتے کہ اے موسیٰ تم اپنے طلب سے، اس عہد کے واسطہ سے جو اس نے تم سے کر رکھا ہے ہمارے لئے دعا کرو۔ اگر تم نے ہم سے یہ آفت دور کردی تو ہم تمہاری بات ضرور مان لیں گے اور تمہارے ساتھ نبی اسرائیل کو جانے دیں گے تو جب ہم ان سے دور کر یدتے آفت کو کچھ مدت کے لئے جس تک وہ بہرحال پہنچنے والے ہی ہوتے تو وہ دفعتاً عہد توڑ دیتے۔ مصریوں کے نزدیک ساحروں کا درجہ حضرت موسیٰ ؑ کو آیایۃ السحر سے مخاب کرنا کسی تحقیر یا سوء ادب پر مبنی نہیں ہے۔ مصر میں اس وقت ساحروں کو سوسائٹی میں وہی مقام حاصل تھا جو کسی سوسائٹی میں علماء اور صوفیوں کو حاصل ہوتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ اے ساحر ہا ہمارے لئے دعا کیجیے تعظیم کا خطاب ہے۔ منما عھد عندک کی وضاحت سورة اعراف میں ہوچکی ہے۔ یعنی چن کہ آپ کے رب نے آپ کی دعا کی قبولیت کا آپ سے وعدہ کر رکھا ہے اس وعدہ کے واسطہ سے آپ دعا کریں گے تو وہ ضرور ہی قبول ہوگی۔ لما یہاں کلما کے مفہوم میں ہے۔ اس کی وضاحت سورة احراف میں ہوچکی ہے۔ اس وجہ سے اس کے بعد اذا کا استعمال جو مفاجات کے لئے آتا ہے۔ بالکل موزوں ہے۔
Top