Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 49
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ١ۚ اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا يٰٓاَيُّهَ السّٰحِرُ : اے جادوگر ادْعُ لَنَا : دعا کرو ہمارے لیے رَبَّكَ : اپنے رب سے بِمَا : بوجہ اس کے جو عَهِدَ عِنْدَكَ : اس نے عہد کیا تیرے پاس اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ : بیشک ہم البتہ ہدایت یافتہ ہیں
اور وہ (موسیٰ سے) کہنے لگے اے جادوگر ! اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے (تو) ہم ضرور راہ پر آجائیں گے
جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کرتے 49 ؎ مشرک افراد ہوں یا قومیں ان کا رویہ یہی رہا ہے اور آج بھی یہی ہے کہ جب وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوں گے تو ہر ایک سے دعا کی درخواست کریں گے اور اپنی مصیبت کو ٹالنے کے لیے وہ کبھی ایک اللہ پر انحصار کرتے ہوئے اس سے درخواست نہیں کریں گے بلکہ ہر ایک سے اس کا ذکر کریں گے اور ہر ایک کے سامنے ہاتھ پھیلائیں گے اور اس مصبت کے دور کرنے کی اپیل کریں گے ان کو ان کی قوت وہمہ کسی حال بھی چین سے نہیں بیٹھنے دے گی اور وہ ہر ایک کے سامنے واویلا کریں گے۔ خانقاہوں پر جائیں گے ، قبروں پر سجدے کریں گے ، منتیں مانیں گے ، ایک درگاہ سے نکلیں گے تو دوسری کی طرف بڑھیں گے ، مسجد میں جائیں گے ، سجدے میں گڑ گڑا کر دعائیں کریں گے ، مسجد سے نکلیں گے تو سیدھے کسی دربار اور آستانے کی طرف منہ کرلیں گے اور قبر پر گریں گے اور وہی سجدہ شروع کردیں گے۔ اسی عادت کے مطابق مشرکین مصر بھی جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے تو ہر ایک جگہ کی طرف دوڑنے لگتے اور اسی طرح وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی درخواست کرتے اور ساحر جو ان کا قومی لقب قرار پایا تھا کہ جس کو وہ مذہبی راہنما سمجھتے تھی اس نام سے اس کو موسوم کرتے تھے اور یہی طریقہ خطاب موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے بھی اختیار کرتے تھے یہ لفظ ان کے ہاں کوئی ٹھٹھے اور مذاق کا لفظ نہیں تھا بلکہ مذہبی راہنمائوں کے خطاب کے لیے عام تھا جیسے ہمارے ہاں میاں صاحب ، صوفی صاحب ، علامہ صاحب اور مولانا کے الفاظ گشت کرتے نظر آتے ہیں جن لوگوں نے اس کو استہزاء اور مذاق کے طور پر استعمال کرنے کا لکھا ہے انہوں نے ایک مقصد کے تحت یہ طریقہ استعمال کیا ہے۔ بات ان کی صحیح نہیں ہے۔ بہرحال حکومت مصر کے لوگ جن میں فرعونی بھی تھے اور بنی اسرائیل کے لوگ بھی کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے ہر بار اس کو التجا کرتے کہ اے ساحر ! اپنے رب کو ہمارے لیے پکار کہ وہ ہماری سختی دور فرمادے بلاشبہ ہم اپنی روش سے باز آئیں گے لیکن جونہی عذاب رفع ہوا وہ ایسے غائب ہوئے کہ پھر کبھی ان کو خیال بھی نہ آیا کہ وہ ہم ہی تھے جو اس طرح کی اپیلیں کرتے تھے۔ اگر ذرا نظر عمیق سے غور کرو گے تو آج بھی اکثر وبیشتر انسانوں کی حالت ایسی ہی نظر آئے گی۔ ہمارے ملک کے اس حصہ میں جس کو پنجاب کا نام دیا گیا ہے آج کل بادلوں اور بارشوں کی زد میں ہے اور ہم جس جگہ رہتے ہیں یہ جگہ نسبتاً نشیب ہے اور زمین پانی کو اتناجلد جذب نہیں کرسکتی مسلسل دو موسم گزرچکے ہیں کہ بادلوں کی بہتات ہے اور خصوصاً فصل کی بیجائی اور کٹائی دونوں بری طرح متاثر ہوئی ہیں اور جس کو دیکھو توبہ توبہ کرتا نظر آتا ہے لیکن جونہی ذرا حالت بدلی تو ساتھ ہی بدل گئے اور بلاشبہ پوری قوم کی یہی حالت ہوتی ہے جو عذاب الٰہی کی زد میں ہو اور یہ بات بھی اس کی دلیل ہے کہ ہم اس وقت عذاب الٰہی کی زد میں ہیں سمجھیں یا نہ سمجھیں لیکن گزشتہ قوموں نے کب اس طرح سمجھا ہے کہ اب ہم اس طرح سمجھ جائیں گے بلاریب یہ جس تباہی کا پیش خیمہ ہے وہ آئے گی اور اس کا وقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ قرآن کریم کے یہ واقعات بیان کرنے کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ لوگ اپنی حالت کا ساتھ ساتھ جائزہ لیتے رہیں صرف قصہ اور کہانی کے طور پر ان قصص کو نہ پڑھیں بلکہ اپنی حالت کا جائزہ لے کر اصلاح کی کوشش کریں تاکہ ان کی حالت درست ہوجائے اور وہ قیامت کے روز عذاب الٰہی سے بچ جائیں لیکن افسوس کہ ہم ان قصص کو بیان کرتے وقت ، پڑھتے پڑھاتے وقت محض ایک گزشتہ قصہ کے طور پر ہی پڑھتے پڑھاتے ہیں اپنی حالت کو اس پر منطبق نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہماری حالت روز بروز بگڑتی چلی جارہی ہے اور ہم جب قدرے اپنی قوم کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ مذہبی راہنما جو ہمارے دور سے متعلق ہیں اس سے جز بز ہوتے ہیں اور ہمیں برا بھلا کہتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن کریم کے اصل منشاء کو سمجھنے کی توفیق دے اور ہم اس قرآن کریم سے اپنی اصلاح کرسکیں اور مرنے والوں کی بجائے زندوں کی فکر کریں اور اپنے عہد کو توڑتے اور باندھتے ہی نہ رہیں۔
Top