Al-Qurtubi - Al-Maaida : 29
اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ١ۚ وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَۚ
اِنِّىْٓ : بیشک اُرِيْدُ : چاہتا ہوں اَنْ تَبُوْٓاَ : کہ تو حاصل کرے بِاِثْمِيْ : میرا گناہ وَاِثْمِكَ : اور اپنا گناہ فَتَكُوْنَ : پھر تو ہوجائے مِنْ : سے اَصْحٰبِ النَّارِ : جہنم والے وَذٰلِكَ : اور یہ جَزٰٓؤُا : سزا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
میں چاہتا ہوں کہ تو میرے گناہ میں بھی ماخوذ ہو اور اپنے گناہ میں بھی پھر (زمرئہ) اہل دوزخ میں ہو۔ اور ظالموں کو یہی سزا ہے۔
آیت نمبر : 29۔ اس آیت میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لئن بسطت الی یدک “ یعنی تو اگر میرے قتل کا قصد کرے گا تو میں تیرے قتل کا قصد نہیں کروں گا، اس کی طرف سے تسلیم کرنا ہے خبر میں ہے ” جب فتنہ ہو تو ابن آدم کے بہتر بیٹے کی طرح ہوجا “ (1) (سنن ابی داؤد کتاب الفتن، جلد 2، صفحہ 229، ایضا، حدیث نمبر 3715، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو داؤد نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! اگر کوئی مجھ پر میرے گھر میں داخرحمۃ اللہ علیہ ہو اور میرے طرف وہ اپنا ہاتھ مجھے قتل کرنے کے لیے بڑھائے تو ؟ فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” تو آدم کے بیٹوں میں بہتر بیٹے کی طرح ہوجا “۔ پھر یہ آیت تلاوت کی : (آیت) ” لئن بسطت الی یدک لتقتلنی “۔ (2) (سنن ابی داؤد کتاب الفتن، جلد 2، صفحہ 229، ایضا، حدیث نمبر 3715، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مجاہد نے کہا : ان پر اس وقت فرض تھا کہ کوئی تلوار نہ سونتے اور نہ روکے اسے جو اسے قتل کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 178 دارالکتب العلمیہ) ہمارے علماء نے فرمایا : یہ بطور تعبد جائز تھا، مگر ہماری شریعت میں بالاجماع دفاع جائز ہے، اس کے وجوب میں اختلاف ہے اور اصح اس کا وجوب ہے کیونکہ اس میں برائی سے منع کرنا ہے، حشویہ میں ایک گروہ ہے جو اس کے لیے دفاع جائز قرار نہیں دیتے جس پر حملہ کیا گیا ہے انہوں نے حضرت ابوذر کی حدیث سے احتجاج کیا ہے اور علماء نے اس کو فتنہ میں قتال کرکے ترک پر محمول کیا ہے اور شبہ کے وقت ہاتھ روکنے پر محمول کیا ہے جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ” التذکرہ “ میں بیان کیا ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ اور جمہور علماء نے کہا : ہابیل، قابیل سے زیادہ قاقتور تھا لیکن وہ قتال سے بچا رہا، ابن عطیہ (رح) نے کہا : یہ اظہر قول ہے اس سے تائید ملتی ہے کہ قابیل گنہگار تھا کافر نہیں تھا، کیونکہ اگر وہ کافر ہوتا تو ہابیل اسے قتل کرنے سے نہ بچتا، بچنے کی وجہ یہی ہے کہ بچنے والا کسی موحد کو قتل کرنے سے اجتناب کرتا ہے اور وہ اس پر راضی ہوتا ہے کہ وہ ظلم کرے تاکہ آخرت میں (اسے سزا ملے اور) اسے جزا ملے، حضرت عثمان ؓ نے یہی کہا تھا، بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے میں تیرے قتل کا قصد نہیں کرتا بلکہ میں اپنے نفس کے دفاع کا قصد کرتا ہوں۔ اس بنا پر بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے میں تیرے قتل کا قصد نہیں کرتا بلکہ میں اپنے نفس کے دفاع کا قصد کرتا ہوں، اس بنا پر بعض علماء نے کہا : ہابیل سویا ہوا تھا تو قابیل آیا اور پتھر سے اس کا سر کچل دیا جیسا کہ آگے آئے گا : اور آدمی کا ظالم سے دفاع کرنا جائز ہے اگرچہ وہ دشمن کو دفاع میں قتل بھی کر دے۔ بعض علماء نے فرمایا : اگر تو میرے قتل سے ابتدا کرے گا تو میں تجھے کبھی قتل نہیں کروں گا، بعض نے فرمایا : اس کا معنی ہے اگر تو ظلما میری طرف ہاتھ بڑھائے گا تو میں ظلم کرنے والا نہیں، میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” انی ارید ان تموا باثمی واثمک “۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی نبی مکرم ﷺ کے قول : اذا التقی المسلمان بسیفیھما فالقاتل والمقتول فی النار “ ، جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواروں کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں ہیں، کے معنی کی طرح ہے، عرض کی گئی : یا رسول اللہ ! یہ قاتل (اس کے دوزخ میں ہونے کی سمجھ آتی ہے) مقتول کے دوزخ میں ہونے کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا :” وہ بھی تو اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا حریص تھا “۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 9) گویا ہابیل نے ارادہ کیا کہ میں تیرے قتل پر حریص نہیں ہوں مجھے گناہ لاحق ہوتا اگر میں تیرے قتل پر حریص ہوتا، میں چاہتا ہوں کہ تو اپنے گناہ کے ساتھ میرا گناہ بھی اٹھائے، بعض نے فرمایا : باثمی کا مطلب ہے میرا گناہ جو میرے ساتھ خاص ہے جس میں مجھ سے کوتاہی ہوئی، یعنی میرے گناہوں میں سے لیا جائے اور تیرے مجھ پر ظلم کرنے کے سبب وہ گناہ تجھ پر ڈالا جائے اور تو اپنے گناہ کے ساتھ میرے گناہ کو اٹھائے اس کی تائید نبی کریم ﷺ کا ارشاد کرتا ہے ” قیامت کے روز ظالم اور مظلوم کو لایا جائے گا، تو ظالم کی نیکیاں لی جائیں گی اور مظلوم کی نیکیوں میں اضافہ ہوگا حتی کہ انصاف دیا جائے گا اگر اس کی نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیوں سے لے کر ظالم پر ڈال دی جائیں گی “۔ مسلم نے اس کا مفہوم تخریج کیا ہے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے، اس کی تائید اللہ تعالیٰ کا ارشاد کرتا ہے : (آیت) ” ولیحملن اثقالھم واثقالا مع اثقالھم “۔ (العنکبوت : 13) اور ضرور اٹھائیں گے اپنے بوجھ اور دو سے کئی بوجھ اپنے (گناہوں کے) بوجھوں کے ساتھ۔ یہ واضح ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے میں چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا گناہ اٹھائے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” والقی فی الارض رواسی ان تمیدبکم “۔ (النحل : 15) اور کھڑے کردیئے زمین میں اونچے اونچے پہاڑ تاکہ زمین ڈولتی نہ رہے تمہارے ساتھ۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یبین اللہ لکم ان تضلوا “۔ (النسائ : 176) یعنی لئلا تضلوا پس لا کو حذف کیا گیا۔ میں کہتا ہوں یہ ضعیف ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کوئی نفس ظلما قتل نہیں کیا جائے گا مگر اس کے خون کا بوجھ حضرت آدم کے پہلے بیٹے (قاتل) پر ہوگا، کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کی سنت قائم کی تھی “ (2) اس سے ثابت ہوا کہ قتل کا گناہ حاصل ہے اسی وجہ سے اکثر علماء نے فرمایا : معنی یہ ہے کہ میرے قتل کا گناہ اور تیرا گناہ جو تو نے میرے قتل سے پہلے کیا اس کے ساتھ تو لوٹے گا، ثعلبی نے کہا : یہ اکثر مفسرین کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ استفہام ہے یعنی کیا میں ارادہ کرتا ہوں ؟ یہ انکار کی جہت پر ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وتلک نعمۃ “۔ (الشعراء : 22) یعنی او تلک نعمۃ “۔ یہ اس لیے ہے، کیونکہ قتل کا ارادہ معصیت ہے، قشیری نے اس کو حکایت کیا ہے ابو الحسن ابن کیسان سے پوچھا گیا : مومن کیسے ارادہ کرتا ہے کہ اس بھائی گناہگار ہو اور وہ دوزخ میں جائے۔ تو ابو الحسن نے کہا : یہ ارادہ اس کی طرف قتل کے لیے ہاتھ بڑھانے کے بعد واقع ہوا، معنی یہ ہے کہ تو نے میری طرف مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا، میں تجھے اس سے ثواب کے ارادہ سے ضرور روکوں گا، ان سے کہا گیا : پھر اس نے باثمی واثمک کیسے کہا ؟ اسکا کیا گناہ تھا جب وہ قتل کیا گیا ؟ تو ابو الحسن نے کہا : اس کے تین جواب ہیں (1) (صحیح بخاری کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 9) تو اٹھائے میرے قتل کا گناہ اور اپنے گناہ کو جس کی وجہ سے اس نے تیری قربانی قبول نہیں کی، یہ قول مجاہد سے مروی ہے۔ (1) (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 241) دوسرا جواب یہ ہے کہ تو اٹھائے میرے قتل کا گناہ اور مجھ پر تجاوز کرنے کا گناہ، کیونکہ وہ تجاوز کرنے کی وجہ سے گناہگار ہوا تھا اگرچہ اس نے (ابھی) قتل بھی نہ کیا تھا۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ اگر وہ اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو گناہگار ہوتا جب وہ اس سے رک گیا تو اس کا گناہ اس کے مخالف کی طرف لوٹا، یہ تیرے اس قول کی مثل ہوگیا، المال بینہ وبین زید، یعنی مال دونوں کے درمیان ہے معنی یہ ہے کہ تو ہمارا گناہ اٹھائے، با کا معنی ہے وہ اپنی منزل کی طرف لوٹا، (آیت) ” وبآء و بغضب من اللہ “۔ (آل عمران : 112) یعنی وہ لوٹے، سورة بقرہ میں اس پر تفصیلا گفتگو گزر چکی ہے۔ شاعر نے کہا : الا تنتھی عنا ملوک وتتقی محارمنا لا یبوء الدم بالدم : یعنی قصاص میں خون کے ساتھ خون نہیں لوٹتا۔ (آیت) ” فتکون من اصحب النار “۔ یہ دلیل ہے کہ وہ اس وقت دونوں مکلف تھے انہیں وعدہ اور وعید لاحق ہوا، ہابیل نے اپنے بھائی قابیل سے کہا : (آیت) ” اصحب النار “۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ قابیل کافر تھا، کیونکہ (آیت) ” فتکون من اصحب النار “۔ کا لفظ قرآن میں جہاں بھی واقع ہوا ہے کفار کے بارے میں واقع ہوا ہے، یہ قول یہاں مردود ہے اس بنا پر جو ہم نے اس آیت کی تاویل میں مفسرین سے ذکر کیا ہے، (آیت) ” من اصحب النار “۔ کا معنی ہے تیرے دوزخ میں ہونے کی مدت۔ واللہ اعلم۔
Top