Al-Qurtubi - An-Najm : 20
وَ مَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى
وَمَنٰوةَ : اور منات کو الثَّالِثَةَ : تیسری الْاُخْرٰى : ایک اور
اور تیسرے منات کو (کہ یہ بت کہیں خدا ہوسکتے ہیں ؟ )
ومنوۃ الثالثۃ الاخری۔ ابن کثیر، ابن محیصن حمید، مجاہد، سلمی اور اعشی نے ابوبکر سے ومناءۃ مد اور ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے باقی قراء نے ہمزہ کو ترک کیا ہے یہ دونوں لغتیں ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، اسے یہ نام اس سلئے دیا گیا کیونکہ وہ اس بات کے پانچ جانور ذبح کیا کرتے تھے اور اس عمل کے ذریعے اس کا قرب حاصل کیا کرتے تھے۔ منیٰ کو منیٰ اس لئے کہتے ہیں کیونکہ اس میں بہت زیادہ جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ کسائی، ابن کثیر اور ابن محیصن ھاء پر وقف کرتے جس طرح اصل قاعدہ ہے باقی تاء پر وقف کرتے وہ مصف کے خط کا اتباع کرتے۔ صحاح میں ہے : مناۃ بت کا نام ہے جو بنو بذیل اور بنو خزاعہ کا تھا یہ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے درمیان تھا۔ ھاء تانیث کے لئے ہے تاء پر وقف کیا جاتا ہے یہ بھی ایک لغت ہے اس سے اہم منسوب منوی ہے۔ منوۃ کا لفظ کبھی الف مقصورہ کے ساتھ ہوتا ہے جیسے عبد مناۃ ابن ادبن طائجہ۔ زید مناۃ ابن تمیم بن مر۔ اور کبھی الف ممدو وہ کے ساتھ ہوتا ہے جیسے الاھل اتی التیم بن عبدمناءۃ محل استدلال مناءۃ ہے۔ الاخری عرب تیسرے کے لئے اخری کا لفظ استعمال نہیں کرتے الاخری یہ ثانیہ کی صفت ہے اس کی توجیہ میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔ خلیل نے ہا، یہ اس لئے کہا تاکہ آیات کے سرے موافق ہوجائیں (1) جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے مآرب اخری، اخیر نہیں کہا۔ حسین بن فضل نے کہا : آیت میں تقدیم و تاخیر ہے تقدیر کلام یہ بنتی ہے افرایتم اللاث والعزی الاخری و مناۃ الثالثۃ ایک قول یہ کہا گیا ہے : فرمایا ومنوۃ الثالثۃ الاخری کیونکہ مشرکوں کے نزدیک تعظیم میں اس کا مرتبہ لات و عزیٰ کے بعد تھا کلام اسی ترتیب پر ہے ہم نے ابن ہاشم سے یہ قول نقل کیا ہے کہ مناۃ تقدیم میں پ ہلے تھا اسی وجہ سے وہ ان کے نزدیک سب سے معزز تھا اللہ تعالیٰ بہت جانتا ہے۔ آیت میں حذف ہے جس پر کلام دلالت کرتی ہے تقدیر کلام یہ ہوگی افرایتم ھذہ الآلھۃ ھل نفعت او ضرت حتی تکون شرکاء للہ پھر شرمندگی دلانے کے انداز میں فرمایا : اللکم الذکر ولہ الانثی۔ یہ کلام ان کے قول ” فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور بت اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں “ کا رد کرنے کے لئے ہے۔ تلک اذا قسمۃ ضیزی۔ یہ تقسیم عدل کے خلاف اور غلط ہے اور حق سے دور ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : ضاز فی الحکم اس نے فیصلہ میں ظلم کیا۔ اس کا باب یوں ذکر کیا جاتا ہے ضازحقہ یضیزہ ضیزا یعنی اس نے حق میں کمی کی۔ بعض اوقات اسے مہموز کے انداز میں ذکر کیا جاتا ہے ضازہ یضازہ ضاز اور یہ شعر پڑھا : فقسمک مضوز وانفک راغم تیری تقسیم میں نقص ہے اور تیری ناک خاک آلود ہے۔ کسائی نے یوں باب ذکر کیا ہے ضاز یضیز ضیزا وضاز یضوز ضوزا وضاز یضاز ضازا جب وہ ظلم کرے، حد سے تجاوز کرے اور کمی کرے : شاعر نے کہا : ضازت بنو اسد بحکمھم اذ یجعلون الرس کالذنب (2) بنو اسد نے اپنے فیصلہ میں ظلم کیا کیونکہ وہ سر کو دم کی طرح بناتے ہیں۔
Top